غیرقانونی مقیم افغانوں کی واپسی اہم تقاضا
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں افغان دہشت گرد ملوث نکلے
افغانستان کی طالبان حکومت نے وہاں کے زلزلہ متاثرین کے لیے پاکستان کی امداد لینے سے انکار کر دیا ہے۔
زلزلے کے فوری بعد نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے افغانستان کے متاثرہ علاقے میں ضروری سازوسامان کے علاوہ امدادی ٹیمیں بھیجنے کا اعلان کیا تھا، تاہم دونوں ممالک کی طرف سے امداد میں تاخیر کی کھل کر کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
بہرحال یہ اچھی بات ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہ رہی ہے۔ عالمی جریدے بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی امداد سے حاصل اربوں ڈالر اور ایشیائی ممالک کے ساتھ بڑھتی تجارت نے اس سہ ماہی میں افغان کرنسی کو عالمی درجہ بندی میں سرفہرست کر دیا ہے اور یہ غربت زدہ ملک کے لیے ایک غیر معمولی مرحلہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دو برس قبل کابل پر دوبارہ کنٹرول کے بعد طالبان نے کرنسی تجارت پر سخت اقدامات کیے۔ طالبان نے افغانوں کو امریکی ڈالر اور پاکستانی روپیہ استعمال کرنے سے روک دیا اور افغان کرنسی افغانی کو فروغ دینے کے لیے آن لائن ٹریڈنگ پر پابندی لگا دی جس سے کرنسی مضبوط ہوئی ہے۔ ایک افغانی کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر 3.68 ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان نے کثیر تعداد میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ملک سے نکالنے کا عزم ظاہر کیا ہے، جب کہ کابل میں طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان نے غیر قانونی طور سے پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کو نکالنے کے بارے میں حکومت پاکستان کے اعلان کو ''ناقابل قبول'' قرار دیا ہے۔
ایک بیان میں انھوں نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ اس کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے بھی اس فیصلہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس طرح پناہ گزینوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اگرچہ وزارت خارجہ نے ابھی طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے احتجاجی بیان پر تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن افغانستان کو سرحد پار سے دہشت گردی کنٹرول کرنے کے لیے متعدد بار وارننگ دی جاچکی ہے۔
تاہم کابل حکومت نے کسی عملی تعاون پر توجہ دینے اور تحریک طالبان پاکستان کے عناصر کی گرفت کرنے کے لیے کوئی تعاون نہیں کیا، بلکہ یہ رٹا رٹایا بیان ہی جاری کیا جاتا رہا ہے کہ افغان حکومت دوحہ میں امریکا کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق اپنی سر زمین کوکسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی کے علاوہ دیگر عالمی دہشت گرد گروہوں کی موجودگی سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان حکومت یا تو ان عناصر کو پوری طرح کنٹرول کرنے کی اہل نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے انھیں کھلی چھٹی دے رہی ہے۔
امریکی حکام اس سے پہلے یہ اعتراف کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت افغانستان سے دہشت گردی کا سامنا ہے لیکن ایسے اعلانات کے علاوہ امریکا یا دیگر مغربی ممالک کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو مدد بہم پہنچانے کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا۔ اس سے یہی اندازہ کیا جارہا ہے کہ امریکا نے افغانستان سے فوجیں نکالنے کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔حکومت پاکستان اگر اس فیصلہ پر عملدرآمد کرنے کا پختہ ارادہ ظاہر کرتی ہے تو اس اقدام سے اس ریجن کے علاوہ عالمی طور پر اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان شاید افغان شہریوں کو نکالنے سے زیادہ کابل کے علاوہ عالمی طاقتوں پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ دنیا میں امن کے لیے پاکستان اب بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر امریکا اور اس کے مغربی حلیف بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھاتے ہوئے پاکستان کو مسلسل نظر انداز کریں گے اور اسے مسائل حل کرنے کے لیے مناسب سفارتی، سیاسی اور معاشی امداد فراہم نہیں کریں گے تو وہ بھی ایسے ممالک سے ایک ممکنہ فاصلے پر رہے گا۔
پاکستان چاہے گا کہ امریکا نہ صرف پاکستان پر دہشت گرد حملوں کی مذمت کرے بلکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستانی معیشت کے استحکام میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اس حوالے سے اسلام آباد کی ایک امید یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان عرب ممالک سے جس کثیر سرمایہ کاری کی توقع کر رہا ہے، اس میں سہولت کاری کی جائے اور سی پیک کے سوال پر پاکستان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں۔
پاکستان کا افغان مہاجرین کے ساتھ رویہ دنیا بھر کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ میزبانی کے ان چالیس سالوں کے دوران پاکستان نے مہاجرین اور تارکین وطن کی میزبانی کے لیے جو رویہ اختیار کیا وہ ایک مثال ہے۔ افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان میں 20 لاکھ بنگالی، بہاری، روہنگیا، ایرانی، عرب، افریقی اورکئی دوسرے ملکوں کے غیر ملکی پناہ گزین ہیں اور پاکستان ان کی میزبانی کررہا ہے۔ پاکستان نے اپنے محدود وسائل کے باوجود تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے مثالی کیمپ مینجمنٹ کی، بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم کیں، انھیں کھانا، رہائش اور دیگر روزمرہ ضروریات مہیا کرتے ہوئے مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار قائم کیے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اس ذمے داری کا بوجھ بانٹنے کے لیے عالمی اسٹیک ہولڈرز بھی آگے بڑھیں۔ بموں ،گولیوں اور ظلم سے فرار ہونے والے لوگوں کی حفاظت کرنا جہاں ہماری ذمے داری ہے وہاں اخلاقاً پوری عالمی برادری کی بھی ذمے داری ہے۔
چیئرمین نادرا نے کہا ہے کہ جعلی فیملی ٹری میں افغانیوں کو شامل کیا جاتا رہا۔ سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین نے بتایا کہ افغانیوں کو جعلی شناختی کارڈ کے اجرا کے معاملے پر 84 اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں۔ جعلی دستاویزات، بغیر فنگر پرنٹ یا تصویر کے ریکارڈ کو اہلکار ٹمپر کرتے رہے۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں افغان دہشت گرد ملوث نکلے۔ افغان دہشت گرد پاکستان میں عرصے سے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان دہشت گردوں کے ملوث ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد نیٹ ورک کو افغان دہشت گردوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں پاکستان میں 24 خودکش حملہ آوروں میں سے 14 افغان تھے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان انسانی اسمگلنگ کا نہ صرف ذریعہ ہے بلکہ ایک اہم گزر گاہ بھی ہے۔
افغانستان اور کئی دیگر ممالک سے یورپ اور بیرونی دنیا کے لیے غیر قانونی سفر کرنے والے بہت سے لوگ پاکستان سے گزر کر جاتے ہیں۔ اور ان میں سے ایک بڑی تعداد پاکستان کی غیر قانونی جعلی دستاویزات بنوا کر مشرق وسطیٰ اور یورپ جاتی ہے۔ دراصل جعلی شناختی دستاویزات کی تیاری کا نظام ملک میں ایک مربوط طریقے سے کام کرتا ہے۔ یوں تو تقریباً تمام بڑے شہروں میں کوئی نہ کوئی ایجنٹ اس طرح کی سرگرمی میں ملوث پایا جاتا ہے لیکن اس کا ایک بڑا مرکز خیبر پختونخوا ہے۔
پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بیرون ملک سفر میں مشکلات کی وجہ سے پاکستان کا جعلی پاسپورٹ بنوا کر جاتے ہیں۔ یہ پاسپورٹ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں جس کے ذریعے مہاجرین بالخصوص نوجوان خلیجی ممالک، یورپ اور دیگر ممالک کا سفر کرتے ہیں۔
