فلسطین اسرائیل تنازع کا اہم موڑ

مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عرب ممالک اور دوسرے مسلم ممالک کو ایک ساتھ آگے آنا چاہیے

مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عرب ممالک اور دوسرے مسلم ممالک کو ایک ساتھ آگے آنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

حماس اور اسرائیل کے درمیان تیسرے روز بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے، جس پر ہونے والا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہوگیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق حماس کے اسرائیل پر حملے میں 70 سے زائد فوجیوں سمیت 700 کے قریب یہودی آبادکار ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ اسرائیلی بمباری میں بھی شہید فلسطینیوں کی تعداد 400 سے زائد ہوگئی۔ دوسری جانب پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے خاتمے، دیرپا امن اور شہریوں کے تحفظ کے لیے مل کر کام کرے۔

سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ ظلم کو روکنے میں ناکام کیوں ثابت ہوتا ہے؟ اقوام متحدہ اسرائیل پر لگام کیوں نہیں لگاتا۔ جب سے اسرائیل نام کی ریاست مشرق وسطیٰ میں وجود میں لائی گئی ہے، پورا مشرق وسطیٰ بد امنی اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔ چند ممالک کو چھوڑ کر کہیں بھی سکون، سلامتی اور ترقی نہیں ہے۔

امریکا کا دہرا کردار ایک مرتبہ پھر سب کے سامنے طشت ازبام ہوا ہے کہ اس نے کھل کر اسرائیل کے حملوں کی حمایت کی۔ اسرائیل نے بے گناہ بچوں اور خواتین پر حملہ کر کے انھیں مار دیا۔ اسکولوں پر بمباری کی گئی، اسپتال، پانی کی ٹنکی، رہائشی مکانات اور میڈیا کے دفاتر پر حملہ کیا گیا، یعنی واضح طور پر انسانی حقوق کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے لیکن اس کے باوجود خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہلانے والے امریکا اور یورپین ممالک نے اسرائیل کی حمایت کی، آخر یہ کیسی انسانیت ہے۔

انسانی حقوق کا یہ کون سا پیمانہ ہے۔ کیا معصوم بچوں کا قتل امریکا اور یورپ کی نظر میں جرم اور دہشت گردی نہیں ہے۔ آخر ہیومن رائٹس اور انسانیت کے نام پر یہ دہرا معیار کیوں؟ دوسری طرف اقوام متحدہ بے بسی اور بے حسی کا شکار ہے۔ 75 سالوں میں اس ادارے کی وجہ سے مسلمانوں پر ہر طرف سے ظلم ہوا ہے، آج تک کوئی انصاف نہیں مل سکا ہے۔

دراصل طاقت کے زعم میں مبتلا اسرائیل کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ چھ اکتوبر کا دن اس کے لیے ایک بھیانک خواب بن جائے گا، جس دن اسرائیل کی خود ساختہ نمبر ون انٹیلی جنس اور جدید اسلحے و ٹیکنالوجی سے لیس فوج ترنوالہ ثابت ہوئی۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے اسرائیل کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی اور منظم انداز سے شروع کیے گئے 'آپریشن الاقصیٰ فلڈ' میں اب تک 1000 سے زائد اسرائیلی شہری اور فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔

فلسطین دنیا کے قدیم ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ مختلف قوموں نے مختلف اوقات میں یہاں حکمرانی کی ہے۔ انبیاء کرام کا مسکن اور مرکز بھی یہ سر زمین رہی ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام میں سے جن کا تذکرہ قرآن کریم میں ہے، ان میں سے متعدد کا مرکز یہی علاقہ رہا ہے۔ یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں کا مذہبی لگاؤ بھی اس خطے سے ہے۔ رومن امپائر بھی یہاں تھی۔

عیسائیوں کی بھی حکومت رہی اور مسلمانوں نے بھی طویل عرصے تک یہاں حکومت کی۔ مسلمانوں نے اپنے دور اقتدار کے دوران دوسرے مذاہب کے شہریوں کو بھی رہنے اور جینے کا مکمل حق دیا کسی کو جلا وطنی پر مجبور نہیں کیا، کسی کو بے وطن نہیں کیا لیکن بیسویں صدی میں یہاں کے حقیقی شہریوں اور باشندوں سے ان کا وطن چھین کر باہر سے آئے لوگوں کو بسا دیا گیا۔

برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے فلسطینیوں اور عربوں کے گھروں میں جرمنی، آسٹریلیا، فرانس، اندلس اور دنیا کے دیگر خطے سے آئے لوگوں کو آباد کردیا اور 14مئی 1948 کو اسرائیل نام کی ریاست قائم کر کے یہاں برسوں سے آباد عربوں کو بے گھر کردیا۔ اقوام متحدہ نے بھی اسے تسلیم کر لیا اور عالمی طاقتوں کے سہارے اسرائیل اپنا رقبہ وسیع کرتا رہا ہے۔

1948 میں اسرائیل کا رقبہ پچاس فیصد سے بھی کم تھا اور اب فلسطین کی 87 فیصد اراضی پر اسرائیل کا قبضہ ہوچکا ہے اور آئے دن یہودی آباد کاری کا سلسلہ جاری ہے۔ ویسٹ بینک، مقبوضہ بیت المقدس اور غزہ کو بھی اسرائیل اپنا حصہ بنانا چاہتا ہے اور مکمل طور پر فلسطین کا خاتمہ اس کی پلاننگ کا حصہ ہے۔

اپنے اسی مقصد کے لیے اسرائیل لگا تار فضائی حملہ کرکے فلسطین کے بے گناہ شہریوں کو مارتا رہتا ہے اور انھیں فلسطین چھوڑنے پر مجبورکرتا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بندوق کے جواب میں پتھر چلا کر اسرائیل کی دہشت گردی سے خود کو بچانا چاہتے ہیں تو اسے دہشت گردی کا نام دے دیا جاتا ہے۔


1948 سے لے کر اب تک اگر اسرائیلی ریاست قائم ہے اور اس کی قوت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیل کو کارنر کرنے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ اسرائیل کا قیام عالمی طاقتوں کے ہاتھوں عمل میں آیا ہے اور اس کی بقا اور قوت کے پیچھے بھی وہی طاقتیں کارفرما ہیں۔ ایک محدود آبادی والے چھوٹے سے ملک کو ساری مسلم دنیا مل کر بھی ہڑپ کیوں نہ کر سکی؟

کیا اس کی وجہ یہی نہیں کہ ہمارا اصل مقابلہ صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں بلکہ اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقتور ریاستوں سے بھی ہمیں نبرد آزما ہونا ہے۔ کیا ہم کبھی اس قابل ہوئے ہیں کہ ہتھیاروں کی اپنی سپلائی لائن کے ساتھ ان طاقتوں کو چیلنج کر سکیں؟

اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن، فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) چیئرمین یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر خارجہ شیرون پیریز نے تیرہ ستمبر 1993 میں وائٹ ہاؤس میں جس دستاویز پر دستخط کیے تھے، اسے اوسلو امن معاہدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

کیسی المناک ستم ظریفی ہے کہ تیس سال قبل جس امن کے قیام کے معمار کی حیثیت سے ایک نہیں دو نہیں تین تین اشخاص کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا وہ امن آج تک قائم نہیں ہوسکا ہے! یہ معاہدہ ان خفیہ مذاکرات کا نتیجہ تھا جو ناروے میں اسرائیلی اور فلسطینی نمایندوں کے درمیان کئی ماہ تک چلے تھے۔ متحارب فریقین کو قریب لانے میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اہم کردار نبھایا۔

اقوام عالم نے اس کا خیرمقدم کیا کیونکہ اس سے یہ امید پیدا ہوئی کہ اسرائیل مقبوضہ علاقے خالی کر دے گا، فلسطینی باشندوں کو حق خود ارادیت فراہم کرے گا اور خطے میں پچاس سال سے جاری جنگ و جدل پر لگام لگے گی اور پائیدار امن قائم ہوگا۔ پی ایل او اور اسرائیل نے ایک دوسرے کو تسلیم کرلیا اور دیرینہ دشمن رابن اور عرفات ہاتھ ملا کر امن کے عمل میں شراکت دار بن گئے۔

فلسطینیوں کو پہلے محدود خود مختاری اور بعد میں آزادی دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایک عبوری معاہدہ تھا جس کی میعاد 1999کے اواخر تک تھی۔ اس معاہدہ کا مقصد ایک آزاد خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔ یہ مجوزہ ریاست مغربی کنارہ، غزہ اور مشرقی یروشلم (جہاں بیت المقدس واقع ہے) کے ان علاقوں پر مشتمل ہوتی جو اسرائیل کے فوجی قبضے میں تھے۔

پلان کے مطابق اسرائیل اور فلسطین دو اچھے ہمسائیوں کی طرح امن اور ہم آہنگی سے ایک ساتھ رہتے۔ اس دو ریاستی فارمولہ کو نہ صرف عرب ممالک بلکہ عالمی برادری کی حمایت بھی حاصل ہوئی۔ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں مغربی کنارہ میں فلسطینی اتھارٹی کا قیام تو عمل میں آیا لیکن فلسطینیوں کی خود مختاری ایک سراب ثابت ہوئی۔ مغربی کنارہ کا بیشتر علاقہ ابھی بھی اسرائیل کے زیر تسلط ہے۔

اوسلو معاہدہ کی بنیاد Land for Peace ( زمین برائے امن) پر رکھی گئی تھی۔ رابن نے یہودیوں کی سلامتی اور تحفظ کی خاطر مقبوضہ علاقوں سے یہودی آباد کاروں کو ہٹالینے اور فلسطینیوں کو ان کی زمین واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ 1993میں مغربی کنارے میں آباد کاروں کی تعداد ایک لاکھ تھی جو پچھلے تیس برسوں میں بڑھ کر چار لاکھ ہوگئی ہے۔

نیتن یاہو اس وقت جن شدت پسند دائیں بازو والی سیاسی طاقتوں کے ساتھ حکومت کررہے ہیں وہ فلسطینی علاقوں کو فلسطینی باشندوں سے خالی کروا کے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کرنے پر مصر ہیں۔ 2018میں نیتن یاہو نے پارلیمنٹ میں ایک قانون پاس کروا کے اسرائیل کو صرف یہودی باشندوں کی قومی ریاست میں تبدیل کردیا جہاں کسی غیر یہودی کو حق خودارادیت حاصل نہیں ہوگا اور یہودی آباد کاروں کے لیے نئی بستیاں تعمیر کرنا ریاست کا قومی فریضہ بنادیا گیا۔

مطلب یہ کہ فلسطینی زمین ضبط کرنے کا لائسنس حاصل کرلیا گیا ہے۔ امریکا نے اوسلو معاہدے کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سابق صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرکے یہ ثابت کر دیا کہ امریکا دیانت دار ثالث نہیں بلکہ صہیونیوں کا طرفدار ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اوسلو معاہدے کے دوران مرکزی مسائل کو مستقبل میں طے کرنے کی اسرائیلی تجویز کو منظور کرکے فلسطینی قیادت نے بھاری بھول کی۔ اسرائیل کی سرحدوں، فلسطینی رفیوجیوں اور یروشلم کو مجوزہ فلسطینی ریاست کے دارالحکومت بنانے کے فیصلوں کو آخری مرحلے کے مذاکرات تک موخر کردینے کی رابن کی تجویز کو عرفات کو مسترد کردینا چاہیے تھا۔

مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عرب ممالک اور دوسرے مسلم ممالک کو ایک ساتھ آگے آنا چاہیے اورکوئی روڈ میپ تیارکرنا چاہیے کیونکہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیا بھرکے عوام، حقوقِ انسانی کے علمبرداروں، حقوق انسانی کے کارکنان اور تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور ہر ایک انسان کی بنیادی ذمے داری ہے اسے حل کرنا،کیونکہ یہ پوری عالم انسانیت کا مسئلہ ہے۔
Load Next Story