تدبر اور دانائی
حضرت سلیمان علیہ السلام کی فہم و فراست کا ایک واقعہ یوں ہے کہ ملکہ بلقیس نے ان کی عقل و فکر کو جانچنے کا ارادہ کیا
حضرت سلیمانؑ کا دربار لگا ہوا تھا، چرند پرند، جن و انس سب حاضر تھے، اتنے میں ان کی نظر پرندوں پر پڑی تو ہُد ہُد کو غیر حاضر پایا، انھوں نے پوچھا کہ '' ہُدہُد آج حاضر کیوں نہیں ہے؟
کیا وہ اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بتا سکے گا یا نہیں، اگر نہیں تو میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کر دوں گا'' ابھی وہ کہہ ہی رہے تھے کہ ہُدہُد آن پہنچا اور بولا کہ '' میں ایک ایسی خبر لایا ہوں جسے آپ کو بتانا ضروری ہے۔ ملک سبا میں ایک عورت کی حکمرانی ہے اور نام اس کا بلقیس ہے، وہ لوگ سورج کی پوجا کرتے ہیں۔''
اس واقعے میں ایک نکتہ ایک حکمت پوشیدہ ہے اور آداب جہاں بانی کا رمز ہے کہ حاکم کو کیسا ہونا چاہیے۔ ہُدہُد بہت بڑا پرندہ نہیں ہے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کی دور بیں نظروں نے اس کی غیر حاضری کو محسوس کیا اور وجہ دریافت کی اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ ہُدہُد کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو اسے سخت سزا دیں گے۔ حاکم کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی نظر رکھ سکے۔
ایسی ہی بات حضرت عمر فاروقؓ نے کہی تھی کہ دریائے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا پیاسا ہے تو یہ خلیفہ کی ذمے داری ہے اور اس کا قصور ہے۔
لیکن افسوس کہ پاکستان میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جو بھی حکمران آیا اس نے اپنی جیبیں بھریں اور قومی خزانے کو لوٹا، کسی نے فیکٹریاں لگا لیں، کسی نے محل تعمیر کرائے اور خریدے، گھوڑوں کو دودھ، بادام اور شہد کھلائے، کسی نے توشہ خانہ کے قیمتی تحفے بیچے، ریاست مدینہ کی بات کرنے والے محض خود کو بچانے کے لیے اپنے آقاؤں کی مدت ملازمت میں توسیع دیتے رہے۔ نہ ان حکمرانوں کو وطن سے محبت ہے نہ عوام سے ہمدردی، الیکشن کے نام پر جن لوگوں کو عوام پر مسلط کیا جاتا ہے وہ پیکیج ڈبل کے تحت ہوتا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام جو اللہ کے پیغمبر تھے انھوں نے ایک ہُدہُد کی غیر حاضری نوٹ کر لی، غورکیجیے کہ ان کی حکمرانی کیوں اتنی مضبوط تھی، اس لیے کہ حکمران کے اندر یہ تین خوبیاں ضرور ہونی چاہئیں۔ اول وہ دیانت دار ہو، اور جھوٹ نہ بولتا ہو، دوم۔ قانون کی حکمرانی ہر صورت میں یقینی بنائے، لیکن ہمارے ہاں تو قانون بھی موم کی ناک ہے، جب چاہا کسی کو مجرم ثابت کر دیا، جب چاہا بڑے بڑے ملزموں کو تخت و تاج عطا کردیا۔
سوم یہ کہ حکمران میں تدبر، فہم و فراست کا ہونا ضروری ہے، لیکن قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد تینوں باتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔
کسی نے کراچی کو پیرس بنانے کی نوید دے کر کچرا کنڈی بنا دیا، کسی نے وزارت ملنے کے بعد وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا بس اعلان ہی کیا۔ اسمبلی کے فیصلے خواب گاہوں میں ہونے لگے، کسی نے چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا بصورت دیگر نام تک بدلنے کی بات کی، لوڈ شیڈنگ تو کیا ختم ہوتی، مزید ملک اندھیروں میں چلا گیا، لیکن موصوف نے نام اب تک نہیں بدلا۔
ہُدہُد جب ملک سبا کی ملکہ کی خبر لایا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے ایک خط دے کر ملکہ بلقیس کی خدمت میں بھیجا، جواب میں اس نے اسلام قبول کیا، بعد میں انھوں نے ملکہ بلقیس سے نکاح کر لیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے علم، تدبر اور فہم و فراست کے کئی قصے کتابوں میں موجود ہیں، جو سب کے سب سبق آموز ہیں، ہمارے کرپٹ حکمران سمجھتے ہیں کہ انھیں حیات جاودانی عطا ہوئی ہے، اسی لیے وہ جی بھر کر کرپشن کرتے ہیں، دولت کے ذریعے اپنی سات پشتوں تک کے عیش کا انتظام کر دیتے ہیں، کسی کو مروا دیتے ہیں، کوئی عینک میں ہیرے جڑوا کر پہنتا ہے تو کوئی جوتوں میں سونا لگوا لیتا ہے، لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ موت برحق ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ایک دن اپنے دربار میں بیٹھے تھے، قریب ہی ان کا وزیر ابو نواس بھی بیٹھا تھا، جنات بھی حاضر تھے، اتنی دیر میں حضرت عزرائیل تشریف لائے اور ابونواس کو گھور گھور کر دیکھنے لگے، کچھ دیر بعد وہ چلے گئے تو وزیر نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ کون تھے، انھوں نے جواب دیا کہ وہ عزرائیل تھے۔
ابونواس نے کہا کہ وہ اسے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے، اسے ان سے ڈر لگ رہا ہے، لہٰذا اسے کسی دور افتادہ مقام پر بھیج دیا جائے۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا کہ وہ ابونواس کو جزیرہ بہاما پہنچا دے۔ ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع تھی، لہٰذا اس نے فوراً ان کے حکم کی تعمیل کی اور وزیر کو جزیرہ بہاما پہنچا دیا۔
تھوڑی دیر بعد عزرائیل دوبارہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس آئے تو انھوں نے پوچھا کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ وہ جزیرہ بہاما سے ابونواس کی روح قبض کرکے آ رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ابونواس کی روح قبض کرنے کا حکم جزیرہ بہاما میں دیا تھا، اسی لیے وہ چند ساعتوں پہلے یہاں دربار میں دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ یہ یہاں کیا کر رہا ہے۔ اس کی روح تو مجھے کہیں اور قبض کرنی تھی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی فہم و فراست کا ایک واقعہ یوں ہے کہ ملکہ بلقیس نے ان کی عقل و فکر کو جانچنے کا ارادہ کیا، ایک ہی قد و قامت کے چھوٹے چھوٹے بچے جمع کیے جن کے کپڑے اور حلیہ یکساں تھے۔
پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کو بلوایا اور کہا کہ ان بچوں میں سے لڑکے اور لڑکیوں کو الگ الگ کر دیجیے۔ وہ سمجھ گئے کہ ایسا وہ کیوں کہہ رہی ہے، لہٰذا انھوں نے ملازموں کو حکم دیا کہ جتنے بچے ہیں اتنے پانی سے بھرے ہوئے تسلے، تولیے اور صابن لاؤ۔ حکم کی تعمیل ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام نے بچوں کو ایک قطار میں بیٹھنے کو کہا اور پھر ان سے کہا کہ وہ پانی اور صابن سے ہاتھ دھوئیں، سب بچوں نے حکم مانا، پانی اور صابن سے ہاتھ دھوئے اور تولیے سے پونچھ کر ایک طرف بیٹھ گئے۔
حضرت سلیمان نے اشاروں سے بچوں کو دو قطاروں میں تقسیم کر دیا اور پھر ملکہ بلقیس سے کہا کہ ایک قطار لڑکوں کی ہے اور دوسری لڑکیوں کی، وہ حیران ہوگئی کہ انھوں نے کیونکر پہچانا کہ کتنی لڑکیاں ہیں اور کتنے لڑکے، جب کہ سب کا حلیہ اور لباس تک ایک تھے، وہ ضبط نہ کرسکی اور ان سے پوچھ لیا کہ انھوں نے کیونکر پہچانا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے بتایا کہ جن بچوں نے آستین اوپر کرلی تھی وہ لڑکیاں تھیں اور جنھوں نے بغیر آستین اوپر کیے ہاتھ دھوئے وہ لڑکے تھے۔
ان واقعات سے کوئی بھی حکمران سبق لے سکتا ہے۔ مگر ایسا کرے گا کون؟ اس ملک سے کسی کو محبت نہیں ہے، اگر ملک دیوالیہ ہوا، خدا نہ کرے تو یہ عذاب صرف اور صرف اس کرپٹ ٹولے کی وجہ سے آئے گا، جو ضیا الحق اور ان کے پسندیدہ اور چہیتے سیاستدانوں کی وجہ سے ہوگا، یہ گملوں میں لگی ہوئی وہ پنیریاں ہیں جو کبھی جمہوریت کا دوپٹہ اوڑھ کر آ جاتی ہیں، کبھی کپتان کی انگلی اٹھنے کے انتظار میں مہینوں سرگرداں رہتے ہیں، گولر کی طرح پک کر ٹپ سے ان کے منہ میں گر پڑتی ہیں اور وہ اس بے موسم کے گولر کا مزہ لے کر اپنے آقاؤں کی خوشامد میں لگے رہتے ہیں۔
