
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ایکس' پر شیئر کردہ پوسٹ میں زینب عباس نے کہا کہ میں نے ہمیشہ اپنے پسندیدہ کھیل کیلئے سفر کے مواقع ملنے پر خود کو انتہائی خوش قسمت تصور کیا ہے اور بھارت میں میرا قیام خوشگوار اور لوگوں کا رویہ مشفقانہ تھا۔
زینب عباس کا کہنا ہے کہ مجھے نہ تو بھارت چھوڑنے کا کہا گیا نہ ہی ملک بدر کیا گیا۔ مجھے فوری طور پر وہاں کوئی خطرہ نہیں تھا تاہم انٹرنیٹ پر اپنے خلاف آنے والے ردعمل سے خوفزدہ ہوگئی تھی۔ اس صورتحال سے میرے خاندان اور سرحد کے دونوں طرف کے دوست بھی پریشان تھے۔
مزید پڑھیں: شدید دباؤ، پاکستانی پریزینٹر زینب عباس نے بھارت چھوڑ دیا
زینب عباس نے اپنی پوسٹس پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں ان پوسٹس سے ہونے والی تکلیف کو سمجھ سکتی ہوں اور اس پر افسوس کرتی ہوں۔ اس طرح کی زبان کیلئے کوئی عذر یا گنجائش نہیں اور جن لوگوں کی بھی دل آزاری ہوئی میں اُن سے معافی چاہتی ہوں۔ میں اُن لوگوں کی شکر گزار ہوں جنہوں نے اس مشکل وقت میں میرے لیے فکرمندی اور تعاون کیا۔
— zainab abbas (@ZAbbasOfficial) October 12, 2023
یاد رہے کہ زینب عباس کرکٹ ورلڈ کپ میں بطور پریزینٹر اپنے فرائض انجام دینے بھارت پہنچی تھیں تاہم انہیں بھارت میں مسلسل دباؤ کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد انہوں نے حفاظتی اقدام کے طور پر 9 اکتوبر کو بھارت چھوڑ دیا تھا۔
مزید پڑھیں: زینب عباس کیخلاف کیس درست اقدام نہیں، بلاجواز گھسیٹا جارہا ہے، دفترخارجہ
زینب عباس کے قریبی ذرائع نے انکے بھارت سے دبئی پہنچنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے یہ قدم اپنی فیملی اور دیگر براڈ کاسٹرز کے مشورے کے بعد اٹھایا ہے۔
بھارت میں ایک وکیل نے زینب عباس پر بھارت مخالفانہ ٹوئٹس کرنے کا الزام لگا کر مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی، زینب عباس کی جانب سے یہ ٹوئٹس کئی سال پہلے کی گئی تھیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