درخواستیں مسترد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قانون کے مطابق قرار
پانچ کے مقابلےمیں دس ججز نے اکثریتی فیصلہ دیا، پریکٹس اینڈ پروسیجز ایکٹ کا اطلاق ماضی سے کرنے کی شق غیر آئینی قرار
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بنچ سماعت کرتے ہوئے (فائل : فوٹو)
سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے خلاف تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے ایکٹ کو قانون کے مطابق قرار دے دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو ساڑھے پانچ بجے سنائے جانے کا کہا گیا تھا تاہم فیصلہ ساڑھے چھ بجے سنایا گیا جو کہ چیف جسٹس نے سنایا۔
سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف دائر تمام درخواستیں خارج کردیں۔ یہ اکثریتی فیصلہ ججز کے دس پانچ کے تناسب سے سنایا گیا جس میں دس ججز نے حق میں اور پانچ نے مخالفت میں فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ بینچ کے پانچ ججوں نے اختلافی نوٹ دیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن، منیب اختر، مظاہرنقوی، محمد شاہد وحید اور جسٹس عائشہ نے اختلافی نوٹ دیا ہے، مختصر فیصلہ دیا جارہا ہے تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجز ایکٹ کا اطلاق ماضی سے کرنے کی شق غیر آئینی قرار دے دی اور اس سے متعلق شق آٹھ ججز کی اکثریت نے مسترد کر دی تاہم آرٹیکل 184 تین کے تحت مقدمات کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دے دیا گیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ 9،6 کی اکثریت سے قانون بننے کے بعد اپیل کا حق آئینی قرار دیا جاتا ہے۔
اپیل کا حق ماضی سے دینے کی حمایت کرنے والوں میں چیف جسٹس، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔
اسی طرح چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کے معاملے پر 10 پانچ کے تناسب سے فیصلہ کیا گیا۔ 10ججز نے 184/3 کے لیے تین رکنی کمیٹی کے قیام کو درست قرار دیا۔ تین رکنی کمیٹی کی مخالفت کرنے والوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی نقوی شامل تھے۔ جسٹس سردار طارق، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ نے ایکٹ کے ماضی سے اطلاق کی شق کو برقرار رکھا۔
اٹارنی جنرل کے دلائل
قبل ازیں سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے روسٹم پر آکر اپنے دلائل میں کہا کہ تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں آپ سب باتیں دہرائیں گے نہیں ہائی لائٹ کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تین سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا، میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، آئین میں کئی جگہوں پر سبجیکٹ ٹو لا کی اصطلاح آئی اور پرائیویسی کا حق بھی سبجیکٹ ٹو لا رکھا گیا، کس نوعیت کا قانون ہوگا یہ نہیں بتایا گیا۔
انہوں نے دلائل میں کہا کہ سب سے پہلے ماسٹر آف روسٹر کے نکتہ پر دلائل دوں گا، 1956 کے رولز پر بھی عدالت میں دلائل دوں گا، اختیارات کی تقسیم اور پارلیمان کے ماسٹر آف روسٹر کے اختیار لینے پر دلائل دوں گا، فل کورٹ کی تشکیل اور اپیل کے حق سے محروم کرنے کے حوالے سے بھی دلائل دوں گا اور جو کہا جا چکا اس کو نہیں دہراؤں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 14,20,22,28 میں دیے گئے حقوق قانون کے مشروط ہیں، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے اور آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمان سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا، جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی اور اس میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کا حق قانون سازی ختم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے عدلیہ کی آزادی دی ہے مگر اپنا حق قانون سازی بھی ختم نہیں کیا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ 1973 سے پہلے رولز بنانے کا اختیار گورنر جنرل یا صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط تھا، آرٹیکل 8 کہتا ہے ایسی قانون سازی نہیں ہوسکتی جو بنیادی حقوق واپس لے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 قانون بنانے کا اختیار دیتا ہے، صرف عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل سوال ہی عدلیہ کی آزادی کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایاکہ قانون کا ایک حصہ ایکٹ آف پارلیمنٹ دوسرا عدالتی فیصلے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں ہے، اس نکتے پر تفصیلی دلائل پیش کروں گا، آرٹیکل 191 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے پابندی نہیں لگتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین میں لفظ لاء 200 سے زیادہ بار آیا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں جہاں بھی یہ لفظ لکھا وہ ایک تناظر میں دیکھا جائے گا، یہ ''ون سائز فٹ آل'' والا معاملہ نہیں ہے، جہاں بھی یہ لفظ لکھا ہے اس کی نوعیت الگ ہے۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 191میں پھر سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹوشن اینڈ لا کیوں ہے؟ یہ پھر صرف سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹیوشن کیوں نہیں رکھا گیا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 191 میں صرف لاء کا لفظ نہیں، یہ سبجیکٹ ٹولاء لکھا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عمومی حالات میں صوبے وفاق سے متعلقہ امور پر قانون سازی نہیں کر سکتے، معاملہ اگر صوبے کے عوام کے حقوق اور ہائی کورٹ کا ہو تو کیا ہوگا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 میں واضح ہے کہ ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد قانون میں مقرر ہوگی، آرٹیکل 191 میں کہیں نہیں لکھا کہ قانون بنے گا اور اسکے تحت رولز بنیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا ہے، پارلیمان نے آئین کو جاندار کتاب کے طور پر بنایا ہے کہ جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین ساز یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز تب تک بنائے جب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو جاتی، آئین سازوں کی نیت سے کہیں واضح نہیں ہے کہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز بدل سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے بھی قانون ہوں گے؟ عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اگر ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رول قانون ہیں تو سپریم کورٹ کے کیوں نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ رولز قانون ہوتے ہیں لیکن یہ آرٹیکل 191 میں استعمال شدہ لفظ قانون نہیں کہلائیں گے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اس حساب سے تو سپریم کورٹ 1980 میں کہہ سکتی تھی کہ کوئی قانون نہیں ہے تو ہم رولز نہیں بنا سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ اپنے حساب سے دلائل دیتے تو شاید اتنا مسئلہ نہیں ہوتا، بعض اوقات ہاں یا نہ میں جواب دینا ممکن نہیں ہوتا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق رولز عام طور پر قانون ہوتے ہیں تو عدالت لفظ قانون کی تشریح کس اصول پر کرے گی؟ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ رولز بننے کے بعد آرٹیکل 191 میں موجود لفظ قانون غیرموثر ہوگیا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے موجودہ کیس آرٹیکل 191 کا ہے تو تشریح اُس کے تناظر میں ہی ہوگی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون کی جتنی مرضی اقسام ہوں ایکٹ آف پارلیمنٹ آگیا تو بات ختم۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اگر رولز بھی قانون ہیں اور ایکٹ آف پارلیمنٹ بھی تو کیا یہ دو قوانین میں ٹکراؤ نہیں ہوگا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر پارلیمان یہ قانون بنائے کہ جیل اپیلیں دائر ہوتے ہی مقرر ہونگی تو یہ سپریم کورٹ رولز سے بالا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین پر عمل درآمد کے لیے ہی رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ رولز بننے کے بعد ایکٹ آف پارلیمنٹ کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ اگر سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی اتھارٹی نہیں دینی تھی تو آرٹیکل 191 کا مقصد ہی کیا ہے؟
سپریم کورٹ پورا ادارہ اور ٹائی ٹینک ہے ایک دم کیسے ادھر اُدھر موڑا جا سکتا ہے؟ جسٹس یحییٰ آفریدی
