اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات
اسرائیل کی جانب سے کلسٹر بموں، عالمی سطح پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں ( وائٹ فاسفورس) کا استعمال کیا جا رہا ہے
مشرق وسطی اور مغرب سے آنے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملے کی تیاری کر لی ہے، 3 لاکھ صہیونی فوجی، ٹینک اور بھاری فوجی سازوسامان سرحد پر پہنچا دیا گیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے کلسٹر بموں، عالمی سطح پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں ( وائٹ فاسفورس) کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ غزہ کے اسپتال بھر چکے، خوفناک بمباری میں غزہ میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 1100 ہوگئی، عالمی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران کا خدشہ ہے۔
اس جنگ کے جلد ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے بلکہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ جنگ مقبوضہ مغربی کنارے تک بھی پھیل سکتی ہے، جہاں پہلے سے ہی اسرائیلی افواج موجود ہیں، درحقیقت یہ جنگ پہلے ہی علاقے کی جغرافیائی سیاست کو بدل رہی ہے۔
حیرت کی بات نہیں کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی حمایت کی ہے۔ اس تنازعے نے ایک بار پھر مغربی ممالک کی دوعملی کو بے نقاب کردیا ہے۔
نام نہاد مہذب دنیا کی نظر میں مظلوموں کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنی سر زمین پر قبضہ کرنے والے کے خلاف مزاحمت کریں اور اپنی آزادی کے لیے لڑیں۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق غزہ کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی پہلے ہی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔
ڈبلیو ایف پی نے پہلے ہی غزہ اور مغربی کنارے کے 8 لاکھ سے زیادہ افراد جو خوراک، پانی اور ضروری اشیا تک رسائی سے محروم ہیں کو خوراک کی ایک اہم لائف لائن فراہم کرنے کے لیے ایک ہنگامی آپریشن شروع کردیا ہے۔
کھانے کے لیے تیار تازہ روٹی اور ڈبہ بند کھانا ایک لاکھ 37 ہزار بے گھر غزہ کے باشندوں کو پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ افراد یو این آر ڈبلیو اے کی پناہ گاہوں میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔
حماس نے گزشتہ دنوں سے اسرائیل کے ساتھ اعلان جنگ کیا ہوا تھا جب کہ بعد ازاں لبنان اور شام بھی حماس کی اس جنگ میں غزہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے ، اسرائیل اپنی فوجی طاقت و قوت کے بل پر بار بار فلسطینی مرد و خواتین اور بوڑھے بچوں پر بغیر کسی امتیاز کے حملہ کرتا ہے۔
اسرائیل کا حملہ نہ صرف امت مسلمہ بلکہ انصاف پسند پوری انسانیت کے ضمیر کو زخمی کرتا ہے کہ آخر فلسطینی بھی تو انسان ہیں اور ان کو بھی اپنی سر زمین پر پورے شان و شوکت کے ساتھ جینے کا پورا حق ہے۔
جارح اسرائیل نے جو ہمیشہ فلسطینی علاقوں میں گھس کر یا بمباری کر کے وہاں قتل عام کرتا ہے۔ یہ وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے۔ اس کی ان کارروائیوں پر مغربی ممالک کچھ نہیں کہتے، اگر فلسطینی کچھ جوابی کارروائی کریں تو مغربی ممالک بھڑک اٹھتے ہیں اور اسے دہشت گردی اور ظلم سے تعبیرکرتے ہیں اور یہی کچھ ایک بار پھر دہرایا گیا۔
امریکا، برطانیہ، سمیت نیٹو ممالک نے اسرائیل کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا، صرف یہی نہیں بھارت نے بھی اسرائیل پر فلسطینیوں کے حملہ کی شدید مذمت کی ہے۔