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
کیا وہ اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بتا سکے گا یا نہیں، اگر نہیں تو میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کر دوں گا'' ابھی وہ کہہ ہی رہے تھے کہ ہُدہُد آن پہنچا اور بولا کہ '' میں ایک ایسی خبر لایا ہوں جسے آپ کو بتانا ضروری ہے۔ ملک سبا میں ایک عورت کی حکمرانی ہے اور نام اس کا بلقیس ہے، وہ لوگ سورج کی پوجا کرتے ہیں۔''
اس واقعے میں ایک نکتہ ایک حکمت پوشیدہ ہے اور آداب جہاں بانی کا رمز ہے کہ حاکم کو کیسا ہونا چاہیے۔ ہُدہُد بہت بڑا پرندہ نہیں ہے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کی دور بیں نظروں نے اس کی غیر حاضری کو محسوس کیا اور وجہ دریافت کی اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ ہُدہُد کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو اسے سخت سزا دیں گے۔ حاکم کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی نظر رکھ سکے۔
ایسی ہی بات حضرت عمر فاروقؓ نے کہی تھی کہ دریائے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا پیاسا ہے تو یہ خلیفہ کی ذمے داری ہے اور اس کا قصور ہے۔
لیکن افسوس کہ پاکستان میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جو بھی حکمران آیا اس نے اپنی جیبیں بھریں اور قومی خزانے کو لوٹا، کسی نے فیکٹریاں لگا لیں، کسی نے محل تعمیر کرائے اور خریدے، گھوڑوں کو دودھ، بادام اور شہد کھلائے، کسی نے توشہ خانہ کے قیمتی تحفے بیچے، ریاست مدینہ کی بات کرنے والے محض خود کو بچانے کے لیے اپنے آقاؤں کی مدت ملازمت میں توسیع دیتے رہے۔ نہ ان حکمرانوں کو وطن سے محبت ہے نہ عوام سے ہمدردی، الیکشن کے نام پر جن لوگوں کو عوام پر مسلط کیا جاتا ہے وہ پیکیج ڈبل کے تحت ہوتا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام جو اللہ کے پیغمبر تھے انھوں نے ایک ہُدہُد کی غیر حاضری نوٹ کر لی، غورکیجیے کہ ان کی حکمرانی کیوں اتنی مضبوط تھی، اس لیے کہ حکمران کے اندر یہ تین خوبیاں ضرور ہونی چاہئیں۔ اول وہ دیانت دار ہو، اور جھوٹ نہ بولتا ہو، دوم۔ قانون کی حکمرانی ہر صورت میں یقینی بنائے، لیکن ہمارے ہاں تو قانون بھی موم کی ناک ہے، جب چاہا کسی کو مجرم ثابت کر دیا، جب چاہا بڑے بڑے ملزموں کو تخت و تاج عطا کردیا۔
سوم یہ کہ حکمران میں تدبر، فہم و فراست کا ہونا ضروری ہے، لیکن قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد تینوں باتوں کا فقدان نظر آتا ہے۔
کسی نے کراچی کو پیرس بنانے کی نوید دے کر کچرا کنڈی بنا دیا، کسی نے وزارت ملنے کے بعد وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا بس اعلان ہی کیا۔ اسمبلی کے فیصلے خواب گاہوں میں ہونے لگے، کسی نے چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا بصورت دیگر نام تک بدلنے کی بات کی، لوڈ شیڈنگ تو کیا ختم ہوتی، مزید ملک اندھیروں میں چلا گیا، لیکن موصوف نے نام اب تک نہیں بدلا۔
ہُدہُد جب ملک سبا کی ملکہ کی خبر لایا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے ایک خط دے کر ملکہ بلقیس کی خدمت میں بھیجا، جواب میں اس نے اسلام قبول کیا، بعد میں انھوں نے ملکہ بلقیس سے نکاح کر لیا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے علم، تدبر اور فہم و فراست کے کئی قصے کتابوں میں موجود ہیں، جو سب کے سب سبق آموز ہیں، ہمارے کرپٹ حکمران سمجھتے ہیں کہ انھیں حیات جاودانی عطا ہوئی ہے، اسی لیے وہ جی بھر کر کرپشن کرتے ہیں، دولت کے ذریعے اپنی سات پشتوں تک کے عیش کا انتظام کر دیتے