بھارتی ریاست آسام کا انوکھا اسکول جہاں بچوں سے پلاسٹک کی چیزیں بطور فیس لی جاتی ہیں
اس اقدام کی وجہ سے گاؤں اور اسکول کے آس پا س کی فضا جو دھویں اور بو سے بھری رہتی تھی، اب صاف ستھری ہوگئی ہے
بھارتی ریاست آسام میں ایک ایسا انوکھا اسکول واقع ہے جہاں پڑھنے والے بچوں سے فیس کی مد میں پیسے نہیں بلکہ پلاسٹک سے بنی بوتلیں اور دیگر ناکارہ اشیا لی جاتی ہیں۔
پموہی نامی گاؤں میں یہ اسکول 32 سالہ مزین مختار اور ان کی اہلیہ پرمیتا شرما نے قائم کیا ہے جسے ' اکشر ' (حرف ) کا نام دیا گیا ہے۔
اس جوڑے نے یہ اسکول پسماندہ علاقے کے بچوں میں علم کی روشنی پھیلانے کے لیے قائم کیا تھا مگر بعدازاں انہوں نے مقامی آبادی میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق شعور بیدار کرنے اور اس سلسلے میں عملی قدم اٹھانے کو بھی مقصد بنا لیا۔
دراصل گاؤں کے لوگ گھروں میں کھانا وغیرہ پکانے اور دیگر مقاصد کے لیے بڑی مقدار میں پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں جلاتے تھے جن سےاٹھنے والے دھویں کی وجہ سے ایک جانب تو فضا آلودہ ہورہی تھی تو دوسری جانب اس دھویں کے باعث کلاس رومز میں بیٹھے ہوئے بچے کھانسی اور سینے کے انفیکشن کا شکار ہورہے تھے۔
گاؤں کی بیشتر آبادی قریب واقع پتھر کی کانوں میں محنت مزدوری کرتی ہے۔ گاؤں کے بچے بھی اہل خانہ کے ساتھ مزدوری کے لیے جاتے تھے چنانچہ کم ہی والدین اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے اسکول بھیج رہے تھے۔
مزین مختار نے ایک برطانوی اخبار کے نمائندے کو بتایا کہ جب ہم نےو الدین سے کہا کہ وہ اپنے گھر میں استعمال ہونےو الی پلاسٹک کی بوتلیں بچوں کو دے کر بھیجنا شروع کریں تو ابتدا میں ہماری بات پر کسی نے کان نہیں دھرا، تاہم جب میری اہلیہ نے ان سے کہا کہ ہم فیس لینا شروع کررہے ہیں اور اسے ادا کرنے کے لیے ان کے پاس دو راستے ہیں، یا تو وہ پیسوں کی صورت میں ادا کردیں یا پھر پلاسٹک سے بنی ناکارہ اشیا کی صورت میں۔
مزین کا کہنا ہے کہ اس کے بعد تمام والدین نے بچوں کے ہمراہ پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں وغیرہ بھیجنا شروع کردیں، اس کے علاوہ والدین سے یہ تحریری وعدہ بھی لیا گیا کہ وہ پلاسٹک سے بنی اشیا نذر آتش نہیں کریں گے۔
بچوں میں فضائی آلودگی سے متعلق شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ اسکول میں انہیں ووکیشنل ٹریننگ بھی دی جاتی ہے جس کے دوران انہیں سولر پینل کی تنصیب کے ساتھ ساتھ کارپینٹر کا کام اور برقی آلات ٹھیک کرنا بھی سکھایا جاتا ہے۔
اسکول کے آغاز پر بچوں کی تعداد 20 تھی جو بتدریج بڑھتے بڑھتے 110 تک پہنچ چکی ہے۔ بچوں کی عمریں چار سے 15 سال کے درمیان ہیں جنہیں سات اساتذہ پڑھاتے ہیں۔
پرمیتا شرما کہتی ہیں کہ ہم ہر طالب علم کو اپنے اردگرد کے ماحول کی ذمے داری لینا سکھاتے ہیں،ہر طالب علم سے ہفتہ دار پلاسٹک سے بنی 25 چیزیں فیس کی مد میں لی جاتی ہیں۔
اس طرح ہمارے پاس ماہانہ 10 ہزار کے لگ بھگ پلاسٹک کی اشیا جمع ہوجاتی ہیں جن سے ماحول دوست اینٹیں بنائی جاتی ہیں جو بعدازاں تعمیرات میں استعمال ہوتی ہیں۔
پرمیتا شرما نے بتایا کہ ان کے اس اقدام کی وجہ سے گاؤں اور اسکول کے آس پا س کی فضا جو پلاسٹک کے جلنے سے اٹھنے والے دھویں اور بو سے بھری رہتی تھی، اب صاف ستھری ہوگئی ہے۔