دیہی خواتین کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے

غذائی تحفظ اور ملکی شرح نمو میں خواتین کا اہم کردار....


شرکاء کا ’’دیہی خواتین کے عالمی دن‘‘ کی مناسبت سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ا ظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

دنیا بھر میں ہر سال 15 اکتوبر کو دیہی خواتین کا عالمی دن منایا جاتا جس کا مقصد اُن اربوں خواتین کی کاوشوں کو سراہنا ہے جو خوراک کی پیداوار اور زرعی و دیہی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں اور دیہات میں رہ کر ملک کیلئے انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

اس دن کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ معاشرے میں دیہی خواتین کی اہمیت کو اجاگر کر کے شعور پیدا کیاجائے اور دیہات میں بھی صنفی مساوات کو فروغ دیا جائے۔ اس اہم دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر ارم رباب

انچارج ویمن ڈویلپمنٹ سینٹر یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس لاہور

پاکستان میں 10 کروڑ سے زائد خواتین ہیں جبکہ دیہات میں 6 کروڑ 40 لاکھ خواتین رہتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کا نصف سے زائد حصہ دیہی علاقوں میں ہے لہٰذا اگر ہم ملک اور خواتین کی ترقی چاہتے ہیں تو دیہات پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔

خواتین کی بڑی تعداد شعبہ زراعت سے منسلک ہے۔ عورت کو زراعت کا بانی مانا جاتا ہے اور اس کا تعلق پھلوں، سبزیوں، موسموں کی تاریخ سے ہے جبکہ مرد نے اپنے کام کا آغاز شکار سے کیا۔ یہ باعث افسوس ہے کہ جو عورت زراعت کی بانی ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں، وہ نہ تو مزدوروں میں شامل ہے اور نہ ہی اسے کام کا جائز معاوضہ ملتا ہے۔

بدقسمتی سے خواتین تہرے بوجھ اورا ستحصال کا شکار ہیں۔ خواتین گھر کا کام بھی کرتی ہیں، کھیتوں میں مزدوری بھی کرتی ہیں لیکن انہیں ان کے حقوق نہیں دیے جاتے۔ بھٹہ پر کام کرنے والی خواتین بدترین استحصال کا شکار ہیں۔

مٹی اکٹھی کرنا، گارا بنانا، فریم میں اینٹ ڈھالنا جیسے کام کم معاوضے والے ہیں، یہاں تک کام خواتین سے کروایا جاتا ہے جبکہ اینٹ بنانے کے اگلے مراحل مرد کرتے ہیں جن کا معاوضہ زیادہ ہے۔ خواتین اپنے بیمار بچوں کو بھی ساتھ رکھ کر کام کرتی ہیں، اگر کسی اور کے پاس چھوڑ کر آئیں تو ہراسمنٹ کے مسائل ہیں۔

یہ کہنا درست ہوگا کہ دیہات کی خواتین سے جبری مشقت لی جا رہی ہے۔ ساہیوال کے کھیت سے آلو نکالنے والے مرد و خواتین مزدوروں میں عورت کو معاوضہ کم ملتا ہے، کام ایک سا، کام کے اوقات ایک سے مگر کم معاوضہ ان کا رواج ہے، عورت کو برابر شہری نہیں سمجھا جاتا۔ افسوس ہے کہ دیہات میں کام کرنے والی خواتین رسمی لیبر میں شامل نہیں، ان پر لیبر قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا، ریاست کو قوانین بنا کر انہیں تحفظ دنیا چاہیے۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ صرف قانون بنانے یا پالیسی سازی سے کام نہیں ہوگا بلکہ معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی، اس کے لیے بڑے پیمانے پر آگاہی دی جائے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ 70 برسوں میں کوئی بھی مستحکم جمہوری حکومت نہیں آئی جس کے باعث آج تک عوامی مسائل حل نہیں ہوسکے۔

کرونا وباء کے بعد سے دیہی خواتین کو نقصان پہنچا۔ اسی طرح سیلاب اور موسمیاتی تبدیلی سے بھی خواتین کو نقصان اٹھانا پڑا، ان کے لیے ریاست کو اقدامات کرنا ہونگے۔ دیہات میں دوران زچگی خواتین کی شرح اموات زیادہ ہے، وہاں صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔ فوڈ سکیورٹی میں خواتین کا کردار انتہائی اہم ہے۔

لہٰذا انہیں ترقی کے دھارے میں لانے سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ اس حوالے سے حکومت، اکیڈیمیا، سول سوسائٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ خواتین کو قومی دھارے میں لانے کیلئے بہت ساری کیس سٹڈیز موجود ہیں۔ بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس نے مائیکروفنانسنگ سے کمیونٹی ڈویلپمنٹ کی۔

اسی طرح پاکستان میں ڈاکٹر عبدالحمید نے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا۔ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام بھی کامیابی سے جار ہی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ بیرونی امداد اور بیرونی پراجیکٹس ملک کی حالت نہیں بدل سکتے، اگر ہم دیہی خواتین کی زندگی بدلنا چاہتے ہیں تو اس عمل میں انہیں شامل کرنا ہوگا۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔

میری تجویز ہے کہ انکوبیشن سینٹرز اور چیمبرز کی نجی شاخیں دیہات تک پھیلائی جائیں اور وہاں کی خواتین کو ایمپاور کیا جائے۔ ورلڈ بینک کے تعاو ن سے حکومت نے لینڈ ریکارڈ ڈیجیٹلائز کیا، اس میں ملکیت کے بہت سارے مسائل سامنے آئے۔

پنجاب میں 10 فیصد خواتین زمین کی مالکن ہیں۔ ہمیں خواتین کی وراثت اور جائیداد کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا ہونگے۔ خواتین کے مسائل گھمبیر ہیں، ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں، پیدائش کے اندراج میں بھی مسئلہ ہے، انہیں تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ و دیگر سہولیات میسر نہیں، انہیں قانون کے دائرے میں لاکر تمام حقوق دینا ہونگے۔

آئمہ محمود

جنرل سیکرٹری پاکستان ورکرز کنفیڈریشن

پاکستان زرعی ملک کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ ہماری جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ زراعت سے حاصل ہوتا ہے مگر اس کے باوجود زرعی مزدور اور محنت کش خواتین کے حالات مایوس کن ہیں۔محنت کش خواتین کومرد کے مقابلے میں 40 فیصد کم معاوضہ ملتا ہے جبکہ کام کے اوقات کار زیادہ ہیں ۔ یہ خواتین گھر اور کھیت، دونوں میں کام کرتی ہیں، انہیں 4 سے 6 گھنٹے اضافی کام کرنا پڑتا ہے۔

دیہی خواتین کو تعلیم، صحت، ہراسمنٹ، ناسازگار ماحول سمیت بیشتر مسائل کا سامنا ہے۔کاروبار کے لیے قرض لینا ان کے لیے ناممکن ہے، کوئی بینک بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ حکومت و سماجی تنظیموں کی طرف سے بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

ان خواتین کو یونین سازی کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ ان پر قانون محنت کا اطلاق نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ سوشل سکیورٹی، پروٹیکشن، ای او بی آئی جیسی کوئی سہولت میسر نہیں۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ زرعی ملک کے وہ زرعی مزدور اور محنت کش جو ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان کی بجٹ میں کوئی حیثیت نہیں، وہ ترجیحات میں شامل نہیں نہ ہی دیہات کی ترقی پر کسی نے کوئی توجہ دی ہے۔

2018ء میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ زرعی مزدوروں کو قانون محنت کے دائرہ کار میں لایا جائے گا لیکن تاحال کچھ نہیں ہوسکا۔ دنیا کا جائزہ لیں تو 41 فیصد خواتین زراعت سے منسلک ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں 49 فیصد خواتین شعبہ زراعت میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

ان خواتین کو کوئی تحفظ نہیں ہے، ان کیلئے دیہات میں کوئی ٹریننگ سینٹرز نہیں ہیں، انہیں آمد و رفت کا بھی مسئلہ ہے، دیہات میںپبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ تعلیم کے حصول کیلئے لڑکیوں کو دور جانا پڑتا ہے اسی لیے والدین سکول ہی نہیں بھیجتے۔ دیہات میں ٹھیکیدارانہ نظام ہونے کی وجہ سے خواتین کا استحصال ہورہا ہے، اس نظام نے خواتین کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہیں چند سو روپے کا معاوضہ ملتا ہے اور کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔

کپاس اورچاول کی فصلوں پر کیمیکلز کی وجہ سے وہاں کام کرنے والی خواتین کو جلدی امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔ ان کے علاج کے لیے دیہات میں ڈسپنسریاں موجود نہیں ہیں جس کے باعث خواتین دیسی ٹوٹکے استعمال کرتی ہیں۔

مجھے افسوس ہوتا ہے کہ دیہی خواتین دوہرے استحصال کا شکار ہیں۔ حکومت سے لے کر نیچے تک سب نے ہی انہیں نظر انداز کیا ہے۔ ٹریڈ یونینز نے بھی اس پر توجہ نہیں دی کہ ہم نے انہیں صحیح معنوں میں منظم کرنا ہے، ان کی آواز کو توانا بنانا ہے بلکہ یہ بھی فیکٹریوں تک ہی محدود رہیں۔ اسی طرح دیہی خواتین کی کوئی سیاسی آواز بھی نہیں ہے۔

مقامی حکومتوں کا نظام بھی موجود نہیں ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں 40 ہزار سے زائد خواتین لوکل باڈیز کے نظام میں آئی تھی جبکہ جمہوریت کے دعویداروں نے آج تک مقامی حکومتوں کو مضبوط نہیں کیا۔ یہ نظام تو خواتین کی تعلیم، صحت، روزگار، ٹرانسپورٹ سمیت تمام مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل کر سکتا ہے۔

افسوس ہے کہ سب نے مل کر دیہی خواتین کا استحصال کیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر دیہی خواتین کو فیصلہ سازی کا حق دیا جائے، مقامی حکومتوں میں خواتین کی نمائندگی 50 فیصد کی جائے۔ تعلیم اور صحت کے حوالے سے بہتری لانے کیلئے حکومت 10 سالہ دیہی ترقیاتی پروگرام لائے۔

ملک میں زرعی اصلاحات لائی جائیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر دیہاتوں میں بہتری ہوگی، لوگوں کو ترقی اور روزگار کے مواقع ملیں گے تو وہ شہروں میں نقل مکانی نہیں کر یں گے،ا س طرح شہروں کے مسائل بھی کافی حد تک کم ہوجائیں گے۔ دنیا میں 20 فیصد سے کم خواتین زمین کی مالکن ہیں۔ وراثت میں خاتون کو زمین کا حق حاصل ہے۔

اس حوالے سے قانون بھی موجود ہے، خواتین زمین اپنے پاس رکھیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کچن گارڈننگ، مویشی پالنے جیسے کاموں کیلئے خواتین کی مالی معاونت کرے، انہیںآسان شرائط پر قرض فراہم کیا جائے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ محنت کش خواتین کو قوانین محنت کے دائرہ کار میں لایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سماجی رویوں میں تبدیلی لانے کی بھی ضرورت ہے۔

دیہات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی سیاسی شمیولت یقینی بنائی جائے، مخصوص نشستوں میں انہیں لازمی طور پر نمائندگی دی جائے۔ ملک میں جب سیلاب آیا تو سب سے زیادہ متاثر محنت کش خواتین ہوئی۔ ان کے گھر، مال، مویشی بہہ گئے، کھیت جو ان کے کام کی جگہ ہیں، تباہ ہوگئے، ابھی تک متاثرہ دیہاتوں میں بحالی نہیں ہوسکی۔

حکومت کو چاہیے کہ ان خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے سپورٹ سسٹم متعارف کروائے۔ سماجی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ مزید متحرک ہوں اور ان خواتین کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ میرے نزدیک ان خواتین کی تنظیم سازی ، دیہات کی ترقی کا پہلا زینہ ہے لہٰذا نہیں منظم کیا جائے، ٹریڈ باڈیز کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

رانی شمیم

نمائندہ دیہی خواتین

دیہی خواتین کی ترقی اور ان کے مسائل کے حل کیلئے اقدمات کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر افسوس ہے کہ ریاست اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے میں تاحال ناکام رہی ہے۔ یہ 2023ء ہے دنیا بہت ترقی کر چکی ہے، صحت کے شعبے میں انقلاب آچکا ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے گاؤں میں آج بھی لیڈی ہیلتھ ورکرز موجود نہیں ہیں، یہاں ڈسپنسری بھی نہیں ہے۔

ہمارے ساتھ والے گاؤں میں ایک ڈسپنسری موجود ہے جو2 برس سے زائد بند رہی ہے اور اب حال ہی میں دوبارہ بحال کی گئی ہے۔ ہماری یونین کونسل میں 28 گاؤں ہیں اور یہاں سے 42کلومیٹر دور ننکانہ صاحب ہے، ہماری خواتین اور لڑکیاں علاج کیلئے وہاں کے ہسپتالوں میں جاتی ہیں۔ 'بی ایچ یو' قدرے بہتر ہے لیکن یہ بھی 12 سے زائد گاؤں کی پہنچ سے بہت دور ہے۔لوگوں کے پاس وسائل کی کمی ہے، نجی کلینک یا ہسپتالوں کی فیس برداشت نہیں کرسکتے۔ خصوصی افراد کیلئے تو دیہات میں کوئی سہولت نہیں ہے۔

افسوس ہے کہ حکومت کی اعلان کردہ کوئی بھی سکیم ہماری یونین کونسل تک نہیں پہنچتی۔ جاگیردارانہ نظام ہے جس میں خواتین، معذور اور کمزور افراد کچھ بول نہیں سکتے، ان کا بدترین استحصال ہورہا ہے۔ ہمارے گاؤں میں امرود، لیموں، لیچی کے باغات ہیں ، جاگیرداروں کی ا چھی کمائی ہوتی ہے لیکن وہاں کام کرنے والوں کو 250 سے 300 روپے دیہاڑی ملتی ہے۔

جون کی سخت گرمی میں لیچی توڑنے والوں کو 300 روپے معاوضہ دیناجبکہ ان کی صحت متاثر ہوتی ہے، سر پہ کوئی چھت نہیں، اوپر بھی گرمی، نیچے بھی گرمی، شہد کی مکھیاں بھی کاٹتی ہیں،انتہائی افسوسناک ہے۔

سبزیوں و گندم کی کٹائی، کپاس کا چننا، بھٹے توڑنا، سب انتہائی مشکل کام ہیں۔ میرے نزدیک سب سے مشکل ترین کام چاول کی فصل بونے کا ہے۔ نیچے گرم پانی، اوپر تپتی دھوپ اور جھک کر مسلسل فصل لگانا، تھکاوٹ سے مار دیتا ہے۔ جب خواتین سیدھا کھڑی ہوتی ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ حاملہ خواتین بھی مجبوری میں یہ کام کر رہی ہوتی ہیں اور جب تھک ہار کے گھر آتی ہیں تو خاوند الگ غصہ کرتا ہے، اسے کھانا وغیرہ دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ہمیں لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

تعلیم کی بات کریں تو ہمارے گاؤں میں پرائمری سکول ہے جبکہ ساتھ والے دیہات میں نجی سکول ہیں۔ والدین پرائمری سے آگے لڑکیوں کو نہیں پڑھاتے، 12 سے 14 برس کی عمر میں ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔ موڑ کھنڈہ ہمارے گاؤں سے 12 کلومیٹر دور ہے، وہاں ہائی سکول ہے۔ والدین بچیوں کو وہاں نہیں بھیجتے لہٰذا پرائمری پاس کرنے والی 100 بچیوں میں سے 15 کے قریب لڑکیاں نجی یا سرکاری ہائی سکول میں تعلیم جاری رکھتی ہیں ، یہ شرح انتہائی افسوسناک ہے۔ افسوس ہے کہ ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام نہیں ہے۔

ہم مسلسل یہ مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ مقامی حکومتیں قائم کریں اور ان میں خواتین کو 50 فیصد نشستیں دیں۔ اس وقت یونین کونسلز میں سیکرٹری تعینات ہیں۔ ہماری یونین کونسل کے سیکرٹری کسی اور دفتر میں بیٹھتے ہیں جو یہاں سے دور ہے۔

اول تو لوگوں کو وہ دفتر نہیں ملتا، اگر مل جائے تو وہاں کافی تنگی اٹھانی پڑتی ہے، لوگ پیدائش و موت کے سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے اضافی رقم دینے پر مجبور ہیں۔ افسوس ہے کہ ہر قدم پر خواتین کو مسائل کا سامنا ہے، مردوں کو بھی اس نظام کی وجہ سے مسائل درپیش ہیں۔

خواتین کے مسائل اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ ان کا ہر سطح پر استحصال ہو رہا ہے۔ انہیں روزگار کا مسئلہ ہے، کم معاوضے کا مسئلہ ہے، برابر شہری ہونے کے حق نہ ملنے کا مسئلہ ہے۔ دیہات میں ہنر مند خواتین موجود ہیں جو سلائی کڑھائی جانتی ہیں، تنکوں سے اشیاء بناتی ہیں، اور بھی بہت سا ہنر ہے جس کا معاوضہ انہیں بہت کم ملتا ہے۔

اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جو شخص انہیں آرڈر دیتا ہے، اصل معاوضہ وہ کماتا ہے، ان خواتین کو تو شہروں اور دیگر علاقوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے ہنر کی ایکسپو کرواکر، چند سٹالز لگوا کر اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار کر لی جاتی ہے جبکہ خواتین کی حالت مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ مستقل بنیادوں پر دیہی خواتین کے مسائل حل کیے جائیں اور انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں