رسول اکرم ﷺ کا غیرمسلموں سے حسن سلوک

’’ہم نے آپ ؐ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

(فوٹو، فائل)

نبی مکرم ﷺ کی رحمت و نوازش اور شفقت و مہربانی کا مظاہرہ ہر خاص و عام پر ہُوا۔ اس سے بڑی رحمت اور کیا ہوگی کہ آپ ﷺ کی آمد کے بعد، تاریکی میں بھٹکتے ظلم و جور کے عادی، اخلاق حسنہ سے عاری اور تہذیب و تمدن سے ناواقف لوگوں نے اسلام کی روشنی پاکر، پوری دنیا کو منور کرکے انسانیت کا اعلی نمونہ پیش کیا۔

اﷲ پاک کی ساری مخلوقات، انس و جن، حیوانات، نباتات اور جمادات سب آپ ﷺ کی رحمت سے مستفید ہوئے۔

ارشاد باری تعالیٰ ، مفہوم: ''ہم نے آپؐ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔''

اگر سوال کیا جائے کہ آپ ﷺ اس شخص کے لیے کیسے رحمت ہوئے جس نے آپؐ کی دعوت و رسالت کو قبول نہیں کیا ۔۔۔؟ تو اس کا جواب حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے درج بالا آیت کی تفسیر میں واضح کیا ہے۔

آپ فرماتے ہیں: ''جواﷲ اور یوم آخرت پر ایمان لایا، اس کے لیے دنیا اور آخرت میں رحمت لکھ دی گئی اور جو اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لایا (غیر مومن رہا، اس کے لیے آپ ﷺ اس طرح دنیا میں رحمت ہیں کہ (وہ زمین میں دھنسائے جانے اور آسمان سے پتھر برسائے جانے جیسے عذاب سے بچا لیا گیا جن سے گذشتہ امتیں دوچار ہوئی تھیں۔'' (تفسیر ابن کثیر)

غیر مسلموں کے ساتھ رسول اکرم ﷺ کی رحمت و شفقت، نوازش و کرم اور عفو و درگذر کے لاتعداد نمونے ہیں جن میں چند نذر قارئین کیے جاتے ہیں۔

طائف میں رسول اکرم ﷺ پر ظلم اور ملک الجبال کی حاضری:

رسول اکرم ﷺ نے شوال سن 10 نبوی میں طائف کا دعوتی سفر کیا۔ آپؐ نے طائف میں دس دنوں تک قیام کیا۔ آپؐ نے سردارانِ طائف عبد یالیل، حبیب اور مسعود کو اسلام کی دعوت دی۔ مگر انہوں نے آپؐ کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور بڑی سختی سے پیش آئے۔

مغموم و رنجیدہ آپؐ وہاں سے واپس چلے۔ طائف کے اوباش اور بازاری لڑکوں کو آپ ﷺ پر پتھر مارنے کو اکسایا گیا۔ ان اوباشوں نے اس طرح پتھر برسائے کہ آپؐ زخمی ہوگئے اور آپ کے جسم اطہر سے خون ٹپکنے رہے تھے۔ جب آپؐ قرن ثعالب میں پہنچے تو ہوش آیا۔ آپؐ نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ بادل آپ پر سایہ فگن ہے۔ اس میں جبریل علیہ السلام ہیں۔

انہوں نے آپؐ کو آواز دی اور کہا: آپ سے آپ کی قوم کی بات اور انہوں نے آپ کو جو کچھ جواب دیا، بے شک! اﷲ نے سن لیا ہے۔ اﷲ نے آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے تاکہ اس قوم کے حوالے سے جو آپ چاہیں، اس فرشتے کو حکم دیں۔

پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپؐ کو پکارا، سلام کیا پھر اس نے کہا: اے محمد (ﷺ )! پھر اس نے وہی بات کہی جو جبریل علیہ السلام نے کہی تھی۔ اس حوالے سے آپ جو چاہیں (میں کروں گا)۔ اگر آپؐ چاہیں تو میں ان پر اخشبین (مکہ مکرمہ کے دونوں طرف جو پہاڑ ہیں بوقبیس اور قعیقِعان) کو ملا دوں؟

نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا، مفہوم: مجھے امید ہے کہ اﷲ پاک ان کی نسل سے ایسے لوگوں کو پیدا کریں گے، جو اﷲ وحدہ کی عبادت کریں گے، ان کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ (صحیح بخاری)

آپ ﷺ نے پہاڑ کے فرشتے کو جو جواب دیا، اس میں وہاں کے ان عاقبت نااندیش لوگوں کے حوالے سے، آپ کی رحمت و شفقت، نوازش و کرم اور صبر و حلم کا اعلی نمونہ ہے کیوں کہ آپؐ رحمت بناکر بھیجے گئے تھے۔ اگر آپؐ کی رحمت کا ظہور نہ ہوتا اور آپ فرشتے کو اجازت دے دیتے تو ان بدبختوں کا فورًا صفایا ہوجاتا۔

غورث بن الحارِث کا آپ ﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ:

''غزوہ ذات الرقاع '' سے واپسی کے موقع پر، ایک دیہاتی کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، وہ آپ ﷺ کے عفو و درگذر، رحمت و شفقت، مہربانی و نوازش، شجاعت و بہادری اور توکل علی اﷲ کے حوالے سے نہایت ہی اہم ہے۔


رسول اﷲ ﷺ نجد کے علاقہ میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے ساتھ جہاد کے لیے گئے۔ جب لوٹ کر آرہے تھے تو آپ ﷺ کثیر خاردار درختوں کی وادی سے گزر رہے تھے، قیلولہ کا وقت ہوگیا۔ صحابہ کرام کے ساتھ آپ اسی مقام پر رک گئے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم درختوں کے سائے میں پھیل کر، تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنے لگے۔

تلوار کو درخت پر لٹکا کر، آپ ﷺ بھی کیکر کے درخت کے نیچے قیلولہ کے لیے لیٹ گئے۔ اچانک صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے سنا کہ رسول اﷲ ﷺ انہیں پکار رہے ہیں۔ جب صحابہ کرامؓ آپؐ کے پاس آئے تو دیکھا کہ ماجرا ہی کچھ اور ہے۔ آپ ﷺ کے پاس ایک دیہاتی بیٹھا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو بتایا کہ آپ سوئے ہوئے تھے۔

جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو دیکھا کہ وہ دیہاتی شخص (غورث بن الحارِث) آپ ﷺ کی تلوار جو درخت پر لٹکی تھی کو میان سے باہر نکالتے ہوئے آپ سے کہتا ہے کہ ''تم کو مجھ سے کون بچائے گا؟'' اس پر آپ ﷺ نے جواب دیا: ''اﷲ''۔ اس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی، آپ ﷺ نے اس دیہاتی کو بغیر کسی سزا اور انتقام کے رہا فرما دیا۔ (صحیح بخاری)

اس واقعے کے بعد رسول اﷲ اکرم ﷺ نے قتل کے ارادہ سے آنے والے غیر مسلم کے ساتھ پوری طاقت و قوت کے باوجود بدلے کی کارروائی نہیں کی۔ آپؐ نے اس کے اس جرم پر مواخذہ نہیں کیا، اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا اور انتقام لینا مناسب نہیں سمجھا بل کہ آپ ﷺ نے عفو و درگذر سے کام لیا۔ آپ ﷺ کے اسی عفو و کرم اور رحمت و نوازش کا نتیجہ تھا کہ ایک روایت کے مطابق وہ شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ (فتح الباری)

اہل مکہ کو غلہ کی فراہمی کے لیے رسول اکرم ﷺ کا خط:

حضرت ثمامہ رضی اﷲ عنہ وطن لوٹے۔ یمامہ سے مکہ غلہ آنا بند ہوگیا اور مکہ میں غلے ختم ہوگئے۔ مکہ والے پریشان حال تھے۔ پھر انہوں نے رشتہ داری کا حوالہ دیتے ہوئے رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں خط ارسال کیا۔ اس خط میں انہوں نے آپ ﷺ سے درخواست کی تھی کہ آپ ثمامہ کو حکم دیں کہ وہ مکہ میں غلہ آنے دیں۔

یہ بات تاریخ میں رقم ہے کہ یہ مکہ والے (قبیلہ قریش و کنانہ) وہی لوگ ہیں، جنہوں نے مکہ میں آپ کا اور آپؐ کے ساتھیوں کا بائیکاٹ کیا تھا اور آپ سب (قبیلہ بنو ہاشم و بنو عبدالمطلب) کو شعب ابی طالب میں تین سال تک ٹھہرنا پڑا تھا۔ اس موقع سے وہ مکہ والے آپؐ کے پاس غلے اور اناج بیچنے والوں کو بھی جانے نہیں دیتے تھے۔

رسول اکرم ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو درخت کے پتے کھانے پڑے۔ آپؐ نے اس کا بدلہ نہیں لیا بل کہ آپ ﷺ نے اپنی رحمت و شفقت اور انسانیت نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے، اس حوالے سے حضرت ثمامہؓ کو خط لکھا۔ پھر حضرت ثمامہؓ نے مکہ کے لیے غلہ جانے کی اجازت دی۔ (عمدۃ القاری)

فتح مکہ اور معافی کا اعلان:

فتح مکہ کے دن رسول اکرم ﷺ مسجد حرام میں تشریف لائے۔ آپؐ نے کعبہ شریف کا طواف کیا۔ پھر آپؐ کعبہ شریف کے اندر تشریف لے گئے۔ پھر خانہ کعبہ سے نکلتے ہوئے دروازے پر کھڑے ہوئے۔ اہل مکہ مسجد حرام میں کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ سردارانِ قریش جنہوں نے اب تک اسلام قبول نہیں کیا تھا، وہ سوچ رہے تھے کہ اب کسی وقت بھی پچھلا حساب کتاب چکایا جاسکتا ہے۔

آپ ﷺ نے موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے، دوران خطاب پوچھا: ''قریش کے لوگو! تمہارا کیا خیال ہے، میں تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کروں گا۔۔۔۔؟''

لوگوں نے جواب دیا: ''ہمارا خیال ہے کہ آپؐ بھائی ہیں۔ آپؐ مہربان اور حلیم و بردبار چچا کے صاحب زادے ہیں۔''

آپ ﷺ نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ''آج میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے (اپنے بھائیوں سے) کہی تھی: آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہوگی، اﷲ تمہیں معاف کرے، وہ سارے رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔'' (شرح معانی الآثار) راوی فرماتے ہیں (کہ اس اعلان کے بعد) پھر وہ (کعبہ سے) اس طرح نکلے جیسا کہ وہ قبر سے اٹھے ہوں۔ پھر وہ سب اسلام میں داخل ہوگئے۔

رسول اکرم ﷺ نہ صرف اپنے دوست و احباب کے لیے رحمت تھے، ناصرف اپنے ساتھیوں کے ساتھ عفو و در گذر کا معاملہ کیا بل کہ پوری انسانیت کے لیے آپ ﷺ رحمت تھے۔ آپؐ کو جب بھی اور جہاں بھی موقع میسر آیا، آپؐ نے ناصرف اپنے ساتھیوں پر بل کہ اپنے دشمنوں پر بھی عفو و درگذر کا مظاہرہ کیا۔ آپؐ غیر مسلمین کے لیے بھی رحمت ثابت ہوئے۔ آج آزادی رائے کی آڑ میں، نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، آپؐ کی پاکیزہ زندگی کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور آپ ﷺ کے خلاف طرح طرح کے سوالات کیے جاتے ہیں۔

آج بھی نبی اکرم ﷺ کی سیرت و سوانح نہایت ہی صحیح اسناد کے ساتھ محفوظ ہے۔ جس کسی کو بھی رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر کوئی اشکال اور اعتراض ہے، اس کو چاہیے کہ پہلے وہ آپ ﷺ کی سیرت و سوانح کا مطالعہ کرے ۔ جب وہ سیرت محمدی ﷺ کا مطالعہ کرے گا تو اسے خود معلوم ہوجائے گا کہ آپؐ ایک انسان دوست اور ہم درد تھے، آپؐ نے لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیے، آپؐ نے بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کی پوری کوشش کی۔ آپ ﷺ نے اپنے دشمنوں پر بھی سینکڑوں احسانات کیے اور ان کے ساتھ بھی عفو و درگذر سے کام لیا۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے پیارے نبی ﷺ کی سیرت پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
Load Next Story