بونوں کی دنیا

بچپن میں حروف سے آگاہی کے بعد جو کہانیاں پڑھیں ان سب میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ بڑے سے بڑا بادشاہ ہر مشکل وقت میں ۔۔۔

fatimaqazi7@gmail.com

حضرت امیر خسرو کا ایک دو سخنہ ہے۔ ''انار کیوں نہ چکھا، وزیر کیوں نہ رکھا؟'' جواب ہے، دانا نہ تھا۔ یعنی وزیر کے لیے ہمیشہ سے دانائی، شرط اولین رہی ہے۔ اسی لیے زمانہ قدیم کی داستانوں، قصوں اور کہانیوں میں وزیر کو ہمیشہ ''باتدبیر'' کہا گیا ہے، وزیروں اور مشیروں کے لیے صاحب ادراک، صاحب علم اور دانش مند ہونا لازمی رہا ہے۔ کوئی للو پنجو، ایرا غیرا نتھو خیرا صرف بادشاہ سلامت یا ملکہ محترمہ کے پاؤں چھو کر اس منصب پہ فائز نہیں ہو سکتا تھا۔ کیونکہ یہ ان زمانوں کی بات ہے جب صاحب علم اور صاحب کتاب کی قربت بادشاہوں کے لیے باعث اعزاز و افتخار ہوتی تھی۔

بچپن میں حروف سے آگاہی کے بعد جو کہانیاں پڑھیں ان سب میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ بڑے سے بڑا بادشاہ ہر مشکل وقت میں اور ہر اہم فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے وزیروں اور عالموں سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ اسی لیے سرخرو ٹھہرتے تھے۔ اس کی سب سے بڑی اور بالکل سامنے کی مثال جلال الدین اکبر کی ہے۔ جو اپنی جوہر شناس طبیعت کی بنا پر مغل اعظم کہلایا۔ اس موضوع پر ہم پہلے بھی کسی کالم میں بات کر چکے ہیں کہ اگر اکبر اپنے دربار میں جوہر قابل جمع نہ کرتا تو وہ اکبر اعظم نہ کہلاتا۔ اسے مغل اعظم اور شہنشاہ جلال الدین اکبر اس کے ان وزیروں نے بنایا۔ جنھیں وہ ''نو رتن'' کہتا تھا۔ یہ وہ صاحب علم و کمال تھے جو اکبر کے منہ پر غلط کو غلط کہتے ہوئے ہچکچاتے نہیں تھے۔ کیونکہ انھیں اپنے منصب علم اور مرتبے کا ادراک تھا۔ گویا دانائی ہی وہ ہیرا ہے جس کی بدولت انسان مقرب خاص کا درجہ پاتا ہے۔

لیکن یہ سب گئے وقتوں کی باتیں ہیں جب وزیر اور مشیر کے لیے فہم و فراست اور دانائی ضروری تھی۔ ہم نے تو وہ وقت نہیں دیکھا، صرف قصوں کہانیوں میں پڑھا ہے کہ ہم وہ بدنصیب نسل ہیں جس نے بارگاہ اقتدار میں اکڑی ہوئی گردنوں کے حامل بادشاہوں کے دائیں بائیں آگے پیچھے صرف مفاد پرست، خود غرض اور لالچی بونوں کو اپنے قد سے بڑے لباس فاخرہ، اپنے چھوٹے سر پہ نو من کی پگڑی اور اپنے چھوٹے چھوٹے پاؤں میں بڑے بڑے قدآور لوگوں کے جوتے پہنے مسکراتے، اور دوسروں کی غیبت کرتے دیکھا ہے۔

ہم نے تو بدقسمتی سے یہی سب کچھ دیکھا ہے کہ یہ دور قد آور لوگوں کا نہیں بلکہ بونوں کا ہے۔ بچپن میں جب ''گُلیور ٹریولز'' کی کہانی پڑھی تھی تو یقین نہیں آتا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ قد آور گلیور جب بونوں کی دنیا میں جا پہنچتا ہے تو تمام بونے اس کے قد و قامت سے خوف زدہ ہو کر اسے سوتا پا کر رسیوں سے جکڑ دیتے ہیں۔ لیکن بیدار ہونے پر گلیور ایک ہی جھٹکے میں تمام رسیاں توڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

لیکن آج کا منظر نامہ بہت مختلف ہے۔ ہر چند کہ ہم نے ہمیشہ ''بونوں'' کو قد آور شخصیات کے مقابلے میں اعزازات پاتے دیکھا ہے۔ پھر بھی ہم اس منفی رویے کے عادی نہیں ہوئے۔ البتہ دل برداشتہ ضرور ہیں۔ تقسیم کے بعد بونوں کی پوری نسل وزیر، سفیر اور مشیر بنی نظر آتی ہے۔ قابلیت، ذہانت، علمیت اور کتاب دوستی اور مطالعہ اب ایک جرم ہے۔ اب وزیر باتدبیر بننے کے لیے صرف ایک عدد جعلی ڈگری اور ''سائیں'' کے گھٹنے چھونے کی ضرورت ہے۔ آج ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو بویا تھا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ہمارے حلقہ احباب کے لوگ اور کلاس فیلوز کسی نئی ادبی کتاب یا رسالے کا انتظار کیا کرتے تھے۔

نقوش اور ''فنون'' سب سے پہلے میرے ہاتھوں میں آتے تھے۔ اگلے ہی دن کسی دوسرے کے ہاتھ میں ''ادبی دنیا'' یا ''افکار'' کا تازہ شمارہ بھی نظر آ جاتا تھا۔ پھر مضامین اور افسانوں پر خوب سیر حاصل بحث ہوتی تھی۔ لیکن یہ بحث ''میبل اور میں'' والی ہرگز نہیں ہوتی تھی، بلکہ واقعتاً ہم سب اپنے اپنے پسندیدہ موضوعات پر مضمون یا کتاب پڑھ کر بات کرتے تھے۔ لیکن ہمارا ہی ایک کلاس فیلو ان ''احمقانہ'' مصروفیات سے دور بھاگتا تھا اور اپنی ساری توانائی پروفیسرز کو تحفے تحائف دے کر خوش کرنے میں لگا رہتا تھا اور باوجود نااہل ہونے کے گولڈ میڈل کا حق دار ٹھیرا۔ بس اس دن پتہ چلا کہ یہ دور ''بونوں'' کا دور ہے۔

آج ہر شعبے میں ذہانت اور میرٹ کا قتل عام ہے۔ اب کوئی گلیور بونوں کی رسیاں تڑا کر آزاد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ہر جگہ ان کا راج ہے، ہر جگہ پذیرائی ہے۔ صدیوں سے سرداروں کے قدموں میں اپنی اولاد دان کرنے والوں کے ہاں جب کوئی ایسا باغی پیدا ہوتا ہے۔ جو غلامی کو اپنی تقدیر نہیں بلکہ قبائلی سسٹم کی زنگ آلود زنجیر سمجھ کر اسے توڑ دیتا ہے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہر کا رخ کرتا ہے تو سرداری نظام اسے اپنے سسٹم کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ کبھی اس ذہین نوجوان کو خطرہ بننے سے پہلے ہی ختم کر دیا جاتا ہے اور کبھی وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام اس کے خاندان کو شکاری کتوں کے آگے پھنکوا دیتا ہے۔ ایک مصرعہ ہے کہ:

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا؟


کتابوں کے قومی دن پر ایک وفاقی وزیر نے ببانگ دہل فرمایا کہ ''کتابوں کی چوری جائز ہے'' انھوں نے خود بھی وارداتوں کا اعتراف کیا۔ خلقت انگشت بدنداں انھیں دیکھ اور سن رہی تھی کہ کتابوں کے میلے کے حوالے سے ان کا بیان سن کر کس ردعمل کا اظہار کیا جائے۔ لیکن افسوس کہ وہاں موجود خلقت کا تعلق بدقسمتی سے سول سوسائٹی سے تھا۔ بصورت دیگر اگر کتابوں کے اسٹال لٹتے تو قصور وار اور سزا وار کون ٹھہرتا۔

تعجب اور افسوس تو سبھی کو تھا۔ ایک دوسرے سے بات کر کے سب ہی نے مذمت کی۔ لیکن افسوس کہ وہ لکھاری جو وزیر موصوف کی جماعت کے وفادار ہیں۔ انھوں نے ایک لفظ نہ کہا کہ سچ کہنا اور سچ لکھنا خسارے کا سودا ہے۔ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں کہیں کسی ادارے کی سربراہی ملتے ملتے نہ رہ جائے۔ خواہشوں اور نوازشات کے طلبگار صرف جھک کر سلام کرنا جانتے ہیں۔ کیونکہ وہ بونوں کی بادشاہت میں ہمہ وقت قصیدہ نگار کے درجے پہ فائز رہتے ہیں۔

کالم کی ابتدا میں امیر خسرو کے ایک دو سخنے سے بات شروع ہوئی تھی۔ آج کی نوجوان نسل تو شاید جانتی ہی نہ ہو کہ حضرت امیر خسرو کون تھے؟ اور یہ دو سخنہ آخر کیا بلا ہے۔ کیونکہ جب کتاب ہاتھ سے نکل جائے اور نئے ماڈل کا موبائل فون آپ کو معزز بنائے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ ان چکروں میں پڑے۔ ویسے بھی جعلی ڈگریاں ''ٹکے سیر'' بک رہی ہیں۔ پھر بھی میں جانتی ہوں کہ سو دو سو میں سے ایک ضرور ہو گا جو جاننا چاہے گا کہ ''دو سخنہ'' کسے کہتے ہیں؟

دو سخنہ دراصل پہیلی ہی کی ایک قسم ہے۔ جس میں دو یا دو سے زائد باتوں کا ایک ہی جواب ہوتا ہے۔ جن میں بہ اعتبار ظاہر کوئی نسبت نہ ہو، لیکن جواب ایک ہی ہو۔ جس کا املا اور تلفظ تو یکساں ہو، لیکن مفہوم و معنی الگ ہوں۔ مثلاً:

1۔گوشت کیوں نہ کھایا؟ ڈوم کیوں نہ گایا؟ (جواب: گلا نہ تھا۔)

2۔سموسہ کیوں نہ کھایا؟ جوتا کیوں نہ پہنا؟ (جواب:تلا نہ تھا۔)

3۔روٹی جلی کیوں؟ گھوڑا اڑا کیوں؟ پان سڑا کیوں؟ (جواب:پھیرا نہ تھا/پلٹا نہ تھا۔)

''کتابوں کی چوری جائز ہے''۔ یہ فتویٰ وزیر باتدبیر کے علاوہ بہت سے نامی گرامی ادیب اور پروفیسر حضرات بھی دے چکے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ یہ فتویٰ صادر نہ کرتے تو بہت سے نہایت اہم کتب خانے برباد نہ ہوتے اور بہت سے نامی گرامی لوگوں کے ذاتی کتب خانوں میں نادر کتب، نایاب مخطوطات، دیوان اور دیگر اہم تصانیف نہایت آسانی سے ان کے ذاتی ذخیرے میں جمع نہ ہوتیں۔ کس کتب خانے سے کون سی کون سی اہم اور قیمتی کتابوں کے نسخے کس کس کے گھر کس طرح پہنچے؟ یہ کوئی راز نہیں۔ چند واقف کاروں کے پاس تمام وارداتوں کی تفصیل موجود ہے۔ بس ''بونوں'' کے ڈر سے کسی مضمون میں ان کا نام نہیں آتا۔ ورنہ تو۔۔۔۔!! جی چاہتا ہے کہ کوئی حکمراں جماعت کا وزیر باتدبیر کبھی یہ بیان بھی تو دے کہ۔۔۔۔روٹی کی چوری جائز ہے۔ آخر پیٹ بھی تو بھرنا ہے۔
Load Next Story