نئے موسم کی خوشبو اور۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ کائنات میں حضرت یوشع کے علاوہ کسی کے لیے سورج نہیں تھما ۔۔۔
ان دنوں دو کتابیں بعنوان ''نئے موسم کی خوشبو'' اور ''ہم کہ جھٹلائے گئے'' میرے مطالعے میں رہیں۔ اول الذکر کے تخلیق کار عمربرناوی ہیں جب کہ دوئم کے نجیب عمر ہیں۔ یہ دونوں کتابیں بے حد اہمیت کی حامل ہیں ان میں دینی دنیاوی معلومات کا خزانہ موجود ہے۔ ہم پہلے ''نئے موسم کی خوشبو کے حوالے سے بات کریں گے مذکورہ شعری مجموعہ 737 صفحات پر مشتمل ہے اگر کتاب میں وزن تو شاعری بھی اپنے اندر انفرادیت اور وزن رکھتی ہے، ہر شعر قابل تعریف اور داد کا مستحق ہے۔
عمر برناوی نے بے حد تحقیق، لگن اور جستجو سے اسے تخلیق کیا ہے اور شاعری کے پیراہن میں قرآنی و دینی واقعات اور تاریخ مغلیہ کے اور دوسرے بہت سے ان موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے، جن کا پڑھنا، سمجھنا اور غور و فکر کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ نئے موسم کی خوشبو عقیدت و محبت سے پڑھنے کی متقاضی ہے، شاعر کی شاعری میں بہار کا رنگ بھی نمایاں ہے اور موسم خزاں کی داستان بھی درج ہے۔ بہرحال ''نئے موسم کی خوشبو'' عمر برناوی کی ایک قابل تحسین کاوش ہے۔مختلف موضوعات پر انھوں نے معلومات کے روشن در وا کیے ہیں واقعہ معراج کو بے حد خوبصورتی و نفاست کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
دسواں نبوت کا تھا سال یہ...بیاں جس کا کرتا ہوں احوال یہ
نبیؐ جا کے لیٹے تھے اک رات حطیم...سو یہ رات تاریخ میں ہے عظیم
تو جبرئیل و میکائیل آئے وہاں...کہ کعبے میں لیٹے تھے حضرتؐ جہاں
کہا آ کے چلیے ہے واں انتظار...بلاتا ہے تم کو پروردگار
ہے براق حاضر' ہوں اس پر سوار...چلے سوئے اقصیٰ یہ اب تینوں یار
گئی لے کے بندے کو جو راتوں رات...کعبے سے اقصیٰ' وہ ہے پاک ذات
نبی نے کیا قافلوں کو سلام...گزرتے ہوئے تھا سفر تیز گام
ہجرت مدینہ، پیغمبروں کے واقعات، غزوہ احد و غزوہ بدر، برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کا ذکر اور معراج کا سفر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمانوں کی سیر کی اور اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کے مناظر بھی دکھائے اور پانچ نمازوں کا تحفہ بھی شب معراج کو ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا جہاں جہاں شاعر محترم نے استعاروں کی زبان میں بات کی ہے وہاں انھوں نے اس کی وضاحت بھی حواشی کے ذریعے کردی ہے۔
انگریزوں نے پورے سو سال ہندوستان پر نہ کہ حکومت کی بلکہ لوٹ مار، ظلم و تشدد، آبرو ریزی جیسے مظالم اور سفاکی کی داستان رقم کردی لیکن افسوس کہ تاریخ سے کسی نے سبق نہیں سیکھا اور آج بھی غلام در غلام انگریزوں کی غلامی میں لگے ہوئے اور ان کے قصیدے پڑھ رہے ہیں اس کتاب میں منظوم تاریخ اسلام درج ہے۔ انبیا کرام کے واقعات، غزوات اور تاریخ پاک و ہند سے مزین ہے۔ یہ ایک قابل تحسین کاوش ہے۔
نئے موسم کی خوشبو کا نیا انداز ہے اب کے...گری تھی برق خرمن پر زمانے لد گئے کب کے
''کہ ہم جھٹلائے گئے'' نجیب عمر کی بہترین کوشش ہے اور دین سے محبت و عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے مصنف نے قرآنی واقعات کو آسان الفاظ میں لکھ کر اپنے تمام قارئین کو بہتر طریقے سے سمجھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
فی زمانہ مسلمان، نام کے مسلمان رہ گئے ہیں انھیں نہ شوق و لگن ہے کہ وہ قرآن کریم کو ترجمے سے پڑھیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو قرآنی تعلیمات دینے کی کوشش کریں، آج لوگوں کی اکثریت فیشن اور مغربی طرز حیات اپنانے میں لگی ہوئی ہے، ان حالات میں مذکورہ کتاب اس بات کی دعوت رہی ہے کہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مذہب اسلام سے استفادہ کیا جاسکے ایک سو اٹھاون صفحوں میں قرآن پاک کے 37 واقعات کو مضامین کی شکل میں درج کردیا گیا ہے۔ موضوعات اس قدر پرکشش ہیں کہ پڑھنے والے کو مزید اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔
''ابتدائے آفرینش'' سے ابن مریم علیہ السلام پر ''کہ ہم جھٹلائے گئے'' کا اختتام ہوا ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ آیات اور اس کا ترجمہ بھی شامل مضامین ہے، ابتدا ہی اللہ کے کلام سے ہوتی ہے۔ سورۃ الاعراف کے ایک واقعے کو یہ عنوان دیا ہے کہ ''سورج کو تھمنا پڑا'' یہ عنوان ایسا ہے کہ اسے پڑھ کر ضرور یہ خواہش جاگے گی کہ ایسا کون سا واقعہ تھا، جب سورج اپنا سفر روک دیتا ہے۔ ذکر حضرت یوشع بن نون کا ہے، حضرت موسیٰ کے بعد نبوت کا تاج ان کے ہی سر پر سجایا گیا، حضرت موسیٰ کی شدید خواہش تھی کہ بیت المقدس ان کی زندگی میں فتح ہو، چنانچہ حضرت موسیٰ نے اس صالح اور بہادر نوجوان کو امیر جیش مقرر کیا ان کی سربراہی میں بنی اسرائیل کے نوجوان بصد شوق جنگ کے لیے تیار ہوگئے کہ بیت المقدس کو دشمنوں سے آزاد کرالیا جائے۔
ایک موقع پر بنی اسرائیل کے لوگ دشمنوں کو قتل کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے جنگ ہوتے ہوتے جمعہ کا دن اور عصر کا وقت ہوگیا مغرب کے ساتھ سبت یعنی ہفتے کا دن شروع ہوگیا۔ سبت کے احترام میں بنی اسرائیل کو جنگ کی اجازت نہ تھی، حضرت یوشع علیہ السلام نے دعا کی اور سورج سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تو بھی اللہ کے امر کا پابند اور میں بھی اس کے حکم کا محتاج لہٰذا اسی سے درخواست کرتا ہوں کہ تجھے غروب ہونے سے روکے، تاکہ ہم سبت کی آمد سے قبل بیت المقدس میں اپنا پرچم لہرائیں۔
کہا جاتا ہے کہ کائنات میں حضرت یوشع کے علاوہ کسی کے لیے سورج نہیں تھما اسی کتاب میں حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں بھی مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں کہ انھوں نے کس طرح قلم کو ایجاد کیا اور لوگوں کو لکھنا سکھایا۔ غرض ہر مضمون قرآن کے حوالے سے لکھا گیا ہے اور بے حد دلچسپ انداز میں اور مختصر ہے۔ آج کی مصروفیات کے دور میں یہ کتاب ایک بہترین تحفہ قارئین کے لیے ہے۔
عمر برناوی نے بے حد تحقیق، لگن اور جستجو سے اسے تخلیق کیا ہے اور شاعری کے پیراہن میں قرآنی و دینی واقعات اور تاریخ مغلیہ کے اور دوسرے بہت سے ان موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے، جن کا پڑھنا، سمجھنا اور غور و فکر کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ نئے موسم کی خوشبو عقیدت و محبت سے پڑھنے کی متقاضی ہے، شاعر کی شاعری میں بہار کا رنگ بھی نمایاں ہے اور موسم خزاں کی داستان بھی درج ہے۔ بہرحال ''نئے موسم کی خوشبو'' عمر برناوی کی ایک قابل تحسین کاوش ہے۔مختلف موضوعات پر انھوں نے معلومات کے روشن در وا کیے ہیں واقعہ معراج کو بے حد خوبصورتی و نفاست کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
دسواں نبوت کا تھا سال یہ...بیاں جس کا کرتا ہوں احوال یہ
نبیؐ جا کے لیٹے تھے اک رات حطیم...سو یہ رات تاریخ میں ہے عظیم
تو جبرئیل و میکائیل آئے وہاں...کہ کعبے میں لیٹے تھے حضرتؐ جہاں
کہا آ کے چلیے ہے واں انتظار...بلاتا ہے تم کو پروردگار
ہے براق حاضر' ہوں اس پر سوار...چلے سوئے اقصیٰ یہ اب تینوں یار
گئی لے کے بندے کو جو راتوں رات...کعبے سے اقصیٰ' وہ ہے پاک ذات
نبی نے کیا قافلوں کو سلام...گزرتے ہوئے تھا سفر تیز گام
ہجرت مدینہ، پیغمبروں کے واقعات، غزوہ احد و غزوہ بدر، برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کا ذکر اور معراج کا سفر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمانوں کی سیر کی اور اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کے مناظر بھی دکھائے اور پانچ نمازوں کا تحفہ بھی شب معراج کو ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا جہاں جہاں شاعر محترم نے استعاروں کی زبان میں بات کی ہے وہاں انھوں نے اس کی وضاحت بھی حواشی کے ذریعے کردی ہے۔
انگریزوں نے پورے سو سال ہندوستان پر نہ کہ حکومت کی بلکہ لوٹ مار، ظلم و تشدد، آبرو ریزی جیسے مظالم اور سفاکی کی داستان رقم کردی لیکن افسوس کہ تاریخ سے کسی نے سبق نہیں سیکھا اور آج بھی غلام در غلام انگریزوں کی غلامی میں لگے ہوئے اور ان کے قصیدے پڑھ رہے ہیں اس کتاب میں منظوم تاریخ اسلام درج ہے۔ انبیا کرام کے واقعات، غزوات اور تاریخ پاک و ہند سے مزین ہے۔ یہ ایک قابل تحسین کاوش ہے۔
نئے موسم کی خوشبو کا نیا انداز ہے اب کے...گری تھی برق خرمن پر زمانے لد گئے کب کے
''کہ ہم جھٹلائے گئے'' نجیب عمر کی بہترین کوشش ہے اور دین سے محبت و عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے مصنف نے قرآنی واقعات کو آسان الفاظ میں لکھ کر اپنے تمام قارئین کو بہتر طریقے سے سمجھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
فی زمانہ مسلمان، نام کے مسلمان رہ گئے ہیں انھیں نہ شوق و لگن ہے کہ وہ قرآن کریم کو ترجمے سے پڑھیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو قرآنی تعلیمات دینے کی کوشش کریں، آج لوگوں کی اکثریت فیشن اور مغربی طرز حیات اپنانے میں لگی ہوئی ہے، ان حالات میں مذکورہ کتاب اس بات کی دعوت رہی ہے کہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مذہب اسلام سے استفادہ کیا جاسکے ایک سو اٹھاون صفحوں میں قرآن پاک کے 37 واقعات کو مضامین کی شکل میں درج کردیا گیا ہے۔ موضوعات اس قدر پرکشش ہیں کہ پڑھنے والے کو مزید اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔
''ابتدائے آفرینش'' سے ابن مریم علیہ السلام پر ''کہ ہم جھٹلائے گئے'' کا اختتام ہوا ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ آیات اور اس کا ترجمہ بھی شامل مضامین ہے، ابتدا ہی اللہ کے کلام سے ہوتی ہے۔ سورۃ الاعراف کے ایک واقعے کو یہ عنوان دیا ہے کہ ''سورج کو تھمنا پڑا'' یہ عنوان ایسا ہے کہ اسے پڑھ کر ضرور یہ خواہش جاگے گی کہ ایسا کون سا واقعہ تھا، جب سورج اپنا سفر روک دیتا ہے۔ ذکر حضرت یوشع بن نون کا ہے، حضرت موسیٰ کے بعد نبوت کا تاج ان کے ہی سر پر سجایا گیا، حضرت موسیٰ کی شدید خواہش تھی کہ بیت المقدس ان کی زندگی میں فتح ہو، چنانچہ حضرت موسیٰ نے اس صالح اور بہادر نوجوان کو امیر جیش مقرر کیا ان کی سربراہی میں بنی اسرائیل کے نوجوان بصد شوق جنگ کے لیے تیار ہوگئے کہ بیت المقدس کو دشمنوں سے آزاد کرالیا جائے۔
ایک موقع پر بنی اسرائیل کے لوگ دشمنوں کو قتل کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے جنگ ہوتے ہوتے جمعہ کا دن اور عصر کا وقت ہوگیا مغرب کے ساتھ سبت یعنی ہفتے کا دن شروع ہوگیا۔ سبت کے احترام میں بنی اسرائیل کو جنگ کی اجازت نہ تھی، حضرت یوشع علیہ السلام نے دعا کی اور سورج سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تو بھی اللہ کے امر کا پابند اور میں بھی اس کے حکم کا محتاج لہٰذا اسی سے درخواست کرتا ہوں کہ تجھے غروب ہونے سے روکے، تاکہ ہم سبت کی آمد سے قبل بیت المقدس میں اپنا پرچم لہرائیں۔
کہا جاتا ہے کہ کائنات میں حضرت یوشع کے علاوہ کسی کے لیے سورج نہیں تھما اسی کتاب میں حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں بھی مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں کہ انھوں نے کس طرح قلم کو ایجاد کیا اور لوگوں کو لکھنا سکھایا۔ غرض ہر مضمون قرآن کے حوالے سے لکھا گیا ہے اور بے حد دلچسپ انداز میں اور مختصر ہے۔ آج کی مصروفیات کے دور میں یہ کتاب ایک بہترین تحفہ قارئین کے لیے ہے۔