اسرائیل کا ڈوبتا ہوا نامکمل سورج اور قصۂ طالوت و جالوت

اہلِ فلسطین کو کم از کم یہ اطمینان ضرور ہونا چاہیے کہ ہمارے پیچھے امتِ مسلمہ کھڑی ہے


’مسلم امہ‘ میں اتحاد و یگانگت کی کمی ہے۔ (فوٹو: فائل)

بنی اسرائیل کا 'حضرت طالوتؑ' کی سربراہی میں 'جالوت' سے مقابلہ ہوا تھا۔ سورۃ بقرۃ میں تفصیل کے ساتھ اس واقعے کا ذکر ہے جس میں 'جالوت' اور اس کے ساتھیوں سے بنی اسرائیل کو جذبۂ جہاد کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور اس جنگ میں 'جالوت' کو بدترین شکست بھی ہوئی تھی۔


حضرت طالوت نے جنگ سے پہلے کچھ اصول و ضوابط طے کیے تھے تاکہ ان ہی اصولوں پر رہتے ہوئے دشمن کو شکست دی جاسکے۔ اس دوران بنی اسرائیل نے کچھ سوالات بھی کیے۔


ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: پھر جب طالوت فوجیں لے کر نکلا، کہا بے شک اللہ ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے، جس نے اس نہر کا پانی پیا تو وہ میرا نہیں ہے اور جس نے اسے نہ چکھا تو وہ بے شک میرا ہے، مگر جو کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے (تو اسے معاف ہے)، پھر ان میں سے سوائے چند آدمیوں کے سب نے اس کا پانی پی لیا۔ پھر جب طالوت اور ایمان والے اس کے ساتھ پار ہوئے تو کہنے لگے آج ہمیں جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑنے کی طاقت نہیں۔ جن لوگوں کو خیال تھا کہ انہیں اللہ سے ملنا ہے وہ کہنے لگے بارہا بڑی جماعت پر چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے غالب ہوئی ہے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: 249)


مذکورہ آیت میں یہ بات بھی ذکر کی گئی ہے کہ ''یعنی وہ کہنے لگے بارہا بڑی جماعت پر چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے غالب ہوئی ہے۔''
یعنی تعداد میں کم ہونا کوئی اہمیت نہیں، اصل میں تو جذبۂ ایمانی ہونا ہے۔


مذکورہ آیت پر ذرا سا توقف کیجیے تو اب یہی معاملہ اسرائیل کے ساتھ الٹ ہوگیا ہے۔ جس طرح 'جالوت' کی طاقت کے آگے اس زمانے میں سب سر بہ سجود تھے، اسی طرح اسرائیل کو بھی اس وقت دنیا بھر میں حمایت (امریکا و یورپ وغیرہ) حاصل ہے، ان کے مقابلے میں تعداد میں کم لیکن جذبۂ ایمانی میں کہیں زیادہ (مسلم امہ کی طرف سے بھی حمایت نہ ہونے کے برابر، سوائے ایران اور چند دیگر کے) اہلِ ایمان موجود ہیں۔ وقتی طور پر یہ سمجھ لیجیے کہ آپ (اسرائیل) جالوت اور اس کے ساتھی ہیں جب کہ آپ کے مدِمقابل طالوت (اہلِ فلسطین) اور ان کے ساتھی ہیں۔ تو گھبرائیے نہیں، ابھی تو ابتدا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ لیکن پھر بھی اس وقت اہلِ فلسطین کو یہ ضرور پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جو جنگی اصول بتائے ہیں، ان پر ضرور عمل پیرا ہوا جائے مثلاً: جنگ میں بوڑھوں کو نہ مارا جائے، عورتوں، بچوں اور درختوں کو آگ نہ لگائی جائے۔ مُثلہ نہ کیا جائے، وغیرہ۔


امتِ مسلمہ میں اتحاد و یگانگت کی کمی:


اس وقت ایک مسئلہ جو درپیش ہے وہ 'مسلم امہ' میں اتحاد و یگانگت کی کمی ہے۔ سعودی عرب ایک طرف، تو ایران ایک طرف۔ پاکستان ایک طرف تو اردن ایک طرف۔ اس صورتِ حال میں ہمارے لیے اپنا حق جتلانا بھی نامکمل سا لگتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارا ایک موقف نہیں، ہمارا ایک مقصد نہیں۔ امتِ مسلمہ کو اس وقت ایک ہونا چاہیے تاکہ اہلِ فلسطین کو کم از کم یہ سکون ضرور رہے کہ ہمارے پیچھے امتِ مسلمہ کھڑی ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔


یہ موقع سب سے غنیمت ہے:


اس وقت مسلکی، سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی اختلافات کو بھلاکر ایک ساتھ بیٹھ کر اسلامی ممالک کے سربراہانِ مملکت کو کوئی فیصلہ کرنا چاہیے، کیوں کہ اتحاد ہوگیا تو پھر ہمارا واضح موقف سامنے آئے گا۔ کسی کی طاقت سے نہ گھبرائیے۔ ہمارے پاس افغانستان کی تاریخ موجود ہے جب امریکا نے حملہ کیا تھا تو سب نے یہی سوچ لیا تھا کہ افغانستان صفحۂ ہستی مٹ جائے گا، لیکن تاریخ نے ثابت کردیا کہ اتحاد و یگانگت ہو اور جذبۂ ایمانی ہو، تو طاقت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ آج افغانستان کے معاملات بہت خوش اسلوبی سے طالبان کی سربراہی میں چل رہے ہیں۔


یہ موقع اس وقت سب سے زیادہ غنیمت ہے، کیوں کہ 'حماس' نے جس طرح حکمت عملی اپنائی ہے اس وقت اگر مزید انھیں حمایت مل گئی تو اسرائیل کی وہی پوزیشن ہوجائے گی جو 1948 سے قبل تھی۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں