این آراوعملدرآمد کیس وزیراعظم حاضری سے مستثنیٰ سماعت 25 ستمبرتک ملتوی
سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کی جانب سے سوئس حکام کو لکھا گیا خط واپس لے لیا جائے گا ۔ وزیراعظم
CAPE TOWN:
این آر او عملدرآمد کیس میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو حاضری سے مستثنیٰ قراردیتے ہوئے سماعت 25ستمبرتک ملتوی کردی۔
جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے این آر او عملدرآمد کیس میں سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر وزیر اعظم کو شوکاز نوٹس کی سماعت کی، عدالت نے حکومت کو خط لکھنے کے مسودے کے لئے 25 ستمبر تک کی مہلت دے دی جبکہ عدالت کی طرف سے وزیر اعظم کو پیشی سے استثنیٰ بھی مل گیا، وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے استدعا کی کہ خط لکھنے سے متعلق 28 ستمبر تک کی مہلت دی جائے تاکہ ایک ایسا متن تیار کیا جائے جو فیڈریشن اور عدالت دونوں کو قبول ہو۔
وزیر اعظم نے عدالت کے روبروپیش ہو کر کہا کہ اس معاملے پرتین ہفتے میں نے کافی غور کیا ہے، اس کیس کی وجہ سے نہ صرف حکومت بلکہ عوام میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے، وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اس مسئلےکی تمام پیچیدگیوں کو دیکھا ہے اور عدالت سے بھی وہ امید کرتے ہیں کہ وہ بھی صدر کے عہدے کا خیال رکھے گی، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں اس معاملےکو اس انداز میں حل کرنا چاہتا ہوں کہ عدالت، صدر اور پارلیمنٹ کا وقار برقرار رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کی جانب سے سوئس حکام کو لکھا گیا خط واپس لے لیا جائے گا۔
اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا عدالت بھی یہی چاہتی ہے کہ یہ باب جلد بند کردیا جائے۔ آپ وزیر قانون سے کہیں کہ خط جنیوا کے اٹارنی جنرل کو لکھ کر عدالت کوآگاہ کریں۔
وفاقی وزیراطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عدالت کے احکامت کے مطابق آگے بڑھی ہے، 25 ستمبر کو وزارت قانون کی طرف سے خط لکھنے کا مسودہ سپریم کورٹ میں پیش کردیا جا ئے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور عدالت نے دانش مندی کا ثبوت دیا ہے، آج تمام افواہوں نے دم توڑدیا اوربہت بڑامسئلہ حل ہو گیا۔
اس موقع پر وفاقی وزیرفردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ جہاں عدالت نے لچک دکھائی وہا ں آج حکومت نے بھی درمیانی راستہ تجویز کیا ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ملکی قیادت عوامی مفاد میں کچھ بھی کر گزرنے کی سکت رکھتی ہے۔
وفاقی وزیر غلام احمد بلورکا کہنا تھا کہ یہ کسی کا ذاتی مسئلہ نہیں، یہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کا مسئلہ ہے، آج پارلیمنٹ اورعدلیہ جتنے قریب آئے ہیں اگر پہلے آجا تے تو بہت بہتر ہوتا۔
این آر او عملدرآمد کیس میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو حاضری سے مستثنیٰ قراردیتے ہوئے سماعت 25ستمبرتک ملتوی کردی۔
جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے این آر او عملدرآمد کیس میں سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر وزیر اعظم کو شوکاز نوٹس کی سماعت کی، عدالت نے حکومت کو خط لکھنے کے مسودے کے لئے 25 ستمبر تک کی مہلت دے دی جبکہ عدالت کی طرف سے وزیر اعظم کو پیشی سے استثنیٰ بھی مل گیا، وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے عدالت سے استدعا کی کہ خط لکھنے سے متعلق 28 ستمبر تک کی مہلت دی جائے تاکہ ایک ایسا متن تیار کیا جائے جو فیڈریشن اور عدالت دونوں کو قبول ہو۔
وزیر اعظم نے عدالت کے روبروپیش ہو کر کہا کہ اس معاملے پرتین ہفتے میں نے کافی غور کیا ہے، اس کیس کی وجہ سے نہ صرف حکومت بلکہ عوام میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے، وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اس مسئلےکی تمام پیچیدگیوں کو دیکھا ہے اور عدالت سے بھی وہ امید کرتے ہیں کہ وہ بھی صدر کے عہدے کا خیال رکھے گی، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں اس معاملےکو اس انداز میں حل کرنا چاہتا ہوں کہ عدالت، صدر اور پارلیمنٹ کا وقار برقرار رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کی جانب سے سوئس حکام کو لکھا گیا خط واپس لے لیا جائے گا۔
اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا عدالت بھی یہی چاہتی ہے کہ یہ باب جلد بند کردیا جائے۔ آپ وزیر قانون سے کہیں کہ خط جنیوا کے اٹارنی جنرل کو لکھ کر عدالت کوآگاہ کریں۔
وفاقی وزیراطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عدالت کے احکامت کے مطابق آگے بڑھی ہے، 25 ستمبر کو وزارت قانون کی طرف سے خط لکھنے کا مسودہ سپریم کورٹ میں پیش کردیا جا ئے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور عدالت نے دانش مندی کا ثبوت دیا ہے، آج تمام افواہوں نے دم توڑدیا اوربہت بڑامسئلہ حل ہو گیا۔
اس موقع پر وفاقی وزیرفردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ جہاں عدالت نے لچک دکھائی وہا ں آج حکومت نے بھی درمیانی راستہ تجویز کیا ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ملکی قیادت عوامی مفاد میں کچھ بھی کر گزرنے کی سکت رکھتی ہے۔
وفاقی وزیر غلام احمد بلورکا کہنا تھا کہ یہ کسی کا ذاتی مسئلہ نہیں، یہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کا مسئلہ ہے، آج پارلیمنٹ اورعدلیہ جتنے قریب آئے ہیں اگر پہلے آجا تے تو بہت بہتر ہوتا۔