پاکستانی ایجنٹ 8 سے 10 لاکھ روپے کے عوض افغان مہاجرین کو جعلی پاسپورٹ بنا کر دیتے ہیں۔ قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے جعل سازوں نے اب پاسپورٹ پر ٹیمپرنگ بھی شروع کر دی ہے یعنی پاسپورٹ پر معلومات ٹھیک درج ہوتی ہیں صرف تصویر بدل کر اس پر جعلی مہر لگائی جاتی ہے۔ پاکستان دنیا کے ان تیس ممالک میں شامل ہے۔
جہاں پیدائش کی بنیاد پر بچے کو غیر مشروط شہریت دے دی جاتی ہے، اس بنیاد پر افغان مہاجرین کے بچوں کی بڑی تعداد پاکستانی شہریت حاصل کرسکتی تھی لیکن پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے اس اقدام کو درست قرار نہیں دیا، ورنہ اب تک لاکھوں افغان پاکستان کے شہری بن جاتے۔ ان تمام تر پابندیوں کے باوجود بھی ہمارے حکومتی نظام میں خامیوں کی وجہ سے بہت سے افغان شہریوں نے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرلیا ہے۔
دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد، جنھوں نے غیر قانونی طور پر پاکستانی پاسپورٹ یا نادرا کارڈ حاصل کیا ہے، ان کی یہ دستاویزات منسوخ کردی جائیں۔
یہ امر کس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ ایک معاہدے کے تحت جو افغان حکومت، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے افغان مہاجرین اور پاکستان کے درمیان طے پایا کہ31 دسمبر 2015 تک تمام افغان مہاجرین واپس اپنے وطن چلے جائیں گے، لیکن مزید آٹھ سال گزرنے کے باوجود بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
حکومت پاکستان نے بارہا اس حوالے سے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی کمیونٹی کو یاد دہانی کرائی لیکن افغانستان کی اندرونی بدامنی کا بہانہ بناکر افغان حکومت اور عالمی ادارے پاکستان سے درخواست کرتے رہے ہیں کہ وہ ان مہاجرین کی واپسی پر ابھی اصرار نہ کرے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے اور یو این ایچ سی آر UNHCR آگے بڑھیں اور وہ امریکا، نیٹو اور یورپی یونین پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ان مہاجرین کو وطن واپس پہنچانے کے لیے اپنی اخلاقی اور قانونی ذمے داری پوری کریں کیونکہ افغانستان میں انھی کی کارروائی کے نتیجے میں یہ مظلوم افراد بے گھر ہوئے اورگزشتہ 40 سال سے پاکستانی معیشت اور معاشرت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
زلزلے کے فوری بعد نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے افغانستان کے متاثرہ علاقے میں ضروری سازوسامان کے علاوہ امدادی ٹیمیں بھیجنے کا اعلان کیا تھا، تاہم دونوں ممالک کی طرف سے امداد میں تاخیر کی کھل کر کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
بہرحال یہ اچھی بات ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہ رہی ہے۔ عالمی جریدے بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق انسانی امداد سے حاصل اربوں ڈالر اور ایشیائی ممالک کے ساتھ بڑھتی تجارت نے اس سہ ماہی میں افغان کرنسی کو عالمی درجہ بندی میں سرفہرست کر دیا ہے اور یہ غربت زدہ ملک کے لیے ایک غیر معمولی مرحلہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دو برس قبل کابل پر دوبارہ کنٹرول کے بعد طالبان نے کرنسی تجارت پر سخت اقدامات کیے۔ طالبان نے افغانوں کو امریکی ڈالر اور پاکستانی روپیہ استعمال کرنے سے روک دیا اور افغان کرنسی افغانی کو فروغ دینے کے لیے آن لائن ٹریڈنگ پر پابندی لگا دی جس سے کرنسی مضبوط ہوئی ہے۔ ایک افغانی کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر 3.68 ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان نے کثیر تعداد میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ملک سے نکالنے کا عزم ظاہر کیا ہے، جب کہ کابل میں طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان نے غیر قانونی طور سے پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کو نکالنے کے بارے میں حکومت پاکستان کے اعلان کو ''ناقابل قبول'' قرار دیا ہے۔
ایک بیان میں انھوں نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ اس کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے بھی اس فیصلہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس طرح پناہ گزینوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اگرچہ وزارت خارجہ نے ابھی طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے احتجاجی بیان پر تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن افغانستان کو سرحد پار سے دہشت گردی کنٹرول کرنے کے لیے متعدد بار وارننگ دی جاچکی ہے۔
تاہم کابل حکومت نے کسی عملی تعاون پر توجہ دینے اور تحریک طالبان پاکستان کے عناصر کی گرفت کرنے کے لیے کوئی تعاون نہیں کیا، بلکہ یہ رٹا رٹایا بیان ہی جاری کیا جاتا رہا ہے کہ افغان حکومت دوحہ میں امریکا کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق اپنی سر زمین کوکسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی کے علاوہ دیگر عالمی دہشت گرد گروہوں کی موجودگی سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان حکومت یا تو ان عناصر کو پوری طرح کنٹرول کرنے کی اہل نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے انھیں کھلی چھٹی دے رہی ہے۔
امریکی حکام اس سے پہلے یہ اعتراف کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت افغانستان سے دہشت گردی کا سامنا ہے لیکن ایسے اعلانات کے علاوہ امریکا یا دیگر مغربی ممالک کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو مدد بہم پہنچانے کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا۔ اس سے یہی اندازہ کیا جارہا ہے کہ امریکا نے افغانستان سے فوجیں نکالنے کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔حکومت پاکستان اگر اس فیصلہ پر عملدرآمد کرنے کا پختہ ارادہ ظاہر کرتی ہے تو اس اقدام سے اس ریجن کے علاوہ عالمی طور پر اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان شاید افغان شہریوں کو نکالنے سے زیادہ کابل کے علاوہ عالمی طاقتوں پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ دنیا میں امن کے لیے پاکستان اب بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر امریکا اور اس کے مغربی حلیف بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھاتے ہوئے پاکستان کو مسلسل نظر انداز کریں گے اور اسے مسائل حل کرنے کے لیے مناسب سفارتی، سیاسی اور معاشی امداد فراہم نہیں کریں گے تو وہ بھی ایسے ممالک سے ایک ممکنہ فاصلے پر رہے گا۔
پاکستان چاہے گا کہ امریکا نہ صرف پاکستان پر دہشت گرد حملوں کی مذمت کرے بلکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستانی معیشت کے استحکام میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اس حوالے سے اسلام آباد کی ایک امید یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان عرب ممالک سے جس کثیر سرمایہ کاری کی توقع کر رہا ہے، اس میں سہولت کاری کی جائے اور سی پیک کے سوال پر پاکستان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں۔
پاکستان کا افغان مہاجرین کے ساتھ رویہ دنیا بھر کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ میزبانی کے ان چالیس سالوں کے دوران پاکستان نے مہاجرین اور تارکین وطن کی میزبانی کے لیے جو رویہ اختیار کیا وہ ایک مثال ہے۔ افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان میں 20 لاکھ بنگالی، بہاری، روہنگیا، ایرانی، عرب، افریقی اورکئی دوسرے ملکوں کے غیر ملکی پناہ گزین ہیں اور پاکستان ان کی میزبانی کررہا ہے۔ پاکستان نے اپنے محدود وسائل کے باوجود تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے مثالی کیمپ مینجمنٹ کی، بہتر سے بہتر سہولتیں فراہم کیں، انھیں کھانا، رہائش اور دیگر روزمرہ ضروریات مہیا کرتے ہوئے مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار قائم کیے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اس ذمے داری کا بوجھ بانٹنے کے لیے عالمی اسٹیک ہولڈرز بھی آگے بڑھیں۔ بموں ،گولیوں اور ظلم سے فرار ہونے والے لوگوں کی حفاظت کرنا جہاں ہماری ذمے داری ہے وہاں اخلاقاً پوری عالمی برادری کی بھی ذمے داری ہے۔
چیئرمین نادرا نے کہا ہے کہ جعلی فیملی ٹری میں افغانیوں کو شامل کیا جاتا رہا۔ سینیٹ کی داخلہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین نے بتایا کہ افغانیوں کو جعلی شناختی کارڈ کے اجرا کے معاملے پر 84 اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں۔ جعلی دستاویزات، بغیر فنگر پرنٹ یا تصویر کے ریکارڈ کو اہلکار ٹمپر کرتے رہے۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں افغان دہشت گرد ملوث نکلے۔ افغان دہشت گرد پاکستان میں عرصے سے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان دہشت گردوں کے ملوث ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد نیٹ ورک کو افغان دہشت گردوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں پاکستان میں 24 خودکش حملہ آوروں میں سے 14 افغان تھے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان انسانی اسمگلنگ کا نہ صرف ذریعہ ہے بلکہ ایک اہم گزر گاہ بھی ہے۔
افغانستان اور کئی دیگر ممالک سے یورپ اور بیرونی دنیا کے لیے غیر قانونی سفر کرنے والے بہت سے لوگ پاکستان سے گزر کر جاتے ہیں۔ اور ان میں سے ایک بڑی تعداد پاکستان کی غیر قانونی جعلی دستاویزات بنوا کر مشرق وسطیٰ اور یورپ جاتی ہے۔ دراصل جعلی شناختی دستاویزات کی تیاری کا نظام ملک میں ایک مربوط طریقے سے کام کرتا ہے۔ یوں تو تقریباً تمام بڑے شہروں میں کوئی نہ کوئی ایجنٹ اس طرح کی سرگرمی میں ملوث پایا جاتا ہے لیکن اس کا ایک بڑا مرکز خیبر پختونخوا ہے۔
پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بیرون ملک سفر میں مشکلات کی وجہ سے پاکستان کا جعلی پاسپورٹ بنوا کر جاتے ہیں۔ یہ پاسپورٹ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں جس کے ذریعے مہاجرین بالخصوص نوجوان خلیجی ممالک، یورپ اور دیگر ممالک کا سفر کرتے ہیں۔
پاکستانی ایجنٹ 8 سے 10 لاکھ روپے کے عوض افغان مہاجرین کو جعلی پاسپورٹ بنا کر دیتے ہیں۔ قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے جعل سازوں نے اب پاسپورٹ پر ٹیمپرنگ بھی شروع کر دی ہے یعنی پاسپورٹ پر معلومات ٹھیک درج ہوتی ہیں صرف تصویر بدل کر اس پر جعلی مہر لگائی جاتی ہے۔ پاکستان دنیا کے ان تیس ممالک میں شامل ہے۔
جہاں پیدائش کی بنیاد پر بچے کو غیر مشروط شہریت دے دی جاتی ہے، اس بنیاد پر افغان مہاجرین کے بچوں کی بڑی تعداد پاکستانی شہریت حاصل کرسکتی تھی لیکن پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے اس اقدام کو درست قرار نہیں دیا، ورنہ اب تک لاکھوں افغان پاکستان کے شہری بن جاتے۔ ان تمام تر پابندیوں کے باوجود بھی ہمارے حکومتی نظام میں خامیوں کی وجہ سے بہت سے افغان شہریوں نے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرلیا ہے۔
دنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد، جنھوں نے غیر قانونی طور پر پاکستانی پاسپورٹ یا نادرا کارڈ حاصل کیا ہے، ان کی یہ دستاویزات منسوخ کردی جائیں۔
یہ امر کس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ ایک معاہدے کے تحت جو افغان حکومت، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے افغان مہاجرین اور پاکستان کے درمیان طے پایا کہ31 دسمبر 2015 تک تمام افغان مہاجرین واپس اپنے وطن چلے جائیں گے، لیکن مزید آٹھ سال گزرنے کے باوجود بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
حکومت پاکستان نے بارہا اس حوالے سے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی کمیونٹی کو یاد دہانی کرائی لیکن افغانستان کی اندرونی بدامنی کا بہانہ بناکر افغان حکومت اور عالمی ادارے پاکستان سے درخواست کرتے رہے ہیں کہ وہ ان مہاجرین کی واپسی پر ابھی اصرار نہ کرے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے اور یو این ایچ سی آر UNHCR آگے بڑھیں اور وہ امریکا، نیٹو اور یورپی یونین پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ان مہاجرین کو وطن واپس پہنچانے کے لیے اپنی اخلاقی اور قانونی ذمے داری پوری کریں کیونکہ افغانستان میں انھی کی کارروائی کے نتیجے میں یہ مظلوم افراد بے گھر ہوئے اورگزشتہ 40 سال سے پاکستانی معیشت اور معاشرت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