بھارت کے اس طرز عمل سے مسلم ممالک کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو اس سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے پھرتے ہیں۔ بھارت اس وقت کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے بری طرح پھنسا ہوا ہے، وہ اب اس طرح اسرائیل کی حمایت کر کے مغربی ممالک کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ایک مرتبہ پھر اہم ممالک نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے اسرائیل کے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان ممالک کو اسرائیل کی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ انھیں اسرائیل کی فوج کے مظالم دکھائی نہیں دیتے انھیں یہ نظر آتا ہے کہ ایران تنازعے کو ہوا دے سکتا ہے لیکن انھیں دہائیوں سے جاری اسرائیلی افواج کے مظالم پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہی وہ دہرا معیار ہے جو اقوام متحدہ کی افادیت اور حیثیت پر سوالیہ نشان ہے۔
تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو پتا چلتا ہے کہ صدیوں سے دربدر ٹھوکریں کھاتی یہودی قوم کو جب یہودی سائنس دان ڈاکٹر ہیم ویز مین نے اپنے کیمیائی رازوں سے برطانیہ سے سودے بازی کے نتیجے میں فلسطین میں صیہونی ریاست بنانے کا پروانہ عنایت کیا تو انھیں اپنا ہولوکاسٹ یاد رکھنا چاہیے تھا۔
اپنی تاریخ کو، خود پر بیتے ظلم کو بھولنا نہیں چاہیے تھا، مگر ہوا کیا؟ انھوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ اسی تاریخ کو دہرانا شروع کر دیا جس کا وہ خود شکار ہوئے تھے۔
غریب فلسطینیوں کی اُن کے گھروں سے بے دخلی آرگن Urgun، ہگانا Haguna اور اسٹرن Estern جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں سے جس تیزی کے ساتھ ہوئی وہ بڑی المیہ کہانی ہے۔ نہتے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔
جب اور جہاں چاہتے بم بلاسٹ سے گاؤں کے گاؤں ملیا میٹ کردیتے۔ کوئی پوچھنے والا، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں تھا۔ دیریاسین جیسے پُر امن شہرت رکھنے والے قصبے کو جس طرح گوریلا دستوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا، وہ تاریخ کا ہولناک باب ہے۔
اس اتنے بڑے المناک سانحے پر میناحم بیگن کا بیان ابھی بھی تاریخ میں درج ہے جو انسانیت کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ ہے '' دیر یاسین فلسطین کا ہولوکاسٹ ہے۔ بھلے ہو۔ میرے لیے سب سے بڑا اعزاز بس یہی ہے کہ میں تاریخ میں اس اہم کارنامے کی وجہ سے زندہ رہ جاؤں کہ اسرائیلی سرزمین کی حدوں کو ابد تک قائم کرنے والا انسان میناحم بیگن تھا۔'' اور یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں۔ اسرائیلی فوجی ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔
نوعمر لڑکوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور اُن پر اس درجہ تشدد ہوتا ہے کہ وہ ختم ہو جاتے ہیں یا ان کے اعضائے رئیسہ ناکارہ بنا دیے جاتے ہیں۔ خود اسرائیل کی ہیومن رائٹس (Human Rights) کی تنظیموں کی رپورٹیں ہیں کہ فوجی ان کے سروں اور دل کا نشانہ لیتے ہیں۔ غیر ملکی تنظیموں کے نمایندوں کو ان علاقوں میں جانے سے روکا جاتا ہے۔
اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کو تیسرے اور چوتھے درجے کے شہری بنا کر، ان کی زندگیوں کو پابندیوں میں جکڑ کر اُن سے توقع کرتی ہے کہ وہ اپنے غم و غصے کا اظہار بھی نہ کریں۔
اپنی مدافعت میں پتھر، چھری یا غلیل استعمال کرنے والے خود بھی مرتے ہیں اور مارتے یہودیوں کو بھی ہیں۔ زیادہ کچھ تو نہیں کر سکتے مگر انھیں نفسیاتی خوف کا شکار ضرور بنا دیا ہے۔
اب اسرائیل کو امریکا اور نیٹو والے مزید جدید اسلحہ دے کر اس کی حفاظت کو مضبوط بنائیں گے۔ اسی مقصد کے لیے امریکا نے اپنا جنگی بحری بیڑا اسرائیل بھیج دیا ہے۔ یہی ممالک اس کی طرف سے جوابی کارروائی کے نام پر فلسطینیوں کے قتل عام کو جائز قرار دیں گے، یوں فلسطینی مسلمانوں پر آلام کا ایک اور کوہ گراں ٹوٹ پڑے گا۔
حماس کی اس دلیرانہ کارروائی سے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ خاص طور پر کشمیری مسلمانوں کو تقویت حاصل ہوگی جو فلسطینیوں کی طرح اپنے چھینے گئے علاقوں اور حق خودارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ان کی تحریک میں بھی ایک نیا ولولہ پیدا ہو گا، مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس طرح فلسطینیوں کو جن مصائب اور آلام کا سامنا ہوگا۔ اسرائیل فلسطینی کیمپوں، تربیتی مراکز، رہائشی کثیر المنزلہ اپارٹمنٹس اور فلسطینی اتھارٹی والے علاقوں میں قائم ہر جگہ کو نشانہ بنا رہا ہے۔
اس وقت اسرائیل میں ہو کا عالم طاری ہے۔ بن گوریان ایئر پورٹ پر ملک چھوڑ کر جانے والوں کا رش ہے جب کہ سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کا ہو رہا ہے مگر غزہ و دیگر علاقوں کی ناکہ بندی اور وہاں پانی بجلی خوراک کی بندش کے باوجود کوئی خوف نہیں۔ کاش! نیٹو ممالک کی طرح عرب ممالک کا یا مسلم ممالک کا بھی کوئی وسیع البنیاد فوجی اتحاد ہوتا تو وہ بھی جدید اسلحہ اور حفاظتی نظام سے فلسطینیوں کو لیس کرتے، اس کے نقصان کا مداوا کرتے اور اسرائیل کی طرف سے ہونے والی جنگی کارروائیوں کا مقابلہ کرنے میں فلسطینی عوام کی مدد کرتے۔
دوسری طرف مسلم ممالک نے جہاں فلسطینی بھائیوں کی حمایت کا عہد دہرایا وہاں عالمی برادری سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں موجود اس سب سے بڑے تنازعے کے حل میں آگے بڑھے اور دو ریاستی کے فارمولے پر عملدرآمد کرائے۔
پاکستان نے بھی فلسطینی عوام کی حمایت اور ریاست کے قیام کے مطالبے پر زور دیتے ہوئے بیت المقدس کو فلسطینیوں کے حوالے کرنے کے اپنے موقف کو دہرایا۔ تقریباً تمام مسلم ممالک اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے چھینے گئے علاقے واپس فلسطین کو دینے کے حق میں ہیں۔
کچھ امن پسند مغربی، افریقی اور ایشیائی ممالک بھی اس حل کے حق میں ہیں، مگر اسرائیل، یورپ اور امریکا اپنی اسرائیل دوستی کی وجہ سے اس حل کی طرف آنے کے بجائے اسرائیل کے مظالم کا دفاع کرتا ہے۔
جب یہ مسئلہ عالمگیر حیثیت اختیار کرچکا ہے تو اس کا حل بھی ایسا تلاش کیا جانا چاہیے جو فلسطین اورمسلم امہ کو قابل قبول ہو، اگر اس سے ہٹ کر کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ دیرپا حل نہیں ہوگا۔
اسرائیل کی جانب سے کلسٹر بموں، عالمی سطح پر ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں ( وائٹ فاسفورس) کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ غزہ کے اسپتال بھر چکے، خوفناک بمباری میں غزہ میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 1100 ہوگئی، عالمی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران کا خدشہ ہے۔
اس جنگ کے جلد ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے بلکہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ جنگ مقبوضہ مغربی کنارے تک بھی پھیل سکتی ہے، جہاں پہلے سے ہی اسرائیلی افواج موجود ہیں، درحقیقت یہ جنگ پہلے ہی علاقے کی جغرافیائی سیاست کو بدل رہی ہے۔
حیرت کی بات نہیں کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی حمایت کی ہے۔ اس تنازعے نے ایک بار پھر مغربی ممالک کی دوعملی کو بے نقاب کردیا ہے۔
نام نہاد مہذب دنیا کی نظر میں مظلوموں کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنی سر زمین پر قبضہ کرنے والے کے خلاف مزاحمت کریں اور اپنی آزادی کے لیے لڑیں۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق غزہ کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی پہلے ہی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔
ڈبلیو ایف پی نے پہلے ہی غزہ اور مغربی کنارے کے 8 لاکھ سے زیادہ افراد جو خوراک، پانی اور ضروری اشیا تک رسائی سے محروم ہیں کو خوراک کی ایک اہم لائف لائن فراہم کرنے کے لیے ایک ہنگامی آپریشن شروع کردیا ہے۔
کھانے کے لیے تیار تازہ روٹی اور ڈبہ بند کھانا ایک لاکھ 37 ہزار بے گھر غزہ کے باشندوں کو پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ افراد یو این آر ڈبلیو اے کی پناہ گاہوں میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔
حماس نے گزشتہ دنوں سے اسرائیل کے ساتھ اعلان جنگ کیا ہوا تھا جب کہ بعد ازاں لبنان اور شام بھی حماس کی اس جنگ میں غزہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے ، اسرائیل اپنی فوجی طاقت و قوت کے بل پر بار بار فلسطینی مرد و خواتین اور بوڑھے بچوں پر بغیر کسی امتیاز کے حملہ کرتا ہے۔
اسرائیل کا حملہ نہ صرف امت مسلمہ بلکہ انصاف پسند پوری انسانیت کے ضمیر کو زخمی کرتا ہے کہ آخر فلسطینی بھی تو انسان ہیں اور ان کو بھی اپنی سر زمین پر پورے شان و شوکت کے ساتھ جینے کا پورا حق ہے۔
جارح اسرائیل نے جو ہمیشہ فلسطینی علاقوں میں گھس کر یا بمباری کر کے وہاں قتل عام کرتا ہے۔ یہ وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے۔ اس کی ان کارروائیوں پر مغربی ممالک کچھ نہیں کہتے، اگر فلسطینی کچھ جوابی کارروائی کریں تو مغربی ممالک بھڑک اٹھتے ہیں اور اسے دہشت گردی اور ظلم سے تعبیرکرتے ہیں اور یہی کچھ ایک بار پھر دہرایا گیا۔
امریکا، برطانیہ، سمیت نیٹو ممالک نے اسرائیل کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا، صرف یہی نہیں بھارت نے بھی اسرائیل پر فلسطینیوں کے حملہ کی شدید مذمت کی ہے۔
بھارت کے اس طرز عمل سے مسلم ممالک کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو اس سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے پھرتے ہیں۔ بھارت اس وقت کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے بری طرح پھنسا ہوا ہے، وہ اب اس طرح اسرائیل کی حمایت کر کے مغربی ممالک کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ایک مرتبہ پھر اہم ممالک نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے اسرائیل کے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان ممالک کو اسرائیل کی دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ انھیں اسرائیل کی فوج کے مظالم دکھائی نہیں دیتے انھیں یہ نظر آتا ہے کہ ایران تنازعے کو ہوا دے سکتا ہے لیکن انھیں دہائیوں سے جاری اسرائیلی افواج کے مظالم پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہی وہ دہرا معیار ہے جو اقوام متحدہ کی افادیت اور حیثیت پر سوالیہ نشان ہے۔
تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو پتا چلتا ہے کہ صدیوں سے دربدر ٹھوکریں کھاتی یہودی قوم کو جب یہودی سائنس دان ڈاکٹر ہیم ویز مین نے اپنے کیمیائی رازوں سے برطانیہ سے سودے بازی کے نتیجے میں فلسطین میں صیہونی ریاست بنانے کا پروانہ عنایت کیا تو انھیں اپنا ہولوکاسٹ یاد رکھنا چاہیے تھا۔
اپنی تاریخ کو، خود پر بیتے ظلم کو بھولنا نہیں چاہیے تھا، مگر ہوا کیا؟ انھوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ اسی تاریخ کو دہرانا شروع کر دیا جس کا وہ خود شکار ہوئے تھے۔
غریب فلسطینیوں کی اُن کے گھروں سے بے دخلی آرگن Urgun، ہگانا Haguna اور اسٹرن Estern جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں سے جس تیزی کے ساتھ ہوئی وہ بڑی المیہ کہانی ہے۔ نہتے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔
جب اور جہاں چاہتے بم بلاسٹ سے گاؤں کے گاؤں ملیا میٹ کردیتے۔ کوئی پوچھنے والا، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں تھا۔ دیریاسین جیسے پُر امن شہرت رکھنے والے قصبے کو جس طرح گوریلا دستوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا، وہ تاریخ کا ہولناک باب ہے۔
اس اتنے بڑے المناک سانحے پر میناحم بیگن کا بیان ابھی بھی تاریخ میں درج ہے جو انسانیت کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ ہے '' دیر یاسین فلسطین کا ہولوکاسٹ ہے۔ بھلے ہو۔ میرے لیے سب سے بڑا اعزاز بس یہی ہے کہ میں تاریخ میں اس اہم کارنامے کی وجہ سے زندہ رہ جاؤں کہ اسرائیلی سرزمین کی حدوں کو ابد تک قائم کرنے والا انسان میناحم بیگن تھا۔'' اور یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں۔ اسرائیلی فوجی ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔
نوعمر لڑکوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور اُن پر اس درجہ تشدد ہوتا ہے کہ وہ ختم ہو جاتے ہیں یا ان کے اعضائے رئیسہ ناکارہ بنا دیے جاتے ہیں۔ خود اسرائیل کی ہیومن رائٹس (Human Rights) کی تنظیموں کی رپورٹیں ہیں کہ فوجی ان کے سروں اور دل کا نشانہ لیتے ہیں۔ غیر ملکی تنظیموں کے نمایندوں کو ان علاقوں میں جانے سے روکا جاتا ہے۔
اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کو تیسرے اور چوتھے درجے کے شہری بنا کر، ان کی زندگیوں کو پابندیوں میں جکڑ کر اُن سے توقع کرتی ہے کہ وہ اپنے غم و غصے کا اظہار بھی نہ کریں۔
اپنی مدافعت میں پتھر، چھری یا غلیل استعمال کرنے والے خود بھی مرتے ہیں اور مارتے یہودیوں کو بھی ہیں۔ زیادہ کچھ تو نہیں کر سکتے مگر انھیں نفسیاتی خوف کا شکار ضرور بنا دیا ہے۔
اب اسرائیل کو امریکا اور نیٹو والے مزید جدید اسلحہ دے کر اس کی حفاظت کو مضبوط بنائیں گے۔ اسی مقصد کے لیے امریکا نے اپنا جنگی بحری بیڑا اسرائیل بھیج دیا ہے۔ یہی ممالک اس کی طرف سے جوابی کارروائی کے نام پر فلسطینیوں کے قتل عام کو جائز قرار دیں گے، یوں فلسطینی مسلمانوں پر آلام کا ایک اور کوہ گراں ٹوٹ پڑے گا۔
حماس کی اس دلیرانہ کارروائی سے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ خاص طور پر کشمیری مسلمانوں کو تقویت حاصل ہوگی جو فلسطینیوں کی طرح اپنے چھینے گئے علاقوں اور حق خودارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ان کی تحریک میں بھی ایک نیا ولولہ پیدا ہو گا، مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس طرح فلسطینیوں کو جن مصائب اور آلام کا سامنا ہوگا۔ اسرائیل فلسطینی کیمپوں، تربیتی مراکز، رہائشی کثیر المنزلہ اپارٹمنٹس اور فلسطینی اتھارٹی والے علاقوں میں قائم ہر جگہ کو نشانہ بنا رہا ہے۔
اس وقت اسرائیل میں ہو کا عالم طاری ہے۔ بن گوریان ایئر پورٹ پر ملک چھوڑ کر جانے والوں کا رش ہے جب کہ سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کا ہو رہا ہے مگر غزہ و دیگر علاقوں کی ناکہ بندی اور وہاں پانی بجلی خوراک کی بندش کے باوجود کوئی خوف نہیں۔ کاش! نیٹو ممالک کی طرح عرب ممالک کا یا مسلم ممالک کا بھی کوئی وسیع البنیاد فوجی اتحاد ہوتا تو وہ بھی جدید اسلحہ اور حفاظتی نظام سے فلسطینیوں کو لیس کرتے، اس کے نقصان کا مداوا کرتے اور اسرائیل کی طرف سے ہونے والی جنگی کارروائیوں کا مقابلہ کرنے میں فلسطینی عوام کی مدد کرتے۔
دوسری طرف مسلم ممالک نے جہاں فلسطینی بھائیوں کی حمایت کا عہد دہرایا وہاں عالمی برادری سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں موجود اس سب سے بڑے تنازعے کے حل میں آگے بڑھے اور دو ریاستی کے فارمولے پر عملدرآمد کرائے۔
پاکستان نے بھی فلسطینی عوام کی حمایت اور ریاست کے قیام کے مطالبے پر زور دیتے ہوئے بیت المقدس کو فلسطینیوں کے حوالے کرنے کے اپنے موقف کو دہرایا۔ تقریباً تمام مسلم ممالک اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے چھینے گئے علاقے واپس فلسطین کو دینے کے حق میں ہیں۔
کچھ امن پسند مغربی، افریقی اور ایشیائی ممالک بھی اس حل کے حق میں ہیں، مگر اسرائیل، یورپ اور امریکا اپنی اسرائیل دوستی کی وجہ سے اس حل کی طرف آنے کے بجائے اسرائیل کے مظالم کا دفاع کرتا ہے۔
جب یہ مسئلہ عالمگیر حیثیت اختیار کرچکا ہے تو اس کا حل بھی ایسا تلاش کیا جانا چاہیے جو فلسطین اورمسلم امہ کو قابل قبول ہو، اگر اس سے ہٹ کر کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ دیرپا حل نہیں ہوگا۔