ہیں، کسی کو مروا دیتے ہیں، کوئی عینک میں ہیرے جڑوا کر پہنتا ہے تو کوئی جوتوں میں سونا لگوا لیتا ہے، لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ موت برحق ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ایک دن اپنے دربار میں بیٹھے تھے، قریب ہی ان کا وزیر ابو نواس بھی بیٹھا تھا، جنات بھی حاضر تھے، اتنی دیر میں حضرت عزرائیل تشریف لائے اور ابونواس کو گھور گھور کر دیکھنے لگے، کچھ دیر بعد وہ چلے گئے تو وزیر نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے پوچھا کہ وہ کون تھے، انھوں نے جواب دیا کہ وہ عزرائیل تھے۔
ابونواس نے کہا کہ وہ اسے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے، اسے ان سے ڈر لگ رہا ہے، لہٰذا اسے کسی دور افتادہ مقام پر بھیج دیا جائے۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا کہ وہ ابونواس کو جزیرہ بہاما پہنچا دے۔ ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع تھی، لہٰذا اس نے فوراً ان کے حکم کی تعمیل کی اور وزیر کو جزیرہ بہاما پہنچا دیا۔
تھوڑی دیر بعد عزرائیل دوبارہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس آئے تو انھوں نے پوچھا کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ وہ جزیرہ بہاما سے ابونواس کی روح قبض کرکے آ رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ابونواس کی روح قبض کرنے کا حکم جزیرہ بہاما میں دیا تھا، اسی لیے وہ چند ساعتوں پہلے یہاں دربار میں دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ یہ یہاں کیا کر رہا ہے۔ اس کی روح تو مجھے کہیں اور قبض کرنی تھی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی فہم و فراست کا ایک واقعہ یوں ہے کہ ملکہ بلقیس نے ان کی عقل و فکر کو جانچنے کا ارادہ کیا، ایک ہی قد و قامت کے چھوٹے چھوٹے بچے جمع کیے جن کے کپڑے اور حلیہ یکساں تھے۔
پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کو بلوایا اور کہا کہ ان بچوں میں سے لڑکے اور لڑکیوں کو الگ الگ کر دیجیے۔ وہ سمجھ گئے کہ ایسا وہ کیوں کہہ رہی ہے، لہٰذا انھوں نے ملازموں کو حکم دیا کہ جتنے بچے ہیں اتنے پانی سے بھرے ہوئے تسلے، تولیے اور صابن لاؤ۔ حکم کی تعمیل ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام نے بچوں کو ایک قطار میں بیٹھنے کو کہا اور پھر ان سے کہا کہ وہ پانی اور صابن سے ہاتھ دھوئیں، سب بچوں نے حکم مانا، پانی اور صابن سے ہاتھ دھوئے اور تولیے سے پونچھ کر ایک طرف بیٹھ گئے۔
حضرت سلیمان نے اشاروں سے بچوں کو دو قطاروں میں تقسیم کر دیا اور پھر ملکہ بلقیس سے کہا کہ ایک قطار لڑکوں کی ہے اور دوسری لڑکیوں کی، وہ حیران ہوگئی کہ انھوں نے کیونکر پہچانا کہ کتنی لڑکیاں ہیں اور کتنے لڑکے، جب کہ سب کا حلیہ اور لباس تک ایک تھے، وہ ضبط نہ کرسکی اور ان سے پوچھ لیا کہ انھوں نے کیونکر پہچانا، حضرت سلیمان علیہ السلام نے بتایا کہ جن بچوں نے آستین اوپر کرلی تھی وہ لڑکیاں تھیں اور جنھوں نے بغیر آستین اوپر کیے ہاتھ دھوئے وہ لڑکے تھے۔
ان واقعات سے کوئی بھی حکمران سبق لے سکتا ہے۔ مگر ایسا کرے گا کون؟ اس ملک سے کسی کو محبت نہیں ہے، اگر ملک دیوالیہ ہوا، خدا نہ کرے تو یہ عذاب صرف اور صرف اس کرپٹ ٹولے کی وجہ سے آئے گا، جو ضیا الحق اور ان کے پسندیدہ اور چہیتے سیاستدانوں کی وجہ سے ہوگا، یہ گملوں میں لگی ہوئی وہ پنیریاں ہیں جو کبھی جمہوریت کا دوپٹہ اوڑھ کر آ جاتی ہیں، کبھی کپتان کی انگلی اٹھنے کے انتظار میں مہینوں سرگرداں رہتے ہیں، گولر کی طرح پک کر ٹپ سے ان کے منہ میں گر پڑتی ہیں اور وہ اس بے موسم کے گولر کا مزہ لے کر اپنے آقاؤں کی خوشامد میں لگے رہتے ہیں۔
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے