مشرقِ وسطیٰ میں نئی حقیقتیں
جتنی وحشیانہ بمباری غزہ کے شہریوں پر ہو رہی ہے اور رہائشی علاقے کھنڈر بنائے جارہے ہیں اس کا بالکل کوئی جواز نہیں
جنگیں تباہی و بربادی لاتی ہیں۔معصوم جانیں جاتی ہیں۔کسی بھی معصوم جان کا جانا ایک انتہائی افسوس ناک بات ہے ۔
جتنی وحشیانہ بمباری غزہ کے شہریوں پر ہو رہی ہے اور رہائشی علاقے کھنڈر بنائے جارہے ہیں اس کا بالکل کوئی جواز نہیں۔ اسرائیل میں بارہ سو سے زیادہ لوگ لقمہء اجل بن گئے ان میں سے جو سویلین تھے ان کے مارے جانے کا بھی کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
کیا حماس مجاہدین کے پاس حملے کے علاوہ کوئی چوائس تھی۔ ایک وقت تھا کہ سارا عالمِ عرب فلسطین کے مسئلے کو ہی اہمیت دیتا تھا اور ایک یہ وقت ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ڈرے سہمے عرب امریکی ڈیفنس شیلڈکے بدلے فلسطین کو بھلا کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر تیار ہیں۔
عربوں کے اس بدلتے رویے اور اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کے اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی میں حالیہ خطاب نے غزہ کی پٹی کے فلسطینی مجاہدوں کو مجبور کر دیا کہ وہ سوئی سائیڈلSuicidalکارروائی کرتے ہوئے فلسطینی مسئلے کو پھر سے اجاگر کر دیں۔نیتن یاہو نے ابھی چند دن پہلے کہا تھا کہ عربوں سے امن معاہدہ میں فلسطینیوں کو حائل نہیں ہونے دیں گے۔
ہفتے 7اکتوبرکی صبح غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے جنوب مغربی شہروں اور بستیوں پر ہزاروں میزائل فائر کیے گئے۔ایسے حملوں کو روکنے کے لیے اسرائیل کے پاس دنیا کا بہترین ایڈوانس ڈیفنس سسٹم ہے۔باڑ لگی ہوئی ہے اور کنکریٹ کی دیوار حائل ہے۔
اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد دنیا کی بہترین ایجنسی سمجھی جاتی ہے۔موساد کو امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔یہی نہیں مغرب کی تمام ایجنسیاں بھی موساد سے رابطے میں رہتی ہیں۔ لیکن حماس نے حملے کی جو تیاری کی،موساد اور دوسری ایجنسیوں میں سے کسی کو بھی بھنک تک نہیں پڑی۔ کیا ایسا ممکن ہے۔
میزائل فائر کرنے کے ساتھ ہی الاقصیٰ طوفان نے پیرا گلائیڈ دستوں کے ساتھ اسرائیل پر حملہ کر دیا،ڈرون سے بھی فائر ہوئے اور جنگجو دیواروں کو مسمار کرکے اسرائیل میں گھس گئے۔پہلے دن کی لڑائی میں 7ہزار راکٹ فائر کیے گئے ۔ کئی اسرائیلی شہروں میں خریداری مراکز،دفتروں اور گھروں میں تباہی پھیلی اور آگ لگ گئی۔حماس کے دستوں نے کئی اسرائیلی ٹینکوں کو قبضے میں لے لیا ۔ایک اسرائیلی سرحدی بستی میں راگ رنگ کا پروگرام تھا۔شرکا ابھی نکلے نہیں تھے کہ حملہ ہو گیا۔
267لوگ مارے گئے۔وہ بھگدڑ مچی کہ ایسا پہلے کبھی اسرائیل میں نہیں ہوا۔لوگ نیم برہنہ اندھا دھند بھاگ رہے تھے۔ اسرائیل کے اندر کئی ایک فوجی چوکیوں پر بھی حملہ ہوا ۔کئی فوجی گھات رہے اور کئی سینیئر اسرائیلی فوجی افسران دھر لیے گئے ۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق 1200سے زائد اسرائیلی اموات ہوئیں۔چودہ امریکی اور چار کینیڈین بھی لقمہ ء اجل بنے۔3ہزار سے زائد اسرائیلی زخمی ہوئے جن میں سے دو سو کے قریب زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔بہت سے ٹینک اور فوجی گاڑیاں آگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔حماس مجاہدین اسرائیل میں داخل ہو کر تیزی سے آگے بڑھے اور آبادیوں کو اپنے نشانے پر لیا۔
آٹو میٹک رائفلوں سے مسلح پیرا گلائیڈرز،آخری اطلاعات تک اسرائیل کے اندرلڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔حماس جنگجوؤں کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے سینیئر فوجی افسروں سمیت متعدد لوگوں کو گرفتار کر کے غزہ پہنچا دیا ہے۔
آمدہ اطلاعات کے مطابق جنگجو کوئی 22بستیوں میں برسرِپیکار ہیں۔اسرائیل نے جھنجھلاہٹ میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کی آبادیوں پر اندھا دھند بمباری جاری رکھی ہوئی ہے۔اب تک ایک ہزار سے اوپر فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بے شمار زخمی ہیں۔ زخمیوں میں عورتوں اور بچوں کی اکثریت ہے۔کسی بھی آرمڈ کنفلکٹ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ معصوم جانوں کو ٹارگٹ کیا جائے۔بھلا بچوں نے کسی کا کیا بگاڑا ہوتا ہے۔
ہندوستان کی حکومت اس سے پہلے فلسطینیوں کے ساتھ لِپ سروس کرتے ہوئے نیوٹرل رہی ہے لیکن جناب مودی نے یہ بھرم بالائے تاک رکھتے ہوئے کھلم کھلا اسرائیل کا ساتھ دیا ہے۔اس کی وجہ ہندوستان اور عرب ممالک کے تعلقات ہیں۔اب ہندوستان عرب ملکوں کے اتنا قریب ہے کہ اسے عربوں کی ناراضگی کا کوئی ڈر نہیں رہا۔
جمائما خان نے بھی اسرائیل کی حمایت میں ٹویٹ کیا ہے۔ حماس مجاہدین نے انہونی کر کے دکھا دیا ہے۔ پورے مڈل ایسٹ میں حزب اﷲ واحد گروہ تھا جو خم ٹھونک کر اسرائیل کے مقابلے میں نکلتا تھا،جس کے رضاکاروں نے امریکی فوجی دستوں کو لبنان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایران کے علاوہ کسی عرب و مسلمان حکومت نے حماس کی حمایت نہیں کی ۔
اسرائیل نے غزہ کے لیے خوراک، ادویات، پانی،بجلی،گیس اور انٹرنیٹ سروس بند کرتے ہوئے ناکہ بندی کر دی ہے۔یورپین یونین نے فلسطین کو دی جانے والی 728ملین یورو کی امداد روک دی ہے۔ اس امداد سے چلنے والے بہت سے ادارے شدید متاثر ہوں گے۔
اسرائیل میں زیادہ تر لوگوں کی دوہری شہریت ہے۔ایسے لوگوں نے ملک چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔اسرائیل میں کاروباری ایکٹوٹی اور ٹوارزم انڈسٹری کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں اوپر جائیں گی۔
دوسری طرف اسرائیلی بمباری سے غزہ میں آبادیاں زمین بوس ہو رہی ہیں۔ کسی بھی جنگی کارروائی سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ آیا اس سے پیدا شدہ نتائج کو بھگتا جا سکے گا اور کارروائی کو sustainکیا جا سکے گا۔حماس کی اس کارروائی نے فلسطین مسئلے کو ایک بار پھر ایک بڑے حل طلب مسئلے کے طور پر اجاگر کر دیا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب میں سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات کے معاہدے کو اگلے چند مہینوں میں ایک بڑی حقیقت قرار دیا تھا۔اسرائیلی وزرا اب کھلم کھلا سعودی عرب کا دورہ کرتے نظر آتے تھے۔خدشہ ہے کہ حماس کارروائی سے یہ معاہدہ کھٹائی میں پڑ جائے گا۔عرب عوام کی ہمدردیاں فلسطینیوں کے ساتھ ہوں گی اس لیے ایک لمبے عرصے تک عرب حکومتوں کے لیے اسرائیل سے جپھی ڈالنا آسان نہیں ہوگا البتہ نتن یاہو کی اندرونِ ملک مخالفت ختم ہو گئی ہے۔
حماس نے ساری دنیا خاص کر اسرائیل کو باور کرا دیا ہے کہ حماس ہی فلسطینیوں کی واحد نمایندہ جماعت ہے،کہ اس کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی وقت بھی اسرائیلی شہریوں کی زندگی اجیرن کر سکتی ہے،کہ مڈل ایسٹ میں پائیدار امن کے قیام کے لیے حماس سے بات کرنی ضروری ہے۔حماس نے بہت سے قیدی بنا لیے ہیں جن کی رہائی کے بدلے اسرائیل کو حماس کے قیدی چھوڑنے ہوں گے۔پہلے ایسا ممکن نہیں تھا۔
حماس کی پہلے ہی ہلے میں کامیابی کے بعد اسرائیل کی بڑی سے بڑی کارروائی بے معنی ہو چکی ہے۔اسرائیلیوں کا اعتماد بحال ہونے میں بڑا وقت لگے گا۔اسرائیلی شہری ایک لمبے عرصے تک میٹھی نیند نہیں سو سکیں گے۔
جس طرح ایک ماہر مصور کینوس پر ایک ماسٹر اسٹروک لگا کر نئی حقیقتیں تخلیق کر دیتا ہے اسی طرح اس سوئی سائیڈل حملے سے حماس مجاہدین نے اسرائیلی جسم پر کپکپی طاری کر کے نئی حقیقت کو جنم دیا ہے۔ ہمارے کشمیری بھائیوں کے لیے اس میں کئی راہیں پوشیدہ ہیں۔
جتنی وحشیانہ بمباری غزہ کے شہریوں پر ہو رہی ہے اور رہائشی علاقے کھنڈر بنائے جارہے ہیں اس کا بالکل کوئی جواز نہیں۔ اسرائیل میں بارہ سو سے زیادہ لوگ لقمہء اجل بن گئے ان میں سے جو سویلین تھے ان کے مارے جانے کا بھی کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
کیا حماس مجاہدین کے پاس حملے کے علاوہ کوئی چوائس تھی۔ ایک وقت تھا کہ سارا عالمِ عرب فلسطین کے مسئلے کو ہی اہمیت دیتا تھا اور ایک یہ وقت ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ڈرے سہمے عرب امریکی ڈیفنس شیلڈکے بدلے فلسطین کو بھلا کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر تیار ہیں۔
عربوں کے اس بدلتے رویے اور اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کے اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی میں حالیہ خطاب نے غزہ کی پٹی کے فلسطینی مجاہدوں کو مجبور کر دیا کہ وہ سوئی سائیڈلSuicidalکارروائی کرتے ہوئے فلسطینی مسئلے کو پھر سے اجاگر کر دیں۔نیتن یاہو نے ابھی چند دن پہلے کہا تھا کہ عربوں سے امن معاہدہ میں فلسطینیوں کو حائل نہیں ہونے دیں گے۔
ہفتے 7اکتوبرکی صبح غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے جنوب مغربی شہروں اور بستیوں پر ہزاروں میزائل فائر کیے گئے۔ایسے حملوں کو روکنے کے لیے اسرائیل کے پاس دنیا کا بہترین ایڈوانس ڈیفنس سسٹم ہے۔باڑ لگی ہوئی ہے اور کنکریٹ کی دیوار حائل ہے۔
اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد دنیا کی بہترین ایجنسی سمجھی جاتی ہے۔موساد کو امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔یہی نہیں مغرب کی تمام ایجنسیاں بھی موساد سے رابطے میں رہتی ہیں۔ لیکن حماس نے حملے کی جو تیاری کی،موساد اور دوسری ایجنسیوں میں سے کسی کو بھی بھنک تک نہیں پڑی۔ کیا ایسا ممکن ہے۔
میزائل فائر کرنے کے ساتھ ہی الاقصیٰ طوفان نے پیرا گلائیڈ دستوں کے ساتھ اسرائیل پر حملہ کر دیا،ڈرون سے بھی فائر ہوئے اور جنگجو دیواروں کو مسمار کرکے اسرائیل میں گھس گئے۔پہلے دن کی لڑائی میں 7ہزار راکٹ فائر کیے گئے ۔ کئی اسرائیلی شہروں میں خریداری مراکز،دفتروں اور گھروں میں تباہی پھیلی اور آگ لگ گئی۔حماس کے دستوں نے کئی اسرائیلی ٹینکوں کو قبضے میں لے لیا ۔ایک اسرائیلی سرحدی بستی میں راگ رنگ کا پروگرام تھا۔شرکا ابھی نکلے نہیں تھے کہ حملہ ہو گیا۔
267لوگ مارے گئے۔وہ بھگدڑ مچی کہ ایسا پہلے کبھی اسرائیل میں نہیں ہوا۔لوگ نیم برہنہ اندھا دھند بھاگ رہے تھے۔ اسرائیل کے اندر کئی ایک فوجی چوکیوں پر بھی حملہ ہوا ۔کئی فوجی گھات رہے اور کئی سینیئر اسرائیلی فوجی افسران دھر لیے گئے ۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق 1200سے زائد اسرائیلی اموات ہوئیں۔چودہ امریکی اور چار کینیڈین بھی لقمہ ء اجل بنے۔3ہزار سے زائد اسرائیلی زخمی ہوئے جن میں سے دو سو کے قریب زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔بہت سے ٹینک اور فوجی گاڑیاں آگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔حماس مجاہدین اسرائیل میں داخل ہو کر تیزی سے آگے بڑھے اور آبادیوں کو اپنے نشانے پر لیا۔
آٹو میٹک رائفلوں سے مسلح پیرا گلائیڈرز،آخری اطلاعات تک اسرائیل کے اندرلڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔حماس جنگجوؤں کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے سینیئر فوجی افسروں سمیت متعدد لوگوں کو گرفتار کر کے غزہ پہنچا دیا ہے۔
آمدہ اطلاعات کے مطابق جنگجو کوئی 22بستیوں میں برسرِپیکار ہیں۔اسرائیل نے جھنجھلاہٹ میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کی آبادیوں پر اندھا دھند بمباری جاری رکھی ہوئی ہے۔اب تک ایک ہزار سے اوپر فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بے شمار زخمی ہیں۔ زخمیوں میں عورتوں اور بچوں کی اکثریت ہے۔کسی بھی آرمڈ کنفلکٹ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ معصوم جانوں کو ٹارگٹ کیا جائے۔بھلا بچوں نے کسی کا کیا بگاڑا ہوتا ہے۔
ہندوستان کی حکومت اس سے پہلے فلسطینیوں کے ساتھ لِپ سروس کرتے ہوئے نیوٹرل رہی ہے لیکن جناب مودی نے یہ بھرم بالائے تاک رکھتے ہوئے کھلم کھلا اسرائیل کا ساتھ دیا ہے۔اس کی وجہ ہندوستان اور عرب ممالک کے تعلقات ہیں۔اب ہندوستان عرب ملکوں کے اتنا قریب ہے کہ اسے عربوں کی ناراضگی کا کوئی ڈر نہیں رہا۔
جمائما خان نے بھی اسرائیل کی حمایت میں ٹویٹ کیا ہے۔ حماس مجاہدین نے انہونی کر کے دکھا دیا ہے۔ پورے مڈل ایسٹ میں حزب اﷲ واحد گروہ تھا جو خم ٹھونک کر اسرائیل کے مقابلے میں نکلتا تھا،جس کے رضاکاروں نے امریکی فوجی دستوں کو لبنان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایران کے علاوہ کسی عرب و مسلمان حکومت نے حماس کی حمایت نہیں کی ۔
اسرائیل نے غزہ کے لیے خوراک، ادویات، پانی،بجلی،گیس اور انٹرنیٹ سروس بند کرتے ہوئے ناکہ بندی کر دی ہے۔یورپین یونین نے فلسطین کو دی جانے والی 728ملین یورو کی امداد روک دی ہے۔ اس امداد سے چلنے والے بہت سے ادارے شدید متاثر ہوں گے۔
اسرائیل میں زیادہ تر لوگوں کی دوہری شہریت ہے۔ایسے لوگوں نے ملک چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔اسرائیل میں کاروباری ایکٹوٹی اور ٹوارزم انڈسٹری کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں اوپر جائیں گی۔
دوسری طرف اسرائیلی بمباری سے غزہ میں آبادیاں زمین بوس ہو رہی ہیں۔ کسی بھی جنگی کارروائی سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ آیا اس سے پیدا شدہ نتائج کو بھگتا جا سکے گا اور کارروائی کو sustainکیا جا سکے گا۔حماس کی اس کارروائی نے فلسطین مسئلے کو ایک بار پھر ایک بڑے حل طلب مسئلے کے طور پر اجاگر کر دیا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب میں سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات کے معاہدے کو اگلے چند مہینوں میں ایک بڑی حقیقت قرار دیا تھا۔اسرائیلی وزرا اب کھلم کھلا سعودی عرب کا دورہ کرتے نظر آتے تھے۔خدشہ ہے کہ حماس کارروائی سے یہ معاہدہ کھٹائی میں پڑ جائے گا۔عرب عوام کی ہمدردیاں فلسطینیوں کے ساتھ ہوں گی اس لیے ایک لمبے عرصے تک عرب حکومتوں کے لیے اسرائیل سے جپھی ڈالنا آسان نہیں ہوگا البتہ نتن یاہو کی اندرونِ ملک مخالفت ختم ہو گئی ہے۔
حماس نے ساری دنیا خاص کر اسرائیل کو باور کرا دیا ہے کہ حماس ہی فلسطینیوں کی واحد نمایندہ جماعت ہے،کہ اس کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی وقت بھی اسرائیلی شہریوں کی زندگی اجیرن کر سکتی ہے،کہ مڈل ایسٹ میں پائیدار امن کے قیام کے لیے حماس سے بات کرنی ضروری ہے۔حماس نے بہت سے قیدی بنا لیے ہیں جن کی رہائی کے بدلے اسرائیل کو حماس کے قیدی چھوڑنے ہوں گے۔پہلے ایسا ممکن نہیں تھا۔
حماس کی پہلے ہی ہلے میں کامیابی کے بعد اسرائیل کی بڑی سے بڑی کارروائی بے معنی ہو چکی ہے۔اسرائیلیوں کا اعتماد بحال ہونے میں بڑا وقت لگے گا۔اسرائیلی شہری ایک لمبے عرصے تک میٹھی نیند نہیں سو سکیں گے۔
جس طرح ایک ماہر مصور کینوس پر ایک ماسٹر اسٹروک لگا کر نئی حقیقتیں تخلیق کر دیتا ہے اسی طرح اس سوئی سائیڈل حملے سے حماس مجاہدین نے اسرائیلی جسم پر کپکپی طاری کر کے نئی حقیقت کو جنم دیا ہے۔ ہمارے کشمیری بھائیوں کے لیے اس میں کئی راہیں پوشیدہ ہیں۔