مہاجر پرندوں کی آمد میں تشویشناک کمی ماہرین کا شکار کی اجازت واپس لینے کا مطالبہ
ہزاروں میل دور سے پرندے اپنی بقا اور خوراک کیلیے یہاں آتے ہیں اور پنجاب حکومت نے ان کے شکار کی اجازت دی ہوئی ہے
مہاجر پرندوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک کمی کے بعد جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیموں نے جنگلی جانوروں اور پرندوں کے شکار کی دی گئی اجازت واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب وائلڈ لائف کی طرف سے 31 مارچ تک مہاجر پرندوں کے شکار کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ پرندے موسم سرما میں سائبریا کے سرد علاقوں سے ہزاروں میل کی پرواز کے بعد اپنی بقا اورخوراک کی تلاش میں یہاں آتے ہیں اور یہاں ان کے شکار کی اجازت دے دی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے موسمیاتی تبدیلیوں، آب گاہوں کے خشک ہونے اور بے تحاشا شکار کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مہاجر پرندوں کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہوتی جارہی ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے کارکنوں نے جنگلی جانوروں اورپرندوں کے شکار پرمکمل پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
38 سالہ ملک ابراہیم کا تعلق شمالی لاہور کے علاقہ تلواڑہ سے ہے۔ وہ پرندوں کے شکار کے شوقین ہیں۔ ملک ابراہیم نے بتایا کہ اتوار کے روز وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مرغابیوں کا شکار کرتے ہیں۔ ان سمیت ان کے چند دوستوں نے پنجاب وائلڈلائف سے مرغابیوں کے شکارکا لائسنس حاصل کررکھا ہے ۔وہ لوگ گزشتہ کئی برسوں سے سیزن کے دوران مرغابیوں کا شکار کرتے ہیں۔
ملک ابراہیم کہتے ہیں کہ گزشتہ برسوں کی بہ نسبت اب راوی میں آنے والے مہمان پرندوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ اب یہاں بہت کم پرندے نظرآتے ہیں۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ وہ ان معصوم مہمان پرندوں کا شکار کیوں کرتے ہیں تو ملک ابراہیم نے ہنستے ہوئے جواب دیا یہ بس ان کا شوق ہے۔
ملک ابراہیم کی طرح ہزاروں شکاری ہرسال موسم سرما کے دوران صرف اپنے شوق کی تکمیل کے لئے ان مہمان پرندوں کا شکار کرتے ہیں۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کی ریڈلسٹ کے مطابق دنیا بھر میں گزشتہ 30 برس میں پرندوں کی 5 ہزار 412 اقسام ( 49 فیصد) کی آبادی میں کم ریکارڈ کی گئی ہے ،4 ہزار 234 (38 فیصد) کی آبادی مستحکم جبکہ صرف 659 (6 فیصد) کی آبادی میں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ برڈلائف انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پرندوں کی 223 انواع یعنی 8 میں سے ایک نسل معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کہتے ہیں مہاجرپرندے ہرسال 3 سے چار ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے پاکستان آتے ہیں اور یہاں مختلف آب گاہوں، جھیلوں اور ویٹ لینڈ پر قیام کرتے ہیں، پاکستان میں آبی پرندوں کی 700 اقسام ہیں جن میں سے 380 اقسام مہاجر پرندوں کی ہیں جو سال پاکستان آتے ہیں، پاکستان میں یہ مہمان پرندے مختلف آب گاہوں پر بسیرا کرتے ہیں، پاکستان میں آب گاہوں کی مجموعی تعداد 250 ہے جن میں سے 19 آب گاہوں کو عالمی درجہ حاصل ہے جنہیں رامسرسائٹس کہتے ہیں۔
انہوں ںے بتایا کہ رامسرسائٹس ایسے آبی علاقے کو کہتے ہیں جہاں ایک وقت میں 20 ہزار یا اس سے زائد مہاجر پرندے قیام کرتے ہیں، پاکستان آنے والے مہمان پرندوں میں مختلف اقسام کی کونجیں، بھگوش، چارو، چیکلو، لال سر، بنارو، چھوٹی بطخیں اور دوسرے بے شمار پرندے شامل ہیں۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے کارکن اور مشن اویئرنیس فاؤنڈیشن کے سربرا ہ فہد ملک کا کہنا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت جب ہمیں کھانے کے لیے گوشت عام میسر ہے تو جنگلی جانوروں اور پرندوں کے ہر قسم کے شکار پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے جس طرح بلوچستاں حکومت نے کیا ہے۔ قانونی شکار کے دوران کوئی بھی شکاری ایس اوپیز کا خیال نہیں رکھتا۔ مقردہ دن کا خیال رکھا جاتا ہے اورنہ پرندوں کی تعداد کا، شکاری بڑھ چڑھ کر پرندوں کا شکار کرتے اور پھر سوشل میڈیا پر فاخرانہ انداز میں ویڈیو اور تصاویرشیئر کی جاتی ہیں۔
فہد ملک کے مطابق مہاجر پرندوں کے شکار کے نام پر مقامی پرندوں خاص طور پر اربن وائلڈ لائف کو خطرات لاحق ہورہے ہیں۔ جب ایک شکاری دوستوں کے ہمراہ ہاتھوں میں گن اٹھائے شکار کے لئے نکلتا ہے تو پھر وہ خالی ہاتھ لوٹنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کس پرندے کا شکار جائز اور کس کا ناجائز ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف ہر سال شکار کے کتنے لائسنس جاری کرتا ہے اس سے متعلق کوئی حتمی ڈیٹا ادارے نے فراہم نہیں کیا تاہم پنجاب وائلڈ لائف کے شعبہ پبلسٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد رمضان کے مطابق لائسنس کی فیس 2300 روپے ہے جبکہ سال 2022ء میں محکمے کو لائسنس فیس کی مد میں 6 کروڑ،88 لاکھ 76 ہزار روپے آمدن ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سیزن کے دوران ہفتے میں صرف دو دن یعنی ہفتہ اور اتوار کو ہی شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر رمضان کے مطابق ایک شکاری زیادہ سے زیادہ دس پرندوں کا شکار کرسکتا ہے، تحفظ شدہ علاقوں، وائلڈ لائف سینچریز اور نیشنل پارکوں میں شکار کی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ بریڈنگ سیزن اپریل سے ستمبر تک بھی ہرقسم کے پرندوں کے شکارپرپابندی ہوتی ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور گرین پاکستان پروگرام کے ڈائریکٹر مدثرحسن کہتے ہیں مہاجر پرندوں کی آمد و رفت پورا سیزن (اکتوبر سے مارچ ) جاری رہتی ہے، اس وجہ سے عام جنگلی حیات کی طرح ان مہمان پرندوں کا سروے ممکن نہیں ہوتا ہے تاہم زولو جیکل سروے آف پاکستان مڈونٹر سروے کا اہتمام کرتا ہے، مڈ ونٹر واٹرفاؤل سروے سیٹیلائٹ کی مدد سے کیا جاتا ہے۔
انہوں نے یہ کہا کہ شکار کی اجازت دینے کا مقصد کبھی بھی ریونیو کا حصول نہیں رہا، یہ ایک سپورٹ ہنٹنگ ہے قانونی شکار کی اجازت دینے کا مقصد غیر قانونی شکار کو روکنا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب وائلڈ لائف کی طرف سے 31 مارچ تک مہاجر پرندوں کے شکار کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ پرندے موسم سرما میں سائبریا کے سرد علاقوں سے ہزاروں میل کی پرواز کے بعد اپنی بقا اورخوراک کی تلاش میں یہاں آتے ہیں اور یہاں ان کے شکار کی اجازت دے دی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے موسمیاتی تبدیلیوں، آب گاہوں کے خشک ہونے اور بے تحاشا شکار کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مہاجر پرندوں کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہوتی جارہی ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے کارکنوں نے جنگلی جانوروں اورپرندوں کے شکار پرمکمل پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
38 سالہ ملک ابراہیم کا تعلق شمالی لاہور کے علاقہ تلواڑہ سے ہے۔ وہ پرندوں کے شکار کے شوقین ہیں۔ ملک ابراہیم نے بتایا کہ اتوار کے روز وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مرغابیوں کا شکار کرتے ہیں۔ ان سمیت ان کے چند دوستوں نے پنجاب وائلڈلائف سے مرغابیوں کے شکارکا لائسنس حاصل کررکھا ہے ۔وہ لوگ گزشتہ کئی برسوں سے سیزن کے دوران مرغابیوں کا شکار کرتے ہیں۔
ملک ابراہیم کہتے ہیں کہ گزشتہ برسوں کی بہ نسبت اب راوی میں آنے والے مہمان پرندوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ اب یہاں بہت کم پرندے نظرآتے ہیں۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ وہ ان معصوم مہمان پرندوں کا شکار کیوں کرتے ہیں تو ملک ابراہیم نے ہنستے ہوئے جواب دیا یہ بس ان کا شوق ہے۔
ملک ابراہیم کی طرح ہزاروں شکاری ہرسال موسم سرما کے دوران صرف اپنے شوق کی تکمیل کے لئے ان مہمان پرندوں کا شکار کرتے ہیں۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کی ریڈلسٹ کے مطابق دنیا بھر میں گزشتہ 30 برس میں پرندوں کی 5 ہزار 412 اقسام ( 49 فیصد) کی آبادی میں کم ریکارڈ کی گئی ہے ،4 ہزار 234 (38 فیصد) کی آبادی مستحکم جبکہ صرف 659 (6 فیصد) کی آبادی میں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ برڈلائف انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پرندوں کی 223 انواع یعنی 8 میں سے ایک نسل معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کہتے ہیں مہاجرپرندے ہرسال 3 سے چار ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے پاکستان آتے ہیں اور یہاں مختلف آب گاہوں، جھیلوں اور ویٹ لینڈ پر قیام کرتے ہیں، پاکستان میں آبی پرندوں کی 700 اقسام ہیں جن میں سے 380 اقسام مہاجر پرندوں کی ہیں جو سال پاکستان آتے ہیں، پاکستان میں یہ مہمان پرندے مختلف آب گاہوں پر بسیرا کرتے ہیں، پاکستان میں آب گاہوں کی مجموعی تعداد 250 ہے جن میں سے 19 آب گاہوں کو عالمی درجہ حاصل ہے جنہیں رامسرسائٹس کہتے ہیں۔
انہوں ںے بتایا کہ رامسرسائٹس ایسے آبی علاقے کو کہتے ہیں جہاں ایک وقت میں 20 ہزار یا اس سے زائد مہاجر پرندے قیام کرتے ہیں، پاکستان آنے والے مہمان پرندوں میں مختلف اقسام کی کونجیں، بھگوش، چارو، چیکلو، لال سر، بنارو، چھوٹی بطخیں اور دوسرے بے شمار پرندے شامل ہیں۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے کارکن اور مشن اویئرنیس فاؤنڈیشن کے سربرا ہ فہد ملک کا کہنا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت جب ہمیں کھانے کے لیے گوشت عام میسر ہے تو جنگلی جانوروں اور پرندوں کے ہر قسم کے شکار پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیے جس طرح بلوچستاں حکومت نے کیا ہے۔ قانونی شکار کے دوران کوئی بھی شکاری ایس اوپیز کا خیال نہیں رکھتا۔ مقردہ دن کا خیال رکھا جاتا ہے اورنہ پرندوں کی تعداد کا، شکاری بڑھ چڑھ کر پرندوں کا شکار کرتے اور پھر سوشل میڈیا پر فاخرانہ انداز میں ویڈیو اور تصاویرشیئر کی جاتی ہیں۔
فہد ملک کے مطابق مہاجر پرندوں کے شکار کے نام پر مقامی پرندوں خاص طور پر اربن وائلڈ لائف کو خطرات لاحق ہورہے ہیں۔ جب ایک شکاری دوستوں کے ہمراہ ہاتھوں میں گن اٹھائے شکار کے لئے نکلتا ہے تو پھر وہ خالی ہاتھ لوٹنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کس پرندے کا شکار جائز اور کس کا ناجائز ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف ہر سال شکار کے کتنے لائسنس جاری کرتا ہے اس سے متعلق کوئی حتمی ڈیٹا ادارے نے فراہم نہیں کیا تاہم پنجاب وائلڈ لائف کے شعبہ پبلسٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد رمضان کے مطابق لائسنس کی فیس 2300 روپے ہے جبکہ سال 2022ء میں محکمے کو لائسنس فیس کی مد میں 6 کروڑ،88 لاکھ 76 ہزار روپے آمدن ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سیزن کے دوران ہفتے میں صرف دو دن یعنی ہفتہ اور اتوار کو ہی شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر رمضان کے مطابق ایک شکاری زیادہ سے زیادہ دس پرندوں کا شکار کرسکتا ہے، تحفظ شدہ علاقوں، وائلڈ لائف سینچریز اور نیشنل پارکوں میں شکار کی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ بریڈنگ سیزن اپریل سے ستمبر تک بھی ہرقسم کے پرندوں کے شکارپرپابندی ہوتی ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور گرین پاکستان پروگرام کے ڈائریکٹر مدثرحسن کہتے ہیں مہاجر پرندوں کی آمد و رفت پورا سیزن (اکتوبر سے مارچ ) جاری رہتی ہے، اس وجہ سے عام جنگلی حیات کی طرح ان مہمان پرندوں کا سروے ممکن نہیں ہوتا ہے تاہم زولو جیکل سروے آف پاکستان مڈونٹر سروے کا اہتمام کرتا ہے، مڈ ونٹر واٹرفاؤل سروے سیٹیلائٹ کی مدد سے کیا جاتا ہے۔
انہوں نے یہ کہا کہ شکار کی اجازت دینے کا مقصد کبھی بھی ریونیو کا حصول نہیں رہا، یہ ایک سپورٹ ہنٹنگ ہے قانونی شکار کی اجازت دینے کا مقصد غیر قانونی شکار کو روکنا ہے۔