پی ٹی آئی کے جو لوگ ٹھیک ہیں وہ قانونی دائرے میں رہ کر الیکشن لڑیں گے نگراں وزیراعظم
انتخابات میں کسی کی حمایت کریں گے اور نہ ہی کسی کیلیے ادارہ جاتی مداخلت ہوگی، نگراں وزیراعظم کی صحافیوں سے گفتگو
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ انتخابات میں کسی کی حمایت کریں گے اور نہ ہی کسی کیلیے ادارہ جاتی مداخلت ہوگی، پی ٹی آئی کے جو لوگ ٹھیک ہیں وہ قانونی دائرے میں رہ کر الیکشن لڑیں گے۔
نگراں وزیراعظم نے سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس پونے تین ماہ رہ گئے ہیں،ہم صرف الیکشن کرانے آئے ہیں، میری گفتگو پر مسلسل باتیں کی جاتی ہیں، مجھے وضاحتیں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی قانونی جماعت ہے جو لوگ ٹھیک ہیں وہ قانون کے دائرے میں رہ کر الیکشن لڑیں گے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میں کوئی مغل بادشاہ ہوں جو کہوں کوئی لڑے گا یا نہیں، ہم کسی کو فیور دیں گے نہ ہی کسی کیلئے ادارہ جاتی مداخلت ہوگی۔
غیر قانونی مہاجرین کے حوالے سے انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ صرف ان افغان مہاجرین کو نکال رہے ہیں جو رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بھارت ملوث ہے، بی ایل اے پاکستان کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور اُس نے 350 لوگوں کو اپنا ہیرو قرار دیا ہے، اس جنگ میں ہمارے 80 ہزار لوگ شہید ہوئے جن پر کوئی بات نہیں کرتا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان حکومت کا ترجمان تھا تب بھی خود کو ریاست کا ترجمان کہتا تھا،ہمیں لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنا ہے، جس نے غلطی کی اسے سزا ملنا چاہیے، اختر مینگل کہتے ہیں سات سے نو ہزار لوگ لاپتہ ہیں مگر جب ڈیٹا مانگیں تو نہیں دیتے اسی طرح اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی سامنے آیا کہ بلوچستان سے سو کے قریب لوگ جبری لاپتہ ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک شخص بھی جبری لاپتہ نہیں ہونا چاہیے،مگر یہاں باتیں زیادہ کی جاتی ہیں، ماماقدیر کو انگیج کرنے کیلئےا سٹیٹ نے کچھ لوگ ہینڈ اوورکئے ہیں، ریاست کب کیا کر رہی ہے یہ بتایا نہیں جاتا، پاکستان ایک ریاست ہے یہاں سب کرداروں کو دیکھنا ہوتا ہے۔ کیا بلوچستان میں انڈیا کے اسپانسرڈ لوگ نہیں ہیں۔
انوار الحق کاکڑ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ راجہ ریاض سے پوچھ لیں میرا نام کس نے دیا تھا، تعیناتی سے ایک ہفتے قبل مجھ سے پوچھا گیا تو میرا جواب تھا کہ نگراں وزیراعظم بننا میرے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈیڑھ ماہ میں پیٹرول، ڈیزل کی اسمگلنگ کو روکا، ایران سے روزانہ پیٹرول، ڈیزل کی 27 ہزار گاڑیاں آرہی تھیں، تیل کی اسمگلنگ سے مل کو ایک ارب روپے کا نقصان ہورہا تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب ہم نے اسمگلنگ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو مجھے کہا گیا اس سے لوگوں کے روزگار وابستہ ہیں اس پر میرا جواب تھا کہ خالی اسامیوں پر لوگوں کو بھرتی کرلیں۔
نگراں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نومئی کے واقعات میں سب کو پتہ ہے کون کیا کر رہاہے، کسی کو پریس کانفرنس کر کے رعایت نہیں ملے گی، اس معاملے میں علی محمد خان کا کیس سب کے سامنے ہے، پریس کانفرنس کرنے والوں کو بھی قانون کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، نومئی کے واقعات میں عدالتیں اپناکام کریں گی اور ریاست کا اپنا فیصلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں صرف عمران خان نہیں، نوازشریف ہیں،بھٹو تھے، واشنگٹن پوسٹ نے د و امریکی شہریوں کی گرفتاری کا پوچھا، جس پر انہیں بتایا کہ ہم نے کوئی قانون تو نہیں بنایا کہ امریکیوں کو یہاں لوٹ مار کی اجازت ہو۔
ایک سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ریاستی سطح پر کسی نے بات نہیں کی البتہ کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اسرائیل پربحث ہو اس لئے بات سامنے آئی۔
ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ تقررو تبادلے ہم نے الیکشن کمیشن کے مشورے سے کرنا ہیں سیاسی جماعتوں سے پوچھ کر نہیں، کیا اختر مینگل سے پوچھیں انہوں نے کون سا ڈی سی لگوانا ہے؟۔
نگراں وزیراعظم نے سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس پونے تین ماہ رہ گئے ہیں،ہم صرف الیکشن کرانے آئے ہیں، میری گفتگو پر مسلسل باتیں کی جاتی ہیں، مجھے وضاحتیں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی قانونی جماعت ہے جو لوگ ٹھیک ہیں وہ قانون کے دائرے میں رہ کر الیکشن لڑیں گے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میں کوئی مغل بادشاہ ہوں جو کہوں کوئی لڑے گا یا نہیں، ہم کسی کو فیور دیں گے نہ ہی کسی کیلئے ادارہ جاتی مداخلت ہوگی۔
غیر قانونی مہاجرین کے حوالے سے انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ صرف ان افغان مہاجرین کو نکال رہے ہیں جو رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بھارت ملوث ہے، بی ایل اے پاکستان کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور اُس نے 350 لوگوں کو اپنا ہیرو قرار دیا ہے، اس جنگ میں ہمارے 80 ہزار لوگ شہید ہوئے جن پر کوئی بات نہیں کرتا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان حکومت کا ترجمان تھا تب بھی خود کو ریاست کا ترجمان کہتا تھا،ہمیں لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنا ہے، جس نے غلطی کی اسے سزا ملنا چاہیے، اختر مینگل کہتے ہیں سات سے نو ہزار لوگ لاپتہ ہیں مگر جب ڈیٹا مانگیں تو نہیں دیتے اسی طرح اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی سامنے آیا کہ بلوچستان سے سو کے قریب لوگ جبری لاپتہ ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک شخص بھی جبری لاپتہ نہیں ہونا چاہیے،مگر یہاں باتیں زیادہ کی جاتی ہیں، ماماقدیر کو انگیج کرنے کیلئےا سٹیٹ نے کچھ لوگ ہینڈ اوورکئے ہیں، ریاست کب کیا کر رہی ہے یہ بتایا نہیں جاتا، پاکستان ایک ریاست ہے یہاں سب کرداروں کو دیکھنا ہوتا ہے۔ کیا بلوچستان میں انڈیا کے اسپانسرڈ لوگ نہیں ہیں۔
انوار الحق کاکڑ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ راجہ ریاض سے پوچھ لیں میرا نام کس نے دیا تھا، تعیناتی سے ایک ہفتے قبل مجھ سے پوچھا گیا تو میرا جواب تھا کہ نگراں وزیراعظم بننا میرے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈیڑھ ماہ میں پیٹرول، ڈیزل کی اسمگلنگ کو روکا، ایران سے روزانہ پیٹرول، ڈیزل کی 27 ہزار گاڑیاں آرہی تھیں، تیل کی اسمگلنگ سے مل کو ایک ارب روپے کا نقصان ہورہا تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب ہم نے اسمگلنگ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو مجھے کہا گیا اس سے لوگوں کے روزگار وابستہ ہیں اس پر میرا جواب تھا کہ خالی اسامیوں پر لوگوں کو بھرتی کرلیں۔
نگراں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نومئی کے واقعات میں سب کو پتہ ہے کون کیا کر رہاہے، کسی کو پریس کانفرنس کر کے رعایت نہیں ملے گی، اس معاملے میں علی محمد خان کا کیس سب کے سامنے ہے، پریس کانفرنس کرنے والوں کو بھی قانون کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، نومئی کے واقعات میں عدالتیں اپناکام کریں گی اور ریاست کا اپنا فیصلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں صرف عمران خان نہیں، نوازشریف ہیں،بھٹو تھے، واشنگٹن پوسٹ نے د و امریکی شہریوں کی گرفتاری کا پوچھا، جس پر انہیں بتایا کہ ہم نے کوئی قانون تو نہیں بنایا کہ امریکیوں کو یہاں لوٹ مار کی اجازت ہو۔
ایک سوال کے جواب میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ریاستی سطح پر کسی نے بات نہیں کی البتہ کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اسرائیل پربحث ہو اس لئے بات سامنے آئی۔
ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ تقررو تبادلے ہم نے الیکشن کمیشن کے مشورے سے کرنا ہیں سیاسی جماعتوں سے پوچھ کر نہیں، کیا اختر مینگل سے پوچھیں انہوں نے کون سا ڈی سی لگوانا ہے؟۔