احسان دانش
شاہی کی آرزو نہ امارت پسند ہے
مجھ کو حضورؐ کا درِدولت پسند ہے
محشر میں اپنی فکر کریںگے سبھی، مگر
تو ایک وہ نبیؐ، جسے اُمت پسند ہے
قرآن کے نزول کو جبریلؑ کم نہ تھے
حق کو ترے لبوں کی حکایت پسند ہے
کعبہ ہے اک بلیغ معمّا مرے لیے
مجھ کو تو ان کے در کی زیارت پسند ہے
اے چشمِ شوق، خونِ جگر لا اُچھال کر
سنتا ہوں ان کو اشکِ ندامت پسند ہے
توفیق ہو تو عرض تمنّا انھی سے کر
حق کو پسند ہے تو یہ صورت پسند ہے
دانشِ درِرسولؐ پہ پھر حاضری کو چل
اﷲ کو یہ طرز عبادت پسند ہے
عزیز احسن
تڑپ تو رکھتا ہوں، زادِ سفر نہیں رکھتا
کرم حضورؐ! کہ میں بال و پر نہیں رکھتا
میں عرضِ حال کے قابل کہاں مرے آقاؐ
سوائے عجزِ بیاں، میں ہُنر نہیں رکھتا
ستم زدہ ہوں، نگاہِ کرم کا طالب ہوں
میں بے اماں ہوں کہیں کوئی گھر نہیں رکھتا
مجھے بھی عشق کی سچائیاں میّسر ہوں
نثار کرنے کے قابل سر نہیں رکھتا
وہ نالہ کھینچتا رہتا ہوں روزوشب آقا
جو شور رکھتے ہوئے بھی، اثر نہیں رکھتا
زکوٰۃ سیرتِ اطہر کی چاہتا ہے عزیزؔ
گدائے خُلق ہے آقاؐ، یہ زر نہیں رکھتا
محشر بدایونی
آکے طیبہ سے طلب اور ہے تشنہ تشنہ
دھڑکنیں دل کی صدا دیتی ہیں طیبہ طیبہ
کسی دیوار کا سایہ بھی کوئی سایہ ہے
آپؐ کے دامنِ رحمت کا ہے سایہ، سایہ
خلقِ معجز یہ ہے، جو آئینہ دل ٹوٹا
آئینہ کردیا پھر جوڑ کے ریزہ ریزہ
کارِدیں سخت کٹھن اور اور یہ رضائے شہہ دیںؐ
لوگ پتّھر ہیں، پگھل جائیں گے رفتہ رفتہ
آپؐ کے سائے میں آجائے تو یہ حال ہو کیوں
آدمی عقل کے نرغے میں ہے تنہا تنہا
حرم و طیبہ میں گزریں جو مرے شام و سحر
خلد ساماں ہو، مری زیست کا لمحہ لمحہ
اُمتی جائیں کہاں، جائے اماں پائیں کہاں
یہ غلام آپؐ کے، آپؐ ان کے ہیں آقا آقاؐ
علی محسن صدیقی
محمدؐ بے زبانوں کی زباں ہیں
انھیں سے معتبر حرف و بیاں ہیں
فقیروں کے وہ یارِ مہرباں ہیں
محمدؐ حامیٔ بے چارگاں ہیں
تمیزِ مومن و کافر سے بالا
محمدؐ، رحمتِ اہلِ جہاں ہیں
ہے اُن کا خُلق اکمل، خلق اجمل
محمدؐ، نخبۂ کون و مکاں ہیں
یتیموں اور بیوائوں کے والی
وہی غم خوارِ جانِ بے کساں ہیں
نظیر اُن کا نہ کوئی ہے، نہ ہوگا
رسول اﷲ ؐ، ختمِ مرسلاں ہیں
کتابُ اﷲ کی سب سورتوں سے
نقوشِ سیرتِ احمد عیاں ہیں
فقیری میں، جلالِ بے نہایت
امیری میں، جمالِ بے کراں ہیں
معارض ہوں جو، دین مصطفیؐ سے
وہ عقلی کاوشیں، وہم و گماں ہیں
احمد صغیر صدیقی
نظروں میں بسی ہے کسی مہتاب کی صورت
دیکھے چلے جاتے ہیں جسے خواب کی صورت
اک شمع کی مانند ہیں ہم تیز ہوا میں
وہ ذاتِ گرامیؐ کہ ہے محراب کی صورت
وحشت کے سوا کیا تھا سروں میں کہ وہ آیا
پھر اس نے نکالی، ادب آداب کی صورت
پتّھر تھا یہ دل، موم ہوا اُسؐ کی نظر سے
اس دشت نے دیکھی تھی کہاں آب کی صورت
شاہاؐ ترے قدموں کی مجھے دُھول عطا ہو
اوڑھوں میں اسے اطلس و کم خواب کی صورت