دوسرے جائیں جہنم میں
سائنس دانوں ہی کا کہنا ہے کہ زمین کی ماحولیات تیزی سے تباہ ہو رہی ہے ۔۔۔
ایک خوبصورت کمرے میں نہایت شاندار اے سی شدید گرمی میں زبردست ٹھنڈک پیدا کر رہا تھا۔ اے سی کی ٹھنڈک سے لطف اندوز ہونے والے چند لوگ اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے ۔وہ اللہ کی مخلوق کے کمالات کا ذکر کر کے اس کی عظمت ورفعت کے قصیدے بھی پڑھ رہے تھے۔ باہرریگستان جیسی شدید گرمی تھی لیکن اس کمرے کے اندر نخلستان سے زیادہ سرد موسم تھا۔
مجلس میں شامل ایک شخص نے سوال کیا کہ یہ درست ہے کہ آپ کے کمرے کا ماحول نہایت خنک ہے لیکن آپ صرف دیوار کے اس طرف کا منظردیکھ رہے ہیں۔ ایک منظر دیوار کی دوسری طرف بھی ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ دیوار کے ادھر ٹھنڈک ہے مگرکس قیمت پر؟ اس کمرے کی گرمی اے سی کھینچ کر کہاں پھینک رہا ہے؟ اے سی میں جو توانائی استعمال ہو رہی ہے وہ توانائی اس کرہ ارض کے اندر کتنی گرمی پیدا کر رہی ہے؟ اس گرمی کے نتیجے میں کرہ ارض کے ماحول پر کیا اثرات پڑ رہے ہیں؟
سائنس دانوں ہی کا کہنا ہے کہ زمین کی ماحولیات تیزی سے تباہ ہو رہی ہے۔موسم بدل رہے ہیں، گلیشیئر پگھل رہے ہیں، سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے ۔کروڑوں لوگ اس صدی کے اختتام تک صرف اے سی کی پیدا کردہ گرمی کے باعث بے گھر ہوجائیں گے۔ اور ہم لاعلمی یا بے حسی کے باعث اے سی کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ بے شمار علاقے پانی میں ڈوب جائیں گے، مالدیپ صفحہ ہستی سے غائب ہوجائے گا، مالدیپ آج کل آسٹریلیا میں زمین کا ٹکڑا خریدنے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے تاکہ اس ملک کو محفوظ براعظم میں منتقل کر دے۔
کیا آپ ان تبدیلیوں، مسائل، مشکلات، اثرات، مضمرات سے واقف ہیں؟ اگر نہیں تو اس گفتگو کا کیا فائدہ جو صرف افادہ پرستی کے فلسفے کی تائید کرتی ہے یا نتائجیت پرستی کے تحت محض اپنا مفاد دیکھتی ہے۔ اے سی دنیا کے دو فی صد لوگ استعمال کرتے ہیں مگر اس کی پیدا کردہ گرمی کے اثرات دنیا کے 98فی صد غریبوں پر، ماحولیات پر، موسموں پر، کاروبار پر، فصلوں پر، پانی کے ذخیرے پر پڑ رہے ہیں۔ لیکن ہم بحیثیت مجموعی دیوار کی دوسری طرف دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، اور اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر سوچنے سمجھنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتے۔
مسئلہ صرف اے سی ہی کا نہیں۔ فریج جو مجھے ٹھنڈا پانی مہیا کرتا ہے، فریزر جس میں قربانی کا پورا بکرا محفوظ کر کے اگلے چھ ماہ تک یہ سڑا ہوا زہر آلود گوشت میں کھاتا رہتا ہوں اور یہ دعویٰ بھی کرتا رہتا ہوں کہ میں رسالت مآبؐ