ایک میلہ کرسی نشیناں کا

کوئی بھی اپنے دعوے سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھا چنانچہ چاروں جنگل سے نکل کر ایک بستی میں پہنچے ۔۔۔


Saad Ulllah Jaan Baraq May 18, 2014
[email protected]

یہ تو ساری دنیا کو لگ پتہ گیا ہے کہ مملکت ناپرسان میں ان دنوں ایک عظیم الشان میلہ برپا ہے یہ ایک بہت ہی پرانا روایتی میلہ ہے جس کے نام تو ایک ہزار ایک اور بھی ہیں لیکن اس کا اصلی تے وڈا نام ''میلہ کرسی نشیناں'' ہے اس میں ہر طرح کے مقابلے ہوتے ہیں کرتب باز کرتب دکھاتے ہیں اور ہنر باز ہنر کا مظاہرہ کرتے ہیں تب کہیں جا کر کسی ایک کو ''ایوارڈ'' ملتا ہے جو ایک کرسی کی شکل میں ہوتا ہے۔

کرسی ویسے تو لکڑی کی ہوتی ہے لیکن سونے چاندی اور جواہرات کی کرسیاں بھی اس کے سامنے سر جھکائے رہتی ہیں، یوں تو یہ میلہ کرسی نشیناں مملکت کے کونے کونے میں برپا ہوتا ہے اور ہر سائز و حجم کی کرسیاں بطور ایوارڈ تقسیم ہوتی ہیں لیکن سب سے بڑا میلہ مملکت ناپرسان کے دارالحکومت انعام آباد میں منعقد ہوتا ہے یہاں ملنے والی کرسی تمام کرسیوں کی باوا آدم اور اماں حوا ہوتی ہیں اور جسے مل جاتی ہے اسے گویا سب کچھ مل جاتا ہے:

جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا

سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں

اس میلے کی اور اس کرسی کی اپنی تاریخ ہے جس کے بارے میں ایک قصہ بیاں کیا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کہانی کا ایک نیا اور جدید ورژن بھی ہے چنانچہ آج ہم اس کہانی کے دونوں حصوں کو ملا کر آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں تا کہ آپ کو اچھی طرح پتہ لگ جائے کہ یہ میلہ کرسی نشیناں کیا ہے یہ کرسی کون ہے اور اس کے دعوے دار کتنے ہیں اور یہ نصیب کسے ہوتی ہے، اس کہانی کی ابتداء ایک جنگل سے ہوتی ہے جہاں چار مسافروں کو رات پڑ گئی ان میں ایک ترکھان تھا دوسرا درزی تیسرا سنار اور چوتھا جادوگر تھا ان چاروں نے طے کیا کہ چاروں میں سے ایک جاگ کر ایک پہر کے لیے پہرہ دے گا پہلی باری ترکھان یعنی بڑھئی کی لگی۔

باقی تینوں سو گئے تو بڑھئی نے نیند بھگانے اور وقت گزارنے کے لیے لکڑی کے ایک کندے پر کام شروع کر دیا اور اپنی باری ختم ہونے تک لکڑی کی ایک لڑکی بنا ڈالی، درزی نے اپنی باری پر لکڑی کی لڑکی کو دیکھا تو اس کے لیے لباس تیار کرنے لگا ادھر اس نے لکڑی کی لڑکی کو ملبوس کیا اور ادھر اس کی باری ختم ہوئی تیسری باری سنار کی تھی وہ کیسے آرام سے بیٹھ سکتا تھا چنانچہ اس نے خوب صورت گہنے تیار کر کے لکڑی کی لڑکی کو پہنا دیئے، جادوگر نے اتنی خوب صورت لکڑی کی لڑکی دیکھی تو ایک مخصوص عمل کر کے اس میں جان ڈال دی، اتنے میں سارے جاگ گئے تھے اپنے سامنے اتنی خوب صورت لڑکی دیکھ کر سب کی نیت خراب ہو گئی اور ہر ایک اس پر اپنا حق جتلانے لگا۔

کوئی بھی اپنے دعوے سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھا چنانچہ چاروں جنگل سے نکل کر ایک بستی میں پہنچے اور ایک تھانے میں اپنا مقدمہ لے گئے، تھانے کا ایس ایچ او جو اس زمانے میں کوتوال کہلاتا تھا موجود تو اس زمانے میں تھا لیکن اصل میں جدید دور کے محکمہ پولیس سے ڈیپوٹیشن پر وہاں تبدیل ہو کر آیا تھا، اس کے کانوں کے درمیان ایک بڑا سا سوراخ تھا چنانچہ ان چاروں کی کہانی ایک کان میں انٹر ہوئی اور دوسرے سے نکل گئی البتہ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں چونکہ سوراخ نہیں تھا اس لیے وہ لڑکی ان میں جا کر بس گئی، جس سے اس کی آنکھیں پہلے پھیل گئیں پھر لال ہوئیں اور پھر آگ برسانے لگیں۔

ان چاروں کو پولیس ڈکشنری کی تمام گالیاں چپکاتے ہوئے بولا کہ یہ لڑکی کسی بڑے گھر کی ہے جسے تم اغوا کر کے لائے ہو اب یہ لڑکی سرکاری تحویل میں رہے گی اور اگر تم ایک منٹ کے اندر فرار نہیں ہوئے تو میرا یہ ڈنڈا خود ہی تم سے اعتراف جرم کروا لے گا، وہ چاروں شاید بھاگ جاتے لیکن اس وقت تھانے میں کچھ اخبار والے گھس آئے، چنانچہ تھانیدار کو مجبوراً اس کیس کا اندراج کرنا پڑا... یہ کیس جب قاضی شہر کی خدمت میں پیش ہوا تو قاضی صاحب لکڑی کی لڑکی کو دیکھ کر مراقبے میں چلے گئے اس سے پہلے کہ قاضی صاحب کی فوتیدگی مراقبے کی حالت میں ہی ہو جاتی پیش کار نے اسے جگا دیا لڑکی کو دیکھ کر قاضی صاحب نے پہچان لیا کہ یہ تو اس کے گھر کی نوکرانی ہے جو کئی دن سے لاپتہ ہے۔

شکر ہے کہ آج اغوا کاروں سمیت مل گئی، قاضی صاحب لکڑی کی لڑکی کو اپنے زنان خانے اور اغوا کاروں کو زندان خانے پہنچانے کا حکم دینے ہی والے تھے کہ ٹی وی چینل کے کئی نمائندے نئی اسٹوری کی تلاش میں گھس آئے اور لکڑی کی لڑکی کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے لگے، کیس قاضی صاحب کے ہاتھ سے نکل چکا تھا چنانچہ فیصلہ کرنے کے لیے بادشاہ کی خدمت میں پیشی ہوئی بادشاہ نے لکڑی کی لڑکی کو ہو بہو اپنی ایک کنیز پایا اور حکم صادر کیا کہ لکڑی کی لڑکی کو شاہی حرم میں جمع کر کے رسید لی جائے اور ان چھ ملزموں کے سر اسی وقت فاونٹین پن کیے جائیں، یہی وہ وقت تھا جب لکڑی کی لڑکی جو اب تک بالکل خاموش تھی اچانک کھل کھلا کر ہنسنے لگی اچھی طرح ہنسنے کے بعد جب اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تو ایک شعر گانے لگی:

اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے

جس نے ڈالی بری نظر ڈالی

اور اس کے ساتھ ہی وہ لڑکی سے لکڑی کا کندہ بن گئی، ملزموں کو تو دھکے دے کر بھگایا گیا لیکن لکڑی کا کندہ وہیں پڑا رہ گیا آخر ایک دن بادشاہ کو اس لکڑی کا استعمال سوجھ گیا اس نے ایک ماہر فرنیچر ساز کو بلوا کر اس لکڑی کی لڑکی یا لکڑی کے کندے سے ایک کرسی تیار کروائی اور پھر اس کرسی پر براجمان ہو گیا لیکن ابھی اس نے کرسی نشین ہو کر اس پر بری نظر بھی نہیں ڈالی تھی کہ اس کا ایک بھائی پیچھے سے آیا... بادشاہ کا سر بال پن کیا اور اس کے دھڑ کو گرا کر کرسی پر بیٹھ گیا، پورے دربار نے نہیں سنا تھا لیکن چند درباریوں کا بیان ہے کہ کرسی ایک بار زور سے ہنس پڑی تھی اور پھر بھوں بھوں کر کے رونے لگی تھی:

مجھے تو گردش حالات پہ رونا آیا

رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا

وہ دن آج کا دن اس کرسی کا جو اصل میں لکڑی کی لڑکی ہے یہی سلسلہ ہے کتنے آئے اور اس پر بیٹھے اور پھر اٹھ گئے یا اٹھا دیئے گئے آخر کار کافی عرصہ گزرنے پر لوگوں نے سوچا کہ اس کم بخت لکڑی کی لڑکی یا کرسی کے لیے خون خرابہ بہت ہو گیا اب کوئی ایسی صورت نکالنی چاہیے کہ کرسی نشینوں کا شوق بھی پورا ہو اور خون خرابہ بھی نہ ہو، ایک مصیبت اس کرسی کے ساتھ یہ تھی کہ چونکہ یہ بنیادی طور پر لکڑی کی لڑکی ہے اس لیے بیک وقت صرف ایک ہی آدمی اس پر بیٹھ سکتا ہے جب کہ یہاں بیٹھنے والے بے شمار ہیں، یعنی:

کرسی او کرسی ایسی تو کرسی

ہر کوئی چاہے تم پر بیٹھنا اکیلا

چنانچہ اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ کچھ عرصے کے بعد ایک میلہ منعقد ہوتا ہے... میلہ کرسی نشیناں... اس میلے میں دنیا کے بڑے بڑے ہنر باز، کرتب باز اور نوسر باز اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں جوجیت جاتاہے وہ کرسی پر بیٹھ کر مقدر کا سکندر بن جاتا ہے، لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہو جاتی، کیونکہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے اور یہ میلہ کرسی نشیناں جنگ اور محبت دونوں کا مجموعہ ہوتا ہے کرسی کی محبت اور حریف سے جنگ کا مجموعہ اس لیے اس میں وہ کچھ بھی جائز ہو جاتا ہے جو جنگ اور محبت میں بھی جائز نہیں ہوتا، کیوں کہ اس میلے اورمقابلے میں حصہ لینے والوں کے درمیان ایک اور اصول بھی کار فرما ہے اور وہ اصول پڑوسی ملک کے کنگ خان کے ایک قول زرین پر مبنی ہے کہ ''جو ہار کر بھی جیت جاتا ہے وہی بازی گر کہلاتا ہے'' آپ تو جانتے ہیں کہ بازی گر فارسی میں کھلاڑی کو کہتے ہیں اور کھلاڑی کا عقیدہ ہوتا ہے کہ جو ہار کر بھی کبھی نہ ہارے اور جو جیت کر بھی جیتنے والے کو جیتنے نہ دے وہی کھلاڑی ہوتا ہے۔

چنانچہ میلہ کرسی نشیناں میں نہ کھیل امپارٹنٹ ہے نہ اصول نہ جنگ نہ محبت... صرف اس بات کی اہمیت ہے کہ ہارنے پر خود کو ہارا ہوا نہ سمجھو اور جیتنے پر جیتنے والوں کو جیتنے مت دو... کیوں کہ اہمیت کھیل کی نہیں شور کی ہے اور جو زیادہ شور مچائے گا وہی سکندر کہلائے گا، اسی لیے تو ایک بزرگہ عارفہ صوفیہ نے کہا ہے کہ

پتنگ باز کرسی سے، پتنگ باز بلما سے

آنکھوں آنکھوں میں الجھی ڈور

کہ مچ گیا شور... کہ بو کاٹا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں