فلسطین اسرائیل جنگ عالمی معیشت اور پاکستان
مستقبل میں عالمی معیشت کے خراب ہونے کے خدشات کے پیش نظر پاکستانی معیشت پر مزید خطرات منڈلانے لگے ہیں
اسرائیل حماس جنگ کے آغاز نے دنیا بھر کی معیشت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی بربریت اور دہشت گردی اب دنیا کے لیے معاشی و مالی دہشت کا سبب بننے والی ہے۔
حماس کی فاتحانہ کارروائیوں سے دنیا حیران و پریشان ہے، لیکن جلد ہی دنیا بھر کے ممالک مالی و معاشی طور پر اسرائیل کی دہشت گردی اور بربریت سے شدید متاثر ہوں گے اور ایسا بین الاقوامی تجارت کے راستے سے ہوگا۔
تیل کی معیشت دنیا کو خوف، غربت اور مالی و معاشی دہشت میں مبتلا کردے گی۔ اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ جاری رکھا، بمباری سے باز نہ آیا تو اس کے معاشی اثرات انتہائی مہلک اور ناقابل تلافی ہوں گے، کیونکہ عالمی تجارت کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ تیل کی عالمی قیمتیں جوکہ چند روز قبل تک گرنے کا رجحان رکھتی تھیں، اس نے اب اٹھنا شروع کر دیا ہے۔
بہت سے ممالک جلد ہی باہمی تجارت میں محتاط رویہ اختیارکر لیں گے۔اس وقت دنیا دو کیمپوں میں بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے زیادہ تر ممالک فلسطین کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یورپی یونین اگرچہ اسرائیل کا حامی ہے لیکن اس نے فلسطین کے ترقیاتی فنڈ روکنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ اسرائیل کے حامی ممالک کے عوام فلسطین کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔
اس وقت عالمی معیشت کو سب سے بڑا خطرہ اسرائیل کی دہشت گردی، بربریت اور ہٹ دھرمی سے ہے کیونکہ تیل کی قیمت میں اضافہ اس کے ساتھ بہت سے ملکوں میں افراط زر کا بڑھنا اور اسرائیل کی مدد کرنے میں امریکی ڈالرز کا وحشیانہ استعمال امریکی بجٹ میں خسارہ لانے کے ساتھ امریکی تجارت میں بھی خسارہ لے کر آئے گا اور دنیا کی باہمی تجارت کے سکڑنے اور ڈالر پر انحصار کم کرنے سے ڈالر کی عالمی پیمانے پر گرتی ہوئی قدر امریکی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
مستقبل میں عالمی معیشت کے خراب ہونے کے خدشات کے پیش نظر پاکستانی معیشت پر مزید خطرات منڈلانے لگے ہیں اور صورتحال مزید سنگینی کا اشارہ کر رہی ہے۔ جس طرح ملک میں گیس کی قیمتوں میں 200 فی صد اضافے کی سمری تیار ہو گئی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ فکسڈ چارجز 10 روپے سے بڑھا کر 400 روپے کرنے کے علاوہ گھریلو صارفین کے لیے گیس 172 فی صد تک مہنگی کرنے کی تجویز ہے۔ نگران کابینہ جتنے فی صد بھی اضافے کی منظوری دیتی ہے لیکن اضافے کا اعلان یکم اکتوبر سے کر دیا جائے گا۔ ابھی ہم ماہ ستمبر کے گیس کا بل ادا کرکے فارغ ہوئے ہیں کہ جلد ہی اگلا گیس بم عوام پر داغ دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی آمد کے ساتھ یوٹیلیٹی اسٹورز پر سبسڈی کے خاتمے یا اس میں انتہائی زیادہ کمی کا معاملہ بھی درپیش ہوگا۔ اب جا کر ہمیں یوٹیلیٹی کی بھی قدر آنے لگی ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی طور پر ان اسٹورز سے مستفید ہوتا رہا ہے۔
2008 کی بات ہے ملک میں عوام کے لیے بازاروں سے مہنگا آٹا خریدنا محال ہو رہا تھا ایسے میں حکومت نے پونے آٹھ ارب روپے کی سبسڈی دی اور آٹے کے علاوہ دیگر کھانے پینے کی اشیا پر سبسڈی دی گئی انھی دنوں ان اسٹورز سے بہت بڑی مقدار میں آٹے کے 20 کلو کے تھیلے عوام کو فروخت کے لیے سستے داموں پیش کیے جاتے رہے ہیں اور غریب عوام تو کجا امیر لوگ بھی اپنی قیمتی گاڑیوں میں فراٹے بھر کر ان اسٹورز کے سامنے گاڑی پارک کر کے اور زیادہ تر افراد قطار میں لگ کر آٹا خرید کر لے جاتے رہے ہیں۔
ملک میں چینی کی قیمت جب مافیاز بڑھا دیتے یا مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں تو عوام چینی کی قیمت سن کر چکرا کر گرنے لگتے تو یہی یوٹیلیٹی اسٹورز ہی ہیں جو گرتے ہوئے غریب عوام کو سستے داموں پانچ، پانچ کلو کے چینی کے تھیلے فروخت کر کے انھیں تھام لیتے ہیں۔
اسی طرح مختلف اشیا پر حکومت کی جانب سے سبسڈی دی جاتی رہی ہے جس سے گاہے بگاہے عوام بھی مستفید ہوتے چلے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف نے تجویز دی ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کو نجی شعبے کے حوالے کیا جائے۔ نگران حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کی نجکاری یا خاتمے کے حوالے سے آئی ایم ایف کو ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
موجودہ عالمی سیاسی اور معاشی صورت حال میں جب کہ ایک طرف پاکستان کی برآمدات سکڑ رہی ہے عالمی معیشت بھی شش و پنج کے دہانے پر کھڑی ہے۔
تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا رجحان جاری رہا تو ایسی صورت میں پاکستان کا تجارتی خسارہ جس میں کمی کے امکانات پائے جا رہے تھے اب ایک دھماکا خیز صورت حال پیدا ہوگی اور سانس لیتی ہوئی ملکی معیشت شدید مالی گھٹن کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔ اس طرح آئی ایم ایف نے اپنی تازہ ترین ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں اس بات کی پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان کی معاشی شرح نمو ڈھائی فیصد تک رہے گی اسے شدید جھٹکا لگے گا اور یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ بے روزگاری کی شرح ساڑھے آٹھ فی صد سے کم ہو کر آٹھ فی صد تک آ سکتی ہے۔
یہ سب باتیں فلسطین، اسرائیل جنگ سے قبل کی ہیں لیکن اب حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کی معاشی ٹیم نئے عالمی معاشی حالات کو مدنظر رکھ کر ہی آئی ایم ایف کی آمد پر ان کے ساتھ گفت و شنید کرکے پاکستان کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے اگلا لائحہ عمل طے کرے۔ بصورت دیگر آئی ایم ایف کی اپنی پیش گوئی کہ معاشی شرح نمو ڈھائی فیصد تک رہے گی محض خام خیالی بن کر رہ جائے گی۔
حماس کی فاتحانہ کارروائیوں سے دنیا حیران و پریشان ہے، لیکن جلد ہی دنیا بھر کے ممالک مالی و معاشی طور پر اسرائیل کی دہشت گردی اور بربریت سے شدید متاثر ہوں گے اور ایسا بین الاقوامی تجارت کے راستے سے ہوگا۔
تیل کی معیشت دنیا کو خوف، غربت اور مالی و معاشی دہشت میں مبتلا کردے گی۔ اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ جاری رکھا، بمباری سے باز نہ آیا تو اس کے معاشی اثرات انتہائی مہلک اور ناقابل تلافی ہوں گے، کیونکہ عالمی تجارت کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ تیل کی عالمی قیمتیں جوکہ چند روز قبل تک گرنے کا رجحان رکھتی تھیں، اس نے اب اٹھنا شروع کر دیا ہے۔
بہت سے ممالک جلد ہی باہمی تجارت میں محتاط رویہ اختیارکر لیں گے۔اس وقت دنیا دو کیمپوں میں بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے زیادہ تر ممالک فلسطین کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یورپی یونین اگرچہ اسرائیل کا حامی ہے لیکن اس نے فلسطین کے ترقیاتی فنڈ روکنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ اسرائیل کے حامی ممالک کے عوام فلسطین کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔
اس وقت عالمی معیشت کو سب سے بڑا خطرہ اسرائیل کی دہشت گردی، بربریت اور ہٹ دھرمی سے ہے کیونکہ تیل کی قیمت میں اضافہ اس کے ساتھ بہت سے ملکوں میں افراط زر کا بڑھنا اور اسرائیل کی مدد کرنے میں امریکی ڈالرز کا وحشیانہ استعمال امریکی بجٹ میں خسارہ لانے کے ساتھ امریکی تجارت میں بھی خسارہ لے کر آئے گا اور دنیا کی باہمی تجارت کے سکڑنے اور ڈالر پر انحصار کم کرنے سے ڈالر کی عالمی پیمانے پر گرتی ہوئی قدر امریکی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
مستقبل میں عالمی معیشت کے خراب ہونے کے خدشات کے پیش نظر پاکستانی معیشت پر مزید خطرات منڈلانے لگے ہیں اور صورتحال مزید سنگینی کا اشارہ کر رہی ہے۔ جس طرح ملک میں گیس کی قیمتوں میں 200 فی صد اضافے کی سمری تیار ہو گئی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ فکسڈ چارجز 10 روپے سے بڑھا کر 400 روپے کرنے کے علاوہ گھریلو صارفین کے لیے گیس 172 فی صد تک مہنگی کرنے کی تجویز ہے۔ نگران کابینہ جتنے فی صد بھی اضافے کی منظوری دیتی ہے لیکن اضافے کا اعلان یکم اکتوبر سے کر دیا جائے گا۔ ابھی ہم ماہ ستمبر کے گیس کا بل ادا کرکے فارغ ہوئے ہیں کہ جلد ہی اگلا گیس بم عوام پر داغ دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی آمد کے ساتھ یوٹیلیٹی اسٹورز پر سبسڈی کے خاتمے یا اس میں انتہائی زیادہ کمی کا معاملہ بھی درپیش ہوگا۔ اب جا کر ہمیں یوٹیلیٹی کی بھی قدر آنے لگی ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی طور پر ان اسٹورز سے مستفید ہوتا رہا ہے۔
2008 کی بات ہے ملک میں عوام کے لیے بازاروں سے مہنگا آٹا خریدنا محال ہو رہا تھا ایسے میں حکومت نے پونے آٹھ ارب روپے کی سبسڈی دی اور آٹے کے علاوہ دیگر کھانے پینے کی اشیا پر سبسڈی دی گئی انھی دنوں ان اسٹورز سے بہت بڑی مقدار میں آٹے کے 20 کلو کے تھیلے عوام کو فروخت کے لیے سستے داموں پیش کیے جاتے رہے ہیں اور غریب عوام تو کجا امیر لوگ بھی اپنی قیمتی گاڑیوں میں فراٹے بھر کر ان اسٹورز کے سامنے گاڑی پارک کر کے اور زیادہ تر افراد قطار میں لگ کر آٹا خرید کر لے جاتے رہے ہیں۔
ملک میں چینی کی قیمت جب مافیاز بڑھا دیتے یا مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں تو عوام چینی کی قیمت سن کر چکرا کر گرنے لگتے تو یہی یوٹیلیٹی اسٹورز ہی ہیں جو گرتے ہوئے غریب عوام کو سستے داموں پانچ، پانچ کلو کے چینی کے تھیلے فروخت کر کے انھیں تھام لیتے ہیں۔
اسی طرح مختلف اشیا پر حکومت کی جانب سے سبسڈی دی جاتی رہی ہے جس سے گاہے بگاہے عوام بھی مستفید ہوتے چلے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف نے تجویز دی ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کو نجی شعبے کے حوالے کیا جائے۔ نگران حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کی نجکاری یا خاتمے کے حوالے سے آئی ایم ایف کو ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
موجودہ عالمی سیاسی اور معاشی صورت حال میں جب کہ ایک طرف پاکستان کی برآمدات سکڑ رہی ہے عالمی معیشت بھی شش و پنج کے دہانے پر کھڑی ہے۔
تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا رجحان جاری رہا تو ایسی صورت میں پاکستان کا تجارتی خسارہ جس میں کمی کے امکانات پائے جا رہے تھے اب ایک دھماکا خیز صورت حال پیدا ہوگی اور سانس لیتی ہوئی ملکی معیشت شدید مالی گھٹن کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔ اس طرح آئی ایم ایف نے اپنی تازہ ترین ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں اس بات کی پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان کی معاشی شرح نمو ڈھائی فیصد تک رہے گی اسے شدید جھٹکا لگے گا اور یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ بے روزگاری کی شرح ساڑھے آٹھ فی صد سے کم ہو کر آٹھ فی صد تک آ سکتی ہے۔
یہ سب باتیں فلسطین، اسرائیل جنگ سے قبل کی ہیں لیکن اب حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کی معاشی ٹیم نئے عالمی معاشی حالات کو مدنظر رکھ کر ہی آئی ایم ایف کی آمد پر ان کے ساتھ گفت و شنید کرکے پاکستان کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے اگلا لائحہ عمل طے کرے۔ بصورت دیگر آئی ایم ایف کی اپنی پیش گوئی کہ معاشی شرح نمو ڈھائی فیصد تک رہے گی محض خام خیالی بن کر رہ جائے گی۔