ای او بی آئی …ایک اچھا ادارہ
ای او بی آئی نجی شعبہ کے ملازمین کو ریٹائرمنٹ، معزولی اورملازمین کے وفات کے بعد ان کے لواحقین کوپنشن دینے کا پابند ہے
غیر سرکاری اداروں اور کارخانوں میں کام کرنے والے کارکنوں اور مزدوروں کو سرکاری ادارہ Employees Old-age benefit institution (EOBI) پینش فراہم کرتا ہے۔
سابقہ اتحادی حکومت نے مزدوروں کو ماہانہ ملنے والی پنشن جو 8 ہزار 500 روپے تھی میں اضافہ کر کے 10 ہزار روپے کردی تھی مگر ا س فیصلے کے نوٹی فکیشن ہونے کے بعد تین ماہ کی تاخیر سے یہ رقم ان پنشنرزکو دی گئی۔
وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں نے اپنے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافے کے فیصلے پر یکم جولائی سے عمل درآمد ہوگیا تھا مگر نجی شعبے کے ملازمین تین ماہ تک انتظا کرتے رہے۔
ادھر اخبارات میں ایسی خبریں شایع ہو رہی کہ وفاقی حکومت نے ای او بی آئی کی مینجنگ گرانٹ بند کردی ہے ،آجر اپنے حصے کی رقم ادا کرنے کو تیار نہیں، یوں ای او بی آئی کا مستقبل مخدوش ہوتا نظر آرہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے یکم جولائی 1976 کو ایک قانون کے ذریعے ای او بی آئی کا ادارہ قائم کیا تھا۔ 1973 کے آئین کی شق 38 کو عملی شکل دینے کے لیے ای او بی آئی قائم ہوا۔ اس شق کے تحت ریاست اپنے شہریوں کو لازمی انشورنس دینے کی پابند ہے اور اس شق کے تحت یہ انشورنس شہری کے لواحقین کو بھی حاصل ہوگی۔
ای او بی آئی نجی شعبہ کے ملازمین کو ریٹائرمنٹ، معزولی اور ملازمین کے وفات کے بعد ان کے لواحقین کو پنشن دینے کا پابند ہے۔ اس ادارہ کے تین اسٹیک ہولڈر وفاقی حکومت، آجر اور تیسرے ملازمین ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ سے رقم ای او بی آئی کو فراہم کی جاتی ہے ۔ ای او بی آئی کے قانون کے تحت 5 کارکنوں پر مشتمل ادارے کو ای او بی آئی میں رجسٹرڈ کرانا ضروری ہے۔
سیکڑوں نجی ادارے ایسے جنھوں نے ای او بی آئی میں رجسٹریشن نہیں کرائی، جو آجر رجسٹرڈ ہیں وہ موجودہ اجرت کے بجائے پرانی اجرت کے مطابق ادائیگی کررہے ہیں جس کے نتیجے ای او بی آئی کا خسارہ بڑھنا شروع ہوا جو 2 کھرب تک پہنچ گیا۔
ای او بی آئی کے قانون کے تحت وفاقی حکومت ای او بی آئی کی جانب سے رجسٹرڈ آجر ان کی طرف سے وصول ہونے والی سالانہ کنٹری بیوشن کے مساوی رقم منیجنگ گرانٹ کے طور پر فراہم کرتی تھی مگر 1995 سے یہ رقم ادا نہیں کی گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1995 میں فنانس بل کے ذریعے گرانٹ کو ختم کیا گیا۔
ای او بی میں سیکڑوں سفارشی ملازمین بھرتی کیے گئے۔ یوں انتظامی معاملات کے ابتری کا شکار ہوئے اور مالیاتی خسارہ بھی بڑھتا چلا گیا۔ بہت سے آجروں نے اپنے کارکنوں کو ای اوبی آئی میں رجسٹر نہیں کرایا، بعض آجروں نے تو اپنے ادارے کے چند کارکنوں کو رجسٹرڈ کرایا، یوں رجسٹرڈ کارکنوں کی تعداد نہیں بڑھ سکی۔
ای او بی آئی کے واجبات اور اثاثہ جات کی ایکچوئل ویلوئیشن کرانا لازمی ہے جس کے بغیر کنٹری بیوشن اور پنشن کی شرح میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔
30 جون 2022میں ای او بی آئی کے واجبات اور اثاثہ جات کی گیارہویں تخمینہ کاری ہوئی تھی جس کی رپورٹ میں ایکچوئل ماہرین نے پنشن فنڈ میں 2.517 کھرب روپے کے مجموعی خسارہ کا انکشاف کیا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق سالانہ اوسطاً 40 ہزار پنشنرز اور 5.5 لاکھ سے زیادہ بیمہ دار افراد کا اضافہ ہورہا ہے جب کہ چار لاکھ سے زائد بزرگ، معذور اور بیوگان تاحیات پنشن سے مستفید ہو رہے ہیں، یوں ایک تخمینہ کے مطابق اوسطاً ایک گھرانہ کے تین افراد تقریباً 25 برس تک مستفید ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح مستقبل کے لاکھوں پنشنرزکی پنشن کی ادائیگی کی قانونی ذمے داری 2.965 کھرب روپے بنتی ہے ۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ای او بی آئی حالات مخدوش ہیں۔ ادارہ کے لیے اگلے پندرہ برسوں میں کارکنوں کو پنشن جاری کرنا مشکل ہوجائے گا۔
اس بحران کا ایک حل تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت قانون کے تحت ای او بی آئی کو میچنگ گرانٹ دینا دوبارہ شروع کرے۔ یہ گرانٹ 1995سے بند ہونے کے بعد سے جو رقم بچتی ہے وہ بھی ادا کی جائے۔ مزدوروں کی رجسٹریشن کے لیے حقیقی اقدامات ہونے چاہئیں، خاص طور پر اپنی روزی کمانے والے کارکنوں کو اس کی رجسٹریشن میں شامل ہونا چاہیے۔
اس طرح بلوچستان کے کان کنوں کی رجسٹریشن کا معاملہ بھی التواء کا شکار ہے۔ اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں مگر ان تمام مسائل کا حل ضروری ہے۔ ای او بی آئی واحد ادارہ ہے جو غیر سرکاری شعبہ میں مزدوروں کو پنشن دیتا ہے۔
اس کا دائرہ کار ہر صورت میں بڑھانا چاہیے۔ بھارت کی طرح ہر بالغ شہری کو پنشن نیٹ ورک میں شامل کرنے کے لیے منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔
تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے انتخابی منشور میں اس نکتے کو شامل کرنا چاہیے اور اقتدار میں آنے کے بعد منشور پر عملدرآمد ضروری ہے۔ اس طرح غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد میں کمی ہوسکتی ہے۔ ای او بی آئی کو برقرار اور قائم رکھنا موجودہ حالات میں انتہائی ضروری ہے۔
سابقہ اتحادی حکومت نے مزدوروں کو ماہانہ ملنے والی پنشن جو 8 ہزار 500 روپے تھی میں اضافہ کر کے 10 ہزار روپے کردی تھی مگر ا س فیصلے کے نوٹی فکیشن ہونے کے بعد تین ماہ کی تاخیر سے یہ رقم ان پنشنرزکو دی گئی۔
وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں نے اپنے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافے کے فیصلے پر یکم جولائی سے عمل درآمد ہوگیا تھا مگر نجی شعبے کے ملازمین تین ماہ تک انتظا کرتے رہے۔
ادھر اخبارات میں ایسی خبریں شایع ہو رہی کہ وفاقی حکومت نے ای او بی آئی کی مینجنگ گرانٹ بند کردی ہے ،آجر اپنے حصے کی رقم ادا کرنے کو تیار نہیں، یوں ای او بی آئی کا مستقبل مخدوش ہوتا نظر آرہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے یکم جولائی 1976 کو ایک قانون کے ذریعے ای او بی آئی کا ادارہ قائم کیا تھا۔ 1973 کے آئین کی شق 38 کو عملی شکل دینے کے لیے ای او بی آئی قائم ہوا۔ اس شق کے تحت ریاست اپنے شہریوں کو لازمی انشورنس دینے کی پابند ہے اور اس شق کے تحت یہ انشورنس شہری کے لواحقین کو بھی حاصل ہوگی۔
ای او بی آئی نجی شعبہ کے ملازمین کو ریٹائرمنٹ، معزولی اور ملازمین کے وفات کے بعد ان کے لواحقین کو پنشن دینے کا پابند ہے۔ اس ادارہ کے تین اسٹیک ہولڈر وفاقی حکومت، آجر اور تیسرے ملازمین ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ سے رقم ای او بی آئی کو فراہم کی جاتی ہے ۔ ای او بی آئی کے قانون کے تحت 5 کارکنوں پر مشتمل ادارے کو ای او بی آئی میں رجسٹرڈ کرانا ضروری ہے۔
سیکڑوں نجی ادارے ایسے جنھوں نے ای او بی آئی میں رجسٹریشن نہیں کرائی، جو آجر رجسٹرڈ ہیں وہ موجودہ اجرت کے بجائے پرانی اجرت کے مطابق ادائیگی کررہے ہیں جس کے نتیجے ای او بی آئی کا خسارہ بڑھنا شروع ہوا جو 2 کھرب تک پہنچ گیا۔
ای او بی آئی کے قانون کے تحت وفاقی حکومت ای او بی آئی کی جانب سے رجسٹرڈ آجر ان کی طرف سے وصول ہونے والی سالانہ کنٹری بیوشن کے مساوی رقم منیجنگ گرانٹ کے طور پر فراہم کرتی تھی مگر 1995 سے یہ رقم ادا نہیں کی گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1995 میں فنانس بل کے ذریعے گرانٹ کو ختم کیا گیا۔
ای او بی میں سیکڑوں سفارشی ملازمین بھرتی کیے گئے۔ یوں انتظامی معاملات کے ابتری کا شکار ہوئے اور مالیاتی خسارہ بھی بڑھتا چلا گیا۔ بہت سے آجروں نے اپنے کارکنوں کو ای اوبی آئی میں رجسٹر نہیں کرایا، بعض آجروں نے تو اپنے ادارے کے چند کارکنوں کو رجسٹرڈ کرایا، یوں رجسٹرڈ کارکنوں کی تعداد نہیں بڑھ سکی۔
ای او بی آئی کے واجبات اور اثاثہ جات کی ایکچوئل ویلوئیشن کرانا لازمی ہے جس کے بغیر کنٹری بیوشن اور پنشن کی شرح میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔
30 جون 2022میں ای او بی آئی کے واجبات اور اثاثہ جات کی گیارہویں تخمینہ کاری ہوئی تھی جس کی رپورٹ میں ایکچوئل ماہرین نے پنشن فنڈ میں 2.517 کھرب روپے کے مجموعی خسارہ کا انکشاف کیا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق سالانہ اوسطاً 40 ہزار پنشنرز اور 5.5 لاکھ سے زیادہ بیمہ دار افراد کا اضافہ ہورہا ہے جب کہ چار لاکھ سے زائد بزرگ، معذور اور بیوگان تاحیات پنشن سے مستفید ہو رہے ہیں، یوں ایک تخمینہ کے مطابق اوسطاً ایک گھرانہ کے تین افراد تقریباً 25 برس تک مستفید ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح مستقبل کے لاکھوں پنشنرزکی پنشن کی ادائیگی کی قانونی ذمے داری 2.965 کھرب روپے بنتی ہے ۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ای او بی آئی حالات مخدوش ہیں۔ ادارہ کے لیے اگلے پندرہ برسوں میں کارکنوں کو پنشن جاری کرنا مشکل ہوجائے گا۔
اس بحران کا ایک حل تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت قانون کے تحت ای او بی آئی کو میچنگ گرانٹ دینا دوبارہ شروع کرے۔ یہ گرانٹ 1995سے بند ہونے کے بعد سے جو رقم بچتی ہے وہ بھی ادا کی جائے۔ مزدوروں کی رجسٹریشن کے لیے حقیقی اقدامات ہونے چاہئیں، خاص طور پر اپنی روزی کمانے والے کارکنوں کو اس کی رجسٹریشن میں شامل ہونا چاہیے۔
اس طرح بلوچستان کے کان کنوں کی رجسٹریشن کا معاملہ بھی التواء کا شکار ہے۔ اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں مگر ان تمام مسائل کا حل ضروری ہے۔ ای او بی آئی واحد ادارہ ہے جو غیر سرکاری شعبہ میں مزدوروں کو پنشن دیتا ہے۔
اس کا دائرہ کار ہر صورت میں بڑھانا چاہیے۔ بھارت کی طرح ہر بالغ شہری کو پنشن نیٹ ورک میں شامل کرنے کے لیے منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔
تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے انتخابی منشور میں اس نکتے کو شامل کرنا چاہیے اور اقتدار میں آنے کے بعد منشور پر عملدرآمد ضروری ہے۔ اس طرح غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد میں کمی ہوسکتی ہے۔ ای او بی آئی کو برقرار اور قائم رکھنا موجودہ حالات میں انتہائی ضروری ہے۔