پاکستان کا بجٹ خسارہ 82 ہزار ارب روپے رہے گا آئی ایم ایف
حکومت نے بجٹ خسارے کا ہدف 6.9 ہزار ارب روپے مقرر کیا تھا، بینکوں پر انحصار بڑھے گا
آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کا بجٹ خسارہ 8.2 ہزار ارب روپے رہنے کی پیشگوئی کی ہے، جو کہ جی ڈی پی کا 7.6 فیصد بنتا ہے اور حکومت کے لگائے گئے اندازوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔
حکومت کی جانب سے بجٹ خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 6.5 فیصد مقرر کیا گیا تھا جو کہ 6.9 ہزار ارب روپے بنتے ہیں،7.6 ہزار ارب روپے خسارے کا مطلب ہے کہ پاکستان کو جون میں بنائے گئے منصوبے کے مقابلے میں مزید 1.3 ہزار ارب روپے کا قرضہ درکار ہوگا، حکومت پہلے ہی عالمی مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرنے کیلیے جدوجہد کر رہی ہے۔
موجودہ صورتحال میں حکومت کا تجارتی بینکوں پر انحصار بڑھ گیا ہے اور تجارتی بینک حکومت کا بدترین استحصال کر رہے ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت بینکوں کی جانب سے حکومت کو قرضے جاری کرنے کی شرح 75 فیصد ہے، جبکہ نجی کاروباری افراد کو صرف ایک چوتھائی قرضے جاری کیے گئے ہیں، گزشتہ ہفتے عالمی بینک نے بھی بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.7 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی تھی، رواں سال سود کی ادائیگیوں کی مد میں 7.3 ہزار ارب روپے ادا کیے جائیں گے، جو کہ سالانہ بجٹ خسارے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہنے کی بنیادی وجہ ہے۔۔
ایڈیشنل سیکریٹری فنانس امجد محمود نے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس کو بتایا کہ شرح سود میں 1فیصد اضافہ سودی ادائیگیوں میں 600 ارب روپے کا اضافہ کردیتا ہے، فسکل مانیٹر رپورٹ کا جائزہ بتاتا ہے کہ پاکستان کا ٹوٹل ریونیو جی ڈی پی کا 12.5 فیصد بنتا ہے، جو کہ 13.3 ہزار ارب روپے ہے، جو کہ جولائی میں کی گئی پیشگوئی کے مقابلے میں معمولی سا بہتر ہے۔۔
جبکہ اخراجات کا مجموعہ جی ڈی پی کے 20.1 فیصد یعنی 21.3 ہزار ارب روپے رہنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، تین ماہ قبل جاری کی گئی رپورٹ کے برعکس حالیہ رپورٹ میں آئی ایم ایف نے اخراجات کا تخمینہ 300 ارب روپے زیادہ لگایا گیا ہے۔
تاہم، اس سے پرائمری بجٹ سرپلس جی ڈی پی کا 0.4 فیصد یعنی 421 ارب روپے رہنے کی پیشگوئی پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے، لیکن گزشتہ ہفتے عالمی بینک نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان سرپلس حاصل نہیں کرسکے گا اورخسارہ جی ڈی پی کا 0.4 فیصد رہے گا،آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کی قلیل المدتی ڈیل کے تحت پاکستان جی ڈی پی کا 0.4 فیصد سرپلس ظاہر کرنے کا پابند ہے، جو کہ 421 ارب روپے بنتے ہیں۔
عالمی بینک کے معیشت دان عدنان گھمن نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے دیے گئے تخمینوں میں فرق کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس اس سے زیادہ معلومات ہیں کہ جتنی معلومات آئی ایم ایف کے پاس جولائی میں تھی۔
حکومت کی جانب سے بجٹ خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 6.5 فیصد مقرر کیا گیا تھا جو کہ 6.9 ہزار ارب روپے بنتے ہیں،7.6 ہزار ارب روپے خسارے کا مطلب ہے کہ پاکستان کو جون میں بنائے گئے منصوبے کے مقابلے میں مزید 1.3 ہزار ارب روپے کا قرضہ درکار ہوگا، حکومت پہلے ہی عالمی مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرنے کیلیے جدوجہد کر رہی ہے۔
موجودہ صورتحال میں حکومت کا تجارتی بینکوں پر انحصار بڑھ گیا ہے اور تجارتی بینک حکومت کا بدترین استحصال کر رہے ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت بینکوں کی جانب سے حکومت کو قرضے جاری کرنے کی شرح 75 فیصد ہے، جبکہ نجی کاروباری افراد کو صرف ایک چوتھائی قرضے جاری کیے گئے ہیں، گزشتہ ہفتے عالمی بینک نے بھی بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.7 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی تھی، رواں سال سود کی ادائیگیوں کی مد میں 7.3 ہزار ارب روپے ادا کیے جائیں گے، جو کہ سالانہ بجٹ خسارے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہنے کی بنیادی وجہ ہے۔۔
ایڈیشنل سیکریٹری فنانس امجد محمود نے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس کو بتایا کہ شرح سود میں 1فیصد اضافہ سودی ادائیگیوں میں 600 ارب روپے کا اضافہ کردیتا ہے، فسکل مانیٹر رپورٹ کا جائزہ بتاتا ہے کہ پاکستان کا ٹوٹل ریونیو جی ڈی پی کا 12.5 فیصد بنتا ہے، جو کہ 13.3 ہزار ارب روپے ہے، جو کہ جولائی میں کی گئی پیشگوئی کے مقابلے میں معمولی سا بہتر ہے۔۔
جبکہ اخراجات کا مجموعہ جی ڈی پی کے 20.1 فیصد یعنی 21.3 ہزار ارب روپے رہنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، تین ماہ قبل جاری کی گئی رپورٹ کے برعکس حالیہ رپورٹ میں آئی ایم ایف نے اخراجات کا تخمینہ 300 ارب روپے زیادہ لگایا گیا ہے۔
تاہم، اس سے پرائمری بجٹ سرپلس جی ڈی پی کا 0.4 فیصد یعنی 421 ارب روپے رہنے کی پیشگوئی پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے، لیکن گزشتہ ہفتے عالمی بینک نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان سرپلس حاصل نہیں کرسکے گا اورخسارہ جی ڈی پی کا 0.4 فیصد رہے گا،آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کی قلیل المدتی ڈیل کے تحت پاکستان جی ڈی پی کا 0.4 فیصد سرپلس ظاہر کرنے کا پابند ہے، جو کہ 421 ارب روپے بنتے ہیں۔
عالمی بینک کے معیشت دان عدنان گھمن نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے دیے گئے تخمینوں میں فرق کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس اس سے زیادہ معلومات ہیں کہ جتنی معلومات آئی ایم ایف کے پاس جولائی میں تھی۔