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ قانون سازی کا اصل مقصد آرٹیکل 184/3 تھا، جو مسئلہ تھا اسے ٹھیک کرتے پورے سسٹم کو کیوں اوپر نیچے کر دیا؟ سپریم کورٹ پورا ادارہ اور ٹائی ٹینک ہے ایک دم کیسے ادھر اُدھر موڑا جا سکتا ہے؟ غلطیاں اگر عدالت سے ہوئی ہیں تو پارلیمان اپنی طرف بھی دیکھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آئین میں گنجائش ہے کہ بینچز بنانے کا اختیار کسی ایک کو دیا جائے؟ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ بینچ کون بنائے گا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ پارلیمان نے تو ایک متفرق درخواست تک کے حوالے سے قانون بنا لیا، پارلیمان کو جو مسئلہ تھا اسے حل کرتے اور نتائج دیکھ کر پھر مزید قانون سازی ہوسکتی تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کئی کئی مہینوں تک مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوتے تھے، قانون سازی کا مقصد صرف ماسٹر آف روسٹرز نہیں تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت وفاقی حکومت کا جواب چاہتی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر پر عملدرآمد لازمی ہے یا نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر عمل درآمد لازمی ہے کیونکہ ججز کے حلف میں لکھا ہے کہ قانون کے پابند ہیں۔
میرے خیال میں پارلیمان نے سپریم کورٹ کی عزت کی اور رکھی، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں پارلیمان نے سپریم کورٹ کی عزت کی اور رکھی، آج ہی اگر ہر چیز کا جواب دے دیں گے تو کل کو یہی کیسز آگئے تو ہم ان آبزرویشنز کے پابند ہوں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ہم سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر پر عمل نہیں کریں گے تو کیا اپنے حلف کی خلاف ورزی کریں گے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان عدالت کی دشمن ہے نہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتی ہے، ساری دنیا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلتی ہے تو ہم بھی چل سکتے ہیں، پارلیمان سے منفی چیزیں کیوں منصوب کی جائیں؟ اداروں کو نہ لڑائیں میں تو کہوں گا جیو اور جینے دو۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کی روایات بھی آئین میں تسلیم شدہ ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئینی روایات ہر اُس ملک میں تسلیم شدہ ہیں جہاں تحریری آئین بھی موجود ہے، آئینی اور قانونی روایات میں تضاد ہو تو آئینی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 189 کے تحت کسی صورت روایات ماننے کے پابند نہیں ہیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ آئین میں ماسٹر آف روسٹر کا لفظ کہیں استعمال نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ماسٹر آف روسٹر کا لفظ دنیا میں سب سے پہلے کہاں استعمال ہوا؟ کیا انگلستان یا امریکا میں ماسٹر آف روسٹر کا لفظ استعمال ہوتا ہے یا ہماری ایجاد ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماسٹر کا لفظ اسکول میں ہم سنتے تھے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ آج فل کورٹ بیٹھی ہوئی ہے وہ اس حوالے سے تعین کر لے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا اسلام میں ماسٹر آف روسٹر کا کوئی تصور موجود ہے؟ اگر کلونیل سسٹم پر چلنا ہے تو آزادی لینے کا کیا فائدہ ہے؟ ماسٹر تو صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بعد ماسٹر آف روسٹرز کمیٹی ہوگی، ماسٹر آف روسٹر وہی کام کرے گی جو چیف جسٹس کرتا ہے، کیا کلونیل ہے کیا نہیں اس بحث میں نہ جائیں، ایک جج کے ہاتھ میں اختیار نہیں دینا تو تین کے کیوں؟ 14 ججز کو ایک جج کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا تو 12 کو تین پر کیسے چھوڑا جائے؟ اگر ماضی میں کسی چیف جسٹس نے اختیار فل کورٹ کو نہیں دیا تو آپ دیدیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے صرف ایک سوال ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی ہے یا نہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر غیرآئینی ہوا تو برقرار نہیں رہے گا، تلوار کے نیچے گردن ہو تو بھی لوگوں نے کلمہ پڑھا اور پڑھ لیا تو بات ختم، کسی کی نیت پر کیوں بات کریں، پارلیمان کو عزت دیں تاکہ وہ ہمارے فیصلوں پر عمل کریں، قانون اچھا یا برا ہونے پر بحث ہوسکتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ میرا ایک سوال قانون آئینی ہونے اور دوسرا پارلیمان کے اختیار کا تھا، پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کی شقیں کیسے آئین سے متصادم نہیں ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی ثابت کرنے کا بوجھ درخواست گزاروں پر ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ صرف یہ کہ دیں کہ درخواست گزار اپنا بوجھ اتارنے میں ناکام رہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے لیے پارلیمنٹ کو قانون سازی کے براہ راست اختیار کی ضرورت نہیں ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو بڑھانے سے متعلق پارلیمان براہ راست قانون سازی کر سکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو بڑھا سکتا ہے کم یا ختم نہیں کر سکتا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہائیکورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ سے متعلق پارلیمان کو براہ راست قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ یعنی جو آئینی پابندی ہائیکورٹس اور شریعت کورٹ کے لیے ہے وہ سپریم کورٹ کے لیے نہیں ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ حساس معاملہ ہے آپ شاید اس پر بات نہ کرنا چاہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر کچھ نہ کچھ بات ضرور کروں گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمان اپنا دائرہ اختیار نہیں بڑھا سکتی تو عدالت کیسے بڑھا سکتی ہے؟
سپریم کورٹ کو تو اپنے دائرہ اختیار میں توسیع پر خوش ہونا چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو تو اپنے دائرہ اختیار میں توسیع پر خوش ہونا چاہیے، اگر ایک لفظ کی دو تشریحات ہوں گی تو اس پر اصول کیا ہے کہ کون سی تشریح اپنائی جائے گی؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 184 اور 185 میں سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بھی چاہتے ہیں باریکیوں میں الجھائے رکھا جائے موٹی بات نہ کریں، ملک نے آگے بھی بڑھنا ہے، ہم غلطی کریں تو کوئی بتانے کی بھی مجال نہ کرے دوسرا کرے تو ہم سرزنش کریں، آپ اٹارنی جنرل برائے پاکستان ہیں رکن پارلیمان نہیں جو انکا دفاع کریں، حکومت اور پارلیمان میں فرق ہوتا ہے، لگتا ہے آپ کو میرا سوال پسند نہیں آیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس میں کہا کہ ہم دوسرے آئینی ادارے کے اختیار پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، سپریم کورٹ خود اختیار نہ ہونے پر کیا کچھ نہیں کرچکی اس پر کیوں بات نہیں کرتے؟ ایک بینچ نے فیصلہ کیا، دوسرے بینچ نے اسے ختم کر دیا، یہ نہ نظرثانی کا اختیار تھا نہ ہی اپیل کا، معاملہ اگر صرف دائرہ اختیار کا ہے تو اس کیس میں بھی نظرثانی دائر کریں، ملک کیساتھ بہت کھلواڑ ہوگیا ہے اب نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ججز کو کس اختیار کے تحت کچھ مقدمات سننے سے روکا گیا؟ آپ اس لیے یہ بات نہیں کریں گے کیونکہ روز پیش ہونا ہوتا ہے، کسی درخواست گزار نے نہیں کہا کہ عدالت کا خود اختیار سے تجاوز کرنا غلط ہے، عابد زبیری بار کے صدر ہیں اس پر کیوں نہیں بات کرتے، خاموشی سے سن رہا تھا اتنا مجبور نہ کریں کہ یہ سب بولنا پڑے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ رولز کے تحت اپنا اختیار بڑھا سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے اس کا اختیار رولز سے نہیں بڑھایا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرے سوال کا جواب ابھی تک نہیں ملا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع
اٹارنی جنرل نے 184/3 کے تحت مقدمات اور ان کے نتائج کی تفصیل بیان کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ابتک اسٹیل مل کا نقصان 30 جون 2022 تک 206 ارب روپے ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے ایکشن سے یہ سب ہوا۔ جسٹس مظاہر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے خلاف چارج شیٹ نہیں ہونی چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سچ سننے سے ڈرتے کیوں ہیں؟
سپریم کورٹ کے سوموٹو سے آج تک اسٹیل ملز 206 ارب روپے کا نقصان کر چکی ہے، اٹارنی جنرل
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ اس کارروئی کو سپریم کورٹ کے خلاف چارج شیٹ نہیں بنایا جا سکتا۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اسٹیل ملزم کیس کا موجودہ کیس سے کیا تعلق ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے وقت پارلیمان میں یہ بحث ہوئی تھی؟ ابھی تک پارلیمان میں بحث کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔ جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ کیا آپ مولوی تمیز الدین سے حدیبیہ تک سپریم کورٹ کو چارج شیٹ کرنا چاہتے ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم میں تنقید سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے، کوئی اپنی دلیل بنانے کے لیے حقائق بتانا چاہتا ہے تو اسے سننا چاہیے، اٹارنی جنرل صرف ہمیں آئینہ دکھا رہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا کون سا فیصلہ درست تھا کونسا نہیں اس پر لوگ بات کرتے رہیں گے، آپ سے لیکچر سننے نہیں بیٹھے کہ کونسا فیصلہ درست تھا کونسا نہیں، ماضی کے فیصلوں کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمان کو مداخلت کا اختیار مل گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کو بات پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ آپ اس چارج شیٹ سے چاہتے کیا ہیں؟ آپ ہم سے نظریہ ضرورت کے تحت پریکٹس پروسیجر ایکٹ کو قانونی کہلوانا چاہتے ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم تنقید سننے سے گھبراتے کیوں ہیں؟ آپ مجھے آئینہ دکھائیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں، اختلاف ہوا تو ہم فیصلے میں لکھ لیں گے، دلائل کی حد تک تو اٹارنی جنرل کو کہنے دیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل یہ کوئی ڈیبیٹ سوسائٹی نہیں نہ ہم آپ سے لیکچر سننے بیٹھے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے کم نہیں کر سکتی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ایک بار اگر سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھا دیا جائے تو ایکٹ کو ختم نہیں کیا جا سکتا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 184 یا آرٹیکل 185 کے دائرے کو پارلیمنٹ بڑھا سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھانے کی پارلیمنٹ پر کوئی حدود بھی ہیں یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 212 عدالتوں سے متعلق قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کی حد مقرر کرتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اطلاق قانون بننے کے دن سے ہوگا یا ماضی سے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قانون کے مطابق اس کے اطلاق کی کوئی حد نہیں ہے۔
پارلیمنٹ کی قانون سازی پر چارج شیٹ کا لفظ استعمال ہونا نہیں چاہیے، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی پر چارج شیٹ کا لفظ استعمال ہونا نہیں چاہیے، جج سے زیادہ عرصہ وکیل رہا ہوں، ججز کو اچھا لگے یا برا وکیل اپنے مطابق دلائل جاری رکھتا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ اپنے دلائل جاری رکھیں سوالات کے جوابات آخر میں دے دیجیے گا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر سے متعلق پارلیمنٹ کا اختیار آرٹیکل 191 اور اینٹری 58 سے نکلتا ہے۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ ایکٹ میں آرٹیکل 184 ون کی اپیل کیوں نہ دی گئی صرف 184/3 کی کیوں دی؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اپ اپیل کے حق کو جو بڑھا رہے ہیں اس کو آئینی مدد حاصل نہیں، دائرہ اختیار بڑھانے پر تو کوئی پابندی نہیں۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ بلوچستان میں ٹرائیبل ایریاز ختم کرکے ہائیکورٹ کو اختیار دیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کی جانب سے جواب دینا اور عدالت کا جواب سے متفق ہونا یا مختلف ہونا الگ چیزیں ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوشش ہے کہ اکثریت کو متفق کروں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس ایکٹ کا میں اس کے اطلاق بارے کیا کہا گیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکشن ٹو کے مطابق اس کا اطلاق ماضی سے ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ایکٹ کا اطلاق پہلے ہو چکے فیصلوں پر کیسے ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کئی تو ایسے معاملات ہیں جو اب زندہ مسائل کے طور پر باقی موجود ہی نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ظاہری طور پر آپ کی دلیل مان لیں تو پارلیمنٹ ایک کے بجائے کئی اپیلوں کا حق دے سکتا ہے۔ پارلیمنٹ نے ایک اپیل دی ہے تو دوسری اور تیسری اپیل کیوں نہیں دے سکتی؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر کل کو یہ ہوا تو عدالت دیکھ لے گی، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ میرا خیال ہے اس کا جواب اٹارنی جنرل کو دینا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل، اگر آپ آرٹیکل 185ٹو پڑھ لیں تو شاید جواب مل جائے گا۔ بلوچستان میں پاٹا کے علاقوں تک ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کو بڑھایا گیا تھا۔ ہائیکورٹس کے دائرہ اختیار کو بڑھانے کے لیے اس حد تک قانون سازی ممکن ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اپیل کے ذریعے پارلیمنٹ کی قانون سازی کا اختیار بڑھایا گیا جو کہ ممکن نہیں ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ جن مقدمات میں نظرثانی پر فیصلہ ہوچکا کیا ان میں اپیل ممکن نہیں ہوگی؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کوئی نظرثانی اور اپیل ایک ساتھ دائر کرے تو کیا ہوگا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرثانی خارج ہونے کے بعد اپیل دائر ہو تو عدالت کیس کا جائزہ لے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بھٹو کیس کی مثال دینا چاہوں گا، بھٹو کیس میں سزا ہوئی، نظرثانی میں اختلافی رائے دینے والوں نے بھی فیصلے کی حمایت کی، اگر اپیل کا حق ہوتا تو شاید نتیجہ کچھ اور ہوتا، نظرثانی خارج ہونے سے اپیل کا حق ختم نہیں ہوتا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ بھٹو کیس سپریم کورٹ نے اپیل میں سنا تھا 184/3 میں نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب! میں ''پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن'' سے زیادہ متفق نہیں، کیا یہ اصطلاح کوئی آئینی یا قانونی ہے؟
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت جن کی نظرثانی ہو چکی وہ بھی دوبارہ اپیل میں آجائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں فیصلہ اکثریت سے آیا، نظر ثانی کو مگر اقلیتی بینچ ممبران نے بھی مسترد کیا اور وجہ یہ تھی کہ اس وقت نظرثانی کا دائرہ اختیار ہی کم تھا، میرے خیال میں ایسی صورت میں اپیل کا راستہ بند نہیں ہوجاتا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ وہ ایک بالکل مختلف معاملہ تھا کیونکہ پہلا فیصلہ ہائیکورٹ سے آیا تھا، سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل آئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں اس بات سے متفق ہوں میں صرف ایک صورتحال بتا رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرا خیال ہے ان مقدمات کا حوالہ نہ دیں جو عدالت کے سامنے دوبارہ آ سکتے ہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اس نکتے پر کیا کہیں گے کہ اپیل کا حق دینے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات آئین میں واضح ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 185 میں کیا پارلیمان تیسری اور چوتھی اپیل کا حق دے سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فی الحال تو پہلی اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بات اپیل کے نمبر کی نہیں اصول کی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 185 میں ایک ہی اپیل کا ذکر ہے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میرا سوال بہت سادہ ہے جس کا جواب نہیں ملا۔
سپریم کورٹ سے کوئی اختیار چھینا نہیں جا رہا بلکہ مزید دیا جا رہا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیڈرل شریعت کورٹ بنی تو دیگر عدالتوں سے اختیارات واپس لیے گئے تھے، اعلیٰ عدلیہ کے کچھ اختیارات لیکر شریعت کورٹ کو دیے گئے، اسلام میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا کوئی تصور نہیں ہے، سپریم کورٹ سے کوئی اختیار چھینا نہیں جا رہا بلکہ مزید دیا جا رہا ہے، آمر نے اختیار واپس لیا تو سب خاموش ہوگئے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ چیف صاحب کا سوال ہوگیا ہے تو میرا سوال بھی لے لیں، آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی پارلیمان ہی کر سکتی ہے، قانون میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے، کیا قانون سازی کے لیے دو تہائی اکثریت ہونے کی شرط ختم نہیں ہوگئی؟ شاید آپ کے دلائل میں نے دے دیے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ماضی میں منشیات کے مقدمات بھی شریعت کورٹ سنتی تھی، منشیات کے حوالے سے نیا قانون بنا تو اپیل ہائی کورٹ میں سنی جانے لگی، سادہ قانون سازی کے ذریعے شریعت کورٹ کا اختیار کم کیا گیا، سپریم کورٹ کا اختیار قانون سازی سے کم نہیں ہوسکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب آئین میں کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تو پارلیمنٹ کوئی بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا لفظ استعمال کر کے قانون سازی کے لیے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے دلائل کو جسٹس ہلالی نے کوزے میں بند کر دیا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ایکٹ میں مرضی کا وکیل بھی کرنے کا حق دیا گیا، نظر ثانی میں نیا وکیل آکر سارے دلائل نئے دے گا اور اس طرح نظر ثانی کی روح تو متاثر ہوگی، ایکٹ کی جز چھ کے تحت نیا وکیل کرنے سے ریویو کا مقصد ختم ہو جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جز چھ کو سامنے رکھ کر عدالت اپنے رولز میں ترمیم کر سکتی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ نظرثانی میں وکیل تبدیل کرنے سے نظرثانی کا مقصد ہی فوت ہوگیا، اس اعتبار سے تو نظرثانی دراصل دوسری اپیل بن جائے گی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 185 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا ذکر ہے؟ آرٹیکل 185 تو اپیلیٹ دائرہ اختیار ہے اس میں اصل دائرہ اختیار کی اپیل کیسے آ سکتی ہے؟ ایک آئینی شق کو ایکٹ کے ذریعے کیسے وسیع کر دیا گیا؟ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو کیسے وسیع کر سکتے ہیں؟ پارلیمنٹ کون سے دائرہ اختیار کو بڑھا رہے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارلیمنٹ نے اپیلیٹ دائرہ اختیار کو بڑھایا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ہاتھ باندھے جا رہے ہیں کہ 7 رکنی سے لارجر بینچ نہ بن سکے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ قانون میں دیا گیا اپیل کا حق اپنے طور پر ختم کرسکتی ہے؟ ہر سوال پر کہا جاتا ہے پارلیمان کی دانش پر بات نہیں ہوسکتی، پارلیمان کی دانش کا سوال یہاں کیوں نہیں اٹھایا جا رہا؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس کے فیصلے کے خلاف بھی اپیل ہوئی تو کہاں ہوگی؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا کوئی درخواست گزار اپیل میں کہہ سکتا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا فیصلہ غلط تھا؟ کوئی بھی عدالت انتظامی سطح پر قانونی حق ختم نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تسلیم کرنا چاہتا ہوں کہ فل کورٹ بنانا میری غلطی تھی، جب آٹھ رکنی بینچ بنا تھا تب بھی اپیل کا یہی سوال اٹھنا تھا، کسی جج نے فل کورٹ پر اعتراض کیا نہ آٹھ رکنی بینچ پر، مفروضوں سے نکل کر بات کریں، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرا سوال مفروضے پر نہیں مستقبل کے لیے حقیقت پر ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر قانون برقرار رہا تو فل کورٹ رولز میں ترمیم کرسکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فل کورٹ رولز بھی تو قانون سے باہر جا کر نہیں بنائے جا سکتے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے۔ درخواست گزار مدثر حسن کے وکیل حسن عرفان کے جواب الجواب دلائل شروع ہوگئے۔
درخواست گزار کے وکیل کے جواب الجواب دلائل
وکیل حسن عرفان نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت سپریم کورٹ کے حوالے سے قانون سازی ممکن نہیں، عوامی پارلیمان اور حکومت کی نیت ایک جیسی ممکن نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق عوام کی نمائندگی منتخب نمائندے کریں گے۔ وکیل حسن عرفان نے کہا کہ دو تہائی اکثریت سے ہی آئین میں ترمیم ممکن نہیں ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کے جواب الجواب دلائل
وکیل عابد زبیری نے دلائل میں کہا کہ امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہماری عدالتیں ماضی میں مانتی رہی ہیں، امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے میں عدالت کے اپیل اور آئینی دائرہ اختیار پر بحث ہوئی تھی، شرعی عدالت سے متعلق اٹارنی جنرل کے دلائل کا جواب دینا چاہتا ہوں کہ فیڈرل شریعت کورٹ بناتے وقت اعلیٰ عدالتوں سے اختیار لے کر انصاف کا متوازی نظام بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم امریکی عدالتوں کے حوالے دیتے ہیں، ہمارے بینچ میں ایسے ممبر بیٹھے ہیں جن کے فیصلوں کی نظیر امریکا میں دی جاتی ہے۔
چیف جسٹس کی جانب سے جسٹس اطہر من اللہ کے کاون ہاتھی سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ عابد زبیری نے کہا کہ انشا اللہ اس فیصلے کی بھی نظیر پیش کی جائے گی۔
عابد زبیری کے جواب الجواب دلائل بھی مکمل ہوگئے۔