اسوۂ حسنہ رسول کریم ﷺ

آپؐ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت، راہ نمائی اور زندگی گزارنے کا کامل منصوبہ اور تعلیمات لے کر آئے


آپؐ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت، راہ نمائی اور زندگی گزارنے کا کامل منصوبہ اور تعلیمات لے کر آئے۔ فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو ایسا عظیم الشان مقام عطا فرمایا کہ کوئی بشر، حتیٰ کہ نبی یا رسول بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔

اﷲ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: '' (اے پیغمبرؐ!) کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کھول نہیں دیا ؟ اور ہم نے تم سے تمہارا وہ بوجھ اتاردیا ہے، جس نے تمہاری کمر توڑ رکھی تھی اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کر دیا ہے۔'' (سورۃ الم نشرح)

دنیا میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں لاکھوں مساجد کے میناروں سے اﷲ کی وحدانیت کی شہادت کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے نبی ہونے کی شہادت ہر وقت نہ دی جاتی ہو اور کروڑوں مسلمان رسول اکرم ﷺ پر درود نہ بھیجتے ہوں، غرض یہ کہ اﷲ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ حضور اکرم ﷺ کا نام نامی اس دنیا میں لکھا، بولا، پڑھا اور سنا جاتا ہے۔

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت کی برکت اور آنحضرت ﷺ کی شان ختم المرسلینیؐ کے توسط سے امت مسلمہ کو رب کریم کی طرف سے ایسی بے پایاں رحمتیں حاصل ہوئیں جن کی گنتی کرنے سے اعداد و شمار کے آلات قاصر ہیں۔

ارشاد ربانی کا مفہوم ہے کہ تم بہترین امت ہو۔ یہ منفرد اعزاز بھی ختم نبوت کے مرہون منت ہے۔ حضور اکرم ﷺ سید الرسل اور خاتم الانبیائؐ ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد اس دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپؐ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت، راہ نمائی اور زندگی گزارنے کا کامل منصوبہ اور تعلیمات لے کر آئے جو رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے مشعل راہ اور کام یابی و کام رانی کا معیار اور ضامن ہے۔

اُمت پر آپ ﷺ کے حقوق و فرائض میں آپ پر ایمان لانا، آپ سے محبت و عقیدت رکھنا، آپؐ کی تعظیم و توقیر، اطاعت و فرماں برداری اور آپؐ کی اتباع و پیروی شامل ہے، حضور ﷺ کی عالم گیر اور ہمہ جہت نبوت، زمین و زماں اور مکین و مکاں پر محیط رسالت اور قیامت تک کی انسانیت پر مسلمہ سیادت آپ ﷺ کی خصوصیات، امتیازات اور اعزازات میں سے ہے۔

آپ ﷺ کی نبوت کی طرح سیرت بھی عالمی و آفاقی ہے جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لیے ایسے اصول فراہم کیے ہیں جو نظام عالم کی بقاء کے ضامن، انسانی و معاشرتی قدروں کا حسن اور تمام انسانیت کے لیے نجات دہندہ ہیں۔ آپ ﷺ کا بے داغ بچپن، باکردار جوانی اور حسن عمل کا حامل بڑھاپا صرف عالم اسلام ہی نہیں، تمام اقوام عالم کے لیے مشعل راہ ہے۔

یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف منصف مزاج غیر مسلم دانش وروں نے برملا اور بجا طور پر کیا ہے۔ معروف ہندو دانش ور سوامی لکشمن جی نے پیغمبر اسلامؐ کی شخصیت کا مطالعہ کیا تو اس قدر متاثر ہوا کہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر پوری کتاب لکھ ڈالی جس کا نام ''عرب کا چاند'' رکھا۔ اس کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:

''جہالت اور ضلالت کے مرکز اعظم جزیرہ نمائے عرب کے کوہ فاران کی چوٹیوں سے ایک نور چمکا، جس نے دنیا کی حالت کو یکسر بدل دیا، گوشہ گوشہ کو نور ہدایت سے جگ مگا دیا اور ذرہ ذرہ کو فروغ تابش حسن سے غیرت خورشید بنا دیا۔

آج سے چودہ صدیاں پیشتر اسی گم راہ ملک کے شہر مکہ معظمہ کی گلیوں سے ایک انقلاب آفریں صدا اٹھی جس نے ظلم و ستم کی فضاؤں میں تہلکہ مچا دیا۔ یہیں سے ہدایت کا وہ چشمہ پھوٹا، جس نے اقلیم قلوب کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں سر سبز و شاداب کر دیں۔ اسی ریگستانی چمنستان میں روحانیت کا وہ پھول کھلا جس کی روح پرور، مہک نے دہریت کی دماغ سوز بُو سے گھرے ہوئے انسانوں کے مثام جان کو معطر و معنبر کر دیا۔

اسی بے برگ و گیاہ صحرا کے تیرہ وتار افق سے ضلالت و جہالت میں صداقت و حقانیت کا وہ ماہ تاب درخشاں طلوع ہوا جس نے جہالت و باطل کی تاریکیوں کو دور کرکے ذرے ذرے کو اپنی ایمانی روشنی سے جگ مگا کر رشک طور بنا دیا۔ گویا ایک دفعہ پھر خزاں کی جگہ سعادت کی بہار آگئی۔''

آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ کی جامعیت کا عالم یہ ہے کہ جہاں ایک طرف امت کو خطاب کرکے ارشاد ہُوا، مفہوم: ''تمہارے لیے اﷲ کے رسول (ﷺ کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔'' (احزاب) وہیں انبیاء کرام علیہم الصلوات و التسلیمات کی مقدس ترین جماعت اور افضل الخلائق ہستیوں کو مخاطب فرما کر انہیں آپ ﷺ کی اقتداء اور پیروی کا حکم دیا گیا۔

فرمان باری تعالی ہے، مفہوم: ''اور جب اﷲ نے نبیوں سے عہد لیا کہ میں جو کچھ بھی تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں پھر تمہارے پاس ایک رسول آجائے جواس چیز کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کروگے۔'' (آلعمران) گویا آپ ﷺ کی ذات گرامی مقتداؤں کی مقتدا، پیشواؤں کی پیشوا اور راہ نماؤں کی راہ نما ہے۔

کیا کمال ہے آنحضرت کی سیادت و امارت کا اور کیا شان ہے نمونہ کاملہ کی کہ اصحاب شریعت و کتاب، اولو العزم اور معصوم ترین ہستیاں جس کی زیر اقتداء ہیں اور وہ اس سوا لاکھ طائفہ مقدسہ کے راہ بر و راہ نما ہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی عالم گیر اور تمام فطری تقاضوں کے عین مطابق سیرت کے بے شمار اسرار و رموز میں سے ایک راز یہ ہے کہ آپ ﷺ نے جو دستور حیات امت کو دیا اسے محض اپنے فرمان اور وعظ و تقریر کے ذریعہ ہی ان تک نہیں پہنچایا بلکہ اس کا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کیا، احادیث طیبات میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

صحابہ کرامؓ کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔'' صحابہ کرام ؓ بھی تفہیم دین کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کا عملی طرز بیان اختیار فرماتے تھے۔

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے جب اپنے تلامذہ کو نماز کا طریقہ بتایا تو فرمایا: ''کیا میں تمہیں ایسے نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں جیسے رسول اﷲ ﷺ پڑھا کرتے تھے؟ پھر آپؓ نے نماز پڑھی۔'' (ترمذی، نسائی) اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دیتے ہوئے اپنی مثال بیان فرمائی: ''تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہے اور میں تم میں سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہوں۔'' (ترمذی) کھانے کا ادب بیان فرماتے ہوئے کھانے کے وقت اپنا معمول بیان فرمایا: ''میں (متکبروں کی طرح) ٹیک لگا کر نہیں کھاتا۔'' (بخاری) ذخیرہ احادیث اس نوع کے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔

آنحضرت ﷺ کی تا ابد اسوۂ حسنہ بننے والی سیرۃ مبارکہ کے لطائف میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کی بچپن، لڑکپن، جوانی، اور رخصتی تک غرض یہ کہ زندگی ہر لمحہ خواہ وہ آپ ﷺ کے بشری و طبعی امور سے متعلق ہو یا دینی و شرعی امور سے، مکمل طور پر محفوظ ہے، یہاں تک کہ بہت سے ایسے امور جن کو عام معاشرتی زندگی میں نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور ان کی تحقیق و تفتیش میں کوئی شخص نہیں پڑتا انہیں بھی آپ ﷺ کے مخلص جاں نثاروں اور بے لوث غلاموں نے اپنے احاطہ علمی میں لا کر امت تک پہنچایا۔ حضرت انسؓ ارشاد فرماتے ہیں: ''آپؐ کا وصال اس حال میں ہوا کہ آپ ﷺ کے سر اور ریش مبارک میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے۔'' (شمائل ترمذی)

غور فرمائیں! جس شخصیت کے سفید بالوں تک کی گنتی سے امت آشنا ہے اس کی زندگی کا کوئی گوشہ امت کی نگاہوں سے اوجھل رہ سکتا ہے۔

اسی طرح آپ ﷺ کے سرمہ اور تیل لگانے،کنگا کرنے، جوتا پہننے، تبسم فرمانے، چلنے پھرنے اور اظہار مسرت و غم کے وقت آپ ﷺ کی کیفیت جیسے احوال صحابہ کرام ؓ نے بیان و رقم کرکے اگلی نسلوں تک منتقل کیے۔ حضور نبی کریم رحمۃ للعالمین خاتم النبیین ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس نے میری اطاعت کی، اس نے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔'' (بخاری)

حضرت ابو طلحہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اﷲ ﷺ تشریف لائے تو آپؐ کے چہرہ انور پر خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ ﷺ ہم لوگ آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار محسوس کررہے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''بلاشبہ! میرے پاس فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمد ﷺ اﷲ عزوجل فرماتا ہے کیا تم لوگ خوش نہیں ہوتے جو شخص تمہارے اوپر ایک مرتبہ درود شریف بھیجے گا تو میں اس شخص پر دس مرتبہ رحمت بھیجوں گا اور تمہارے میں سے جو شخص (ایک مرتبہ) سلام بھیجے گا تو میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں گا۔''

اﷲ رب العزت ہم سب کو اپنے نبی کریم رحمتہ للعالمین امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کر نے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں