سوات کی لڑکیوں کی کامیابی
وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزراء بار بار یہ اعلان کرتے نہیں تھکتے کہ اب صورتحال معمول پر ہے
سوات میں انتہا پسندی کے اثرات انتہائی گہرے ہیں مگر سوات کی طالبات نے کرکٹ کھیلنے کو آخرکار تسلیم کرا لیا۔ وہاں کی طالبات کی کامیابی نے امید کی کرن کو زیادہ روشن کیا ہے۔ عائشہ ایازکی عمر 13 سال کے قریب ہے، وہ بنیادی طور پر ایتھلیٹ ہیں اورکرکٹ ان کا شوق ہے۔
عائشہ ایاز نے بابو زئی اور کابل تحصیل کی لڑکیوں کو کرکٹ ٹیم بنانے کی تحریک دی۔ ان دونوں تحصیلوں کا تحصیل چار باغ کے کرکٹ گراؤنڈ میں میچ رکھا گیا۔ جب دونوں ٹیمیں گراؤنڈ میں پہنچی تو بعض مقامی افراد کو جلال آگیا اور وہ میدان میں پہنچ گئے۔
اس کے بعد مقامی انتظامیہ کے افسران بھی آگئے۔ چار باغ تحصیل کے چیئرمین احسان اﷲ کاکڑ نے یہ مدعا پیش کیا کہ علاقہ میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہے اور اس علاقے میں مسلح افراد موجود ہیں۔
یہ افراد مقامی افراد سے مسلسل بھتہ وصول کرتے رہتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کا یہ مؤقف سامنے آیا کہ سوات کے عوام لڑکیوں کے کرکٹ میچ کے حق میں ہیں مگر حالات اجازت نہیں دے رہے۔ کچھ لوگوں نے شور مچانا شروع کیا کہ ہم اس میچ کے انعقاد کی قطعی اجازت نہیں دے سکتے۔ مقامی انتظامیہ کے افسران نے سیکیورٹی بڑھانے اور مسلح افراد کو قانون کی گرفت میں لینے کے بجائے مناسب سمجھا کہ یہ کرکٹ میچ ملتوی کر دیا جائے۔
انتظامیہ کی اس ناکامی کے بعد میچ ملتوی ہوگیا تو جوان لڑکیاں اپنے خوابوں کو آنکھوں میں محفوظ کر کے خوف کے ماحول میں لوٹ گئیں مگر سوات میں لڑکیوں کو کرکٹ نہ کھیلنے کی اجازت کی خبر ملک بھر کے ذرایع ابلاغ کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا پر بھی خوب نشر ہوئی اور یہ سوال بیدار ہوا کہ نگراں حکومت خیبر پختون خوا میں جنوری سے کام کر رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزراء بار بار یہ اعلان کرتے نہیں تھکتے کہ اب صورتحال معمول پر ہے۔ سوات میں لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محرومی سے ان کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی۔ شاید اسلام آباد میں بھی اس صورتحال کی سنگینی کو محسوس کیا گیا۔ پشاور میں صوبائی حکومت کے حکام متحرک ہوئے۔
سوات کی مقامی انتظامیہ نے افسروں کو ہدایت کی کہ لڑکیوں کے میچ کے انعقاد کے لیے مناسب جگہ تلاش کی جائے۔ یوں گزشتہ ہفتہ کے آغاز پر کرکٹ میچ منعقد ہوا۔ اس علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر افراد نے یہ میچ دیکھا۔ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کے گراؤنڈ میں منعقد ہونے والے میچ کو دیکھنے کے لیے خاصی تعداد میں لوگ آئے جن میں اکثریت طالبات کی تھی۔
کرکٹ میچ میں حصہ لینے والی کھلاڑی بینا نے اس موقع پر بتایا کہ جب چند افراد کے دباؤ پر میچ ملتوی کیا گیا تو ہم سب سخت مایوسی کا شکار ہوئیں، وہ اس مایوسی کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتیں کہ ہم لوگوں سے بنیادی حق چھین لیا گیا۔ اس میچ کی آرگنائزر عائشہ پاکستان کے لیے دو سونے کے تمغے اور ایک چاندی کا تمغہ حاصل کرچکی ہیں۔
اس ٹورنامنٹ کے ایک آرگنائزر نے صحافیوں کو بتایا کہ سوات کی کئی کرکٹ کی کھلاڑی پروفیشنل کرکٹر بننے کی خواہاں ہیں اور یہ کھلاڑی ضلع سے لے کر وفاق کی سطح تک ہونے والے کرکٹ کے مقابلوں میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ کرکٹ کھلاڑیوں بینا اور حمیرا احمد کا یہ بیانیہ ہے کہ وہ اور ان کی ساتھی لڑکیاں کرکٹ کھلینے میں انتہائی جذباتی ہیں۔
سوات کی لڑکیوں نے کرکٹ کھیلنے کا حق تسلیم کرا کر ملالہ یوسف زئی کی روایت مستحکم کیا۔ جب طالبان نے سوات پر مکمل طور پر قبضہ کیا تو ملالہ اسکول میں پڑھتی تھی۔ طالبان نے خواتین کے اسکول اور کالج بند کر دیے تھے، یوں ملالہ کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا، مگر ملالہ نے اپنے والد کی سرپرستی میں یہ سلسلہ جاری رکھا۔
حکومت نے فیصلہ کیا کہ سوات کو جنگجوؤں سے خالی کرایا جائے۔ حکومت نے اس آپریشن کے لیے سوات کو شہریوں سے خالی کرانے کا فیصلہ کیا۔ لاکھوں افراد خیبر پختون خوا کے دیگر شہروں میں عارضی طور پر منتقل ہوئے۔ ملالہ کو بھی اپنے خاندان والوں کے ساتھ اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ ملالہ نے اس عرصے میں اپنی ڈائری لکھنا شروع کی۔
ملالہ کی یہ ڈائری بی بی سی اردو ویب سائٹ پر وائرل ہوئی۔ پوری دنیا کو سوات کے حقیقی حالات اور دہشت گردیوں اور انسانیت سوز حرکتوں کا علم ہوا۔ طالبان جنگجوؤں نے ملالہ کو دشمن قرار دے دیا، یوں جب ملالہ اسکول وین میں سفر کررہی تھی تو حملہ آوروں نے اس پر گولیاں برسائیں اور اسے شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔
پشاور کے اسپتال میں ملالہ کا علاج ہوا مگر اس وقت کی حکومت نے ملالہ کی جان بچانے کی پوری کوشش کی اور ملالہ کو برطانیہ کے شہر بیڈ فورڈ منتقل کیا گیا۔ ملالہ کی جان بچ گئی اور ان کے خاندان کو برطانیہ میں رکنا پڑا۔
ملالہ نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خواتین کی تعلیم کو اپنا نصب العین بنالیا، ملالہ کو نوبل انعام دیا گیا۔ ملالہ کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دعوت دی۔ ملالہ نے نوبل انعام سے ملنے والی رقم کا خطیر حصہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے وقف کردیا مگر انتہا پسند سوچ کے حامل افراد نے ملالہ کی کردارکشی کی مہم چلائی۔
سوشل میڈیا پر فیک نیوز والے ایک گروہ کے ارکان نے تو ثابت ہی کردیا کہ ملالہ تو حملے میں زخمی ہی نہیں ہوئی تھی۔ ملالہ کو غیرملکی ایجنٹ قرار دینے کا پروپیگنڈا اتنی دفعہ ہوا کہ نئی نسل کے جوان تک جن میں خواتین بھی شامل ہیں متاثر ہوئے۔
پنجاب کے پرائیوٹ اسکولز نے ملالہ کی کتاب اسکولوں کے نصاب میںشامل کرنے سے انکار کیا مگر ملک کی دوسری نوبل انعام یافتہ شخصیت کے ساتھ اس سلوک سے ثابت ہوا کہ لڑکیوں کی تعلیم اور انھیں معاشرہ میں برابری کے حقوق پر یقین رکھنے والے باشعور لوگ مشکل میں ہی رہیں گے مگر ملالہ کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تو ہوا ہی مگر ملک کے سابقہ قبائلی علاقے میں انتہا پسند سوچ کو تقویت دینے کا فائدہ خودکش حملہ آور بنانے کی فیکٹری کے مالکان کو ہوا۔
نوجوان صحافی ارشد یوسف زئی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ سوات کی ایک اور تحصیل کالام کے چند نام نہاد قبائلی عمائدین نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ مقامی ہوٹل میں ہونے والے موسیقی کے پروگرام کے انعقاد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان عمائدین کا یہ مؤقف تھا کہ موسیقی مقامی ثقافت اور روایات کے خلاف ہے۔
پاکستانی ریاست نے ایک دفعہ پھر پاکستانی طالبان کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا ہے مگر مسئلہ محض عسکری کارروائی سے حل نہیں ہوگا، ذہنوں کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔
ذہنوں کی تبدیلی کے لیے مدرسوں کو جدید تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنا، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلی اور میڈیا کے بیانیہ سے رجعت پسند سوچ کا خاتمہ ضروری ہے۔ سوات کی لڑکیوں نے کرکٹ کھیلنے کا حق حاصل کرلیا، یہ نئی امید کی کرن ہے۔
عائشہ ایاز نے بابو زئی اور کابل تحصیل کی لڑکیوں کو کرکٹ ٹیم بنانے کی تحریک دی۔ ان دونوں تحصیلوں کا تحصیل چار باغ کے کرکٹ گراؤنڈ میں میچ رکھا گیا۔ جب دونوں ٹیمیں گراؤنڈ میں پہنچی تو بعض مقامی افراد کو جلال آگیا اور وہ میدان میں پہنچ گئے۔
اس کے بعد مقامی انتظامیہ کے افسران بھی آگئے۔ چار باغ تحصیل کے چیئرمین احسان اﷲ کاکڑ نے یہ مدعا پیش کیا کہ علاقہ میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہے اور اس علاقے میں مسلح افراد موجود ہیں۔
یہ افراد مقامی افراد سے مسلسل بھتہ وصول کرتے رہتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کا یہ مؤقف سامنے آیا کہ سوات کے عوام لڑکیوں کے کرکٹ میچ کے حق میں ہیں مگر حالات اجازت نہیں دے رہے۔ کچھ لوگوں نے شور مچانا شروع کیا کہ ہم اس میچ کے انعقاد کی قطعی اجازت نہیں دے سکتے۔ مقامی انتظامیہ کے افسران نے سیکیورٹی بڑھانے اور مسلح افراد کو قانون کی گرفت میں لینے کے بجائے مناسب سمجھا کہ یہ کرکٹ میچ ملتوی کر دیا جائے۔
انتظامیہ کی اس ناکامی کے بعد میچ ملتوی ہوگیا تو جوان لڑکیاں اپنے خوابوں کو آنکھوں میں محفوظ کر کے خوف کے ماحول میں لوٹ گئیں مگر سوات میں لڑکیوں کو کرکٹ نہ کھیلنے کی اجازت کی خبر ملک بھر کے ذرایع ابلاغ کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا پر بھی خوب نشر ہوئی اور یہ سوال بیدار ہوا کہ نگراں حکومت خیبر پختون خوا میں جنوری سے کام کر رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزراء بار بار یہ اعلان کرتے نہیں تھکتے کہ اب صورتحال معمول پر ہے۔ سوات میں لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محرومی سے ان کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی۔ شاید اسلام آباد میں بھی اس صورتحال کی سنگینی کو محسوس کیا گیا۔ پشاور میں صوبائی حکومت کے حکام متحرک ہوئے۔
سوات کی مقامی انتظامیہ نے افسروں کو ہدایت کی کہ لڑکیوں کے میچ کے انعقاد کے لیے مناسب جگہ تلاش کی جائے۔ یوں گزشتہ ہفتہ کے آغاز پر کرکٹ میچ منعقد ہوا۔ اس علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر افراد نے یہ میچ دیکھا۔ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کے گراؤنڈ میں منعقد ہونے والے میچ کو دیکھنے کے لیے خاصی تعداد میں لوگ آئے جن میں اکثریت طالبات کی تھی۔
کرکٹ میچ میں حصہ لینے والی کھلاڑی بینا نے اس موقع پر بتایا کہ جب چند افراد کے دباؤ پر میچ ملتوی کیا گیا تو ہم سب سخت مایوسی کا شکار ہوئیں، وہ اس مایوسی کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتیں کہ ہم لوگوں سے بنیادی حق چھین لیا گیا۔ اس میچ کی آرگنائزر عائشہ پاکستان کے لیے دو سونے کے تمغے اور ایک چاندی کا تمغہ حاصل کرچکی ہیں۔
اس ٹورنامنٹ کے ایک آرگنائزر نے صحافیوں کو بتایا کہ سوات کی کئی کرکٹ کی کھلاڑی پروفیشنل کرکٹر بننے کی خواہاں ہیں اور یہ کھلاڑی ضلع سے لے کر وفاق کی سطح تک ہونے والے کرکٹ کے مقابلوں میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ کرکٹ کھلاڑیوں بینا اور حمیرا احمد کا یہ بیانیہ ہے کہ وہ اور ان کی ساتھی لڑکیاں کرکٹ کھلینے میں انتہائی جذباتی ہیں۔
سوات کی لڑکیوں نے کرکٹ کھیلنے کا حق تسلیم کرا کر ملالہ یوسف زئی کی روایت مستحکم کیا۔ جب طالبان نے سوات پر مکمل طور پر قبضہ کیا تو ملالہ اسکول میں پڑھتی تھی۔ طالبان نے خواتین کے اسکول اور کالج بند کر دیے تھے، یوں ملالہ کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا، مگر ملالہ نے اپنے والد کی سرپرستی میں یہ سلسلہ جاری رکھا۔
حکومت نے فیصلہ کیا کہ سوات کو جنگجوؤں سے خالی کرایا جائے۔ حکومت نے اس آپریشن کے لیے سوات کو شہریوں سے خالی کرانے کا فیصلہ کیا۔ لاکھوں افراد خیبر پختون خوا کے دیگر شہروں میں عارضی طور پر منتقل ہوئے۔ ملالہ کو بھی اپنے خاندان والوں کے ساتھ اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ ملالہ نے اس عرصے میں اپنی ڈائری لکھنا شروع کی۔
ملالہ کی یہ ڈائری بی بی سی اردو ویب سائٹ پر وائرل ہوئی۔ پوری دنیا کو سوات کے حقیقی حالات اور دہشت گردیوں اور انسانیت سوز حرکتوں کا علم ہوا۔ طالبان جنگجوؤں نے ملالہ کو دشمن قرار دے دیا، یوں جب ملالہ اسکول وین میں سفر کررہی تھی تو حملہ آوروں نے اس پر گولیاں برسائیں اور اسے شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔
پشاور کے اسپتال میں ملالہ کا علاج ہوا مگر اس وقت کی حکومت نے ملالہ کی جان بچانے کی پوری کوشش کی اور ملالہ کو برطانیہ کے شہر بیڈ فورڈ منتقل کیا گیا۔ ملالہ کی جان بچ گئی اور ان کے خاندان کو برطانیہ میں رکنا پڑا۔
ملالہ نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خواتین کی تعلیم کو اپنا نصب العین بنالیا، ملالہ کو نوبل انعام دیا گیا۔ ملالہ کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دعوت دی۔ ملالہ نے نوبل انعام سے ملنے والی رقم کا خطیر حصہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے وقف کردیا مگر انتہا پسند سوچ کے حامل افراد نے ملالہ کی کردارکشی کی مہم چلائی۔
سوشل میڈیا پر فیک نیوز والے ایک گروہ کے ارکان نے تو ثابت ہی کردیا کہ ملالہ تو حملے میں زخمی ہی نہیں ہوئی تھی۔ ملالہ کو غیرملکی ایجنٹ قرار دینے کا پروپیگنڈا اتنی دفعہ ہوا کہ نئی نسل کے جوان تک جن میں خواتین بھی شامل ہیں متاثر ہوئے۔
پنجاب کے پرائیوٹ اسکولز نے ملالہ کی کتاب اسکولوں کے نصاب میںشامل کرنے سے انکار کیا مگر ملک کی دوسری نوبل انعام یافتہ شخصیت کے ساتھ اس سلوک سے ثابت ہوا کہ لڑکیوں کی تعلیم اور انھیں معاشرہ میں برابری کے حقوق پر یقین رکھنے والے باشعور لوگ مشکل میں ہی رہیں گے مگر ملالہ کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تو ہوا ہی مگر ملک کے سابقہ قبائلی علاقے میں انتہا پسند سوچ کو تقویت دینے کا فائدہ خودکش حملہ آور بنانے کی فیکٹری کے مالکان کو ہوا۔
نوجوان صحافی ارشد یوسف زئی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ سوات کی ایک اور تحصیل کالام کے چند نام نہاد قبائلی عمائدین نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ مقامی ہوٹل میں ہونے والے موسیقی کے پروگرام کے انعقاد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان عمائدین کا یہ مؤقف تھا کہ موسیقی مقامی ثقافت اور روایات کے خلاف ہے۔
پاکستانی ریاست نے ایک دفعہ پھر پاکستانی طالبان کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا ہے مگر مسئلہ محض عسکری کارروائی سے حل نہیں ہوگا، ذہنوں کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔
ذہنوں کی تبدیلی کے لیے مدرسوں کو جدید تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنا، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلی اور میڈیا کے بیانیہ سے رجعت پسند سوچ کا خاتمہ ضروری ہے۔ سوات کی لڑکیوں نے کرکٹ کھیلنے کا حق حاصل کرلیا، یہ نئی امید کی کرن ہے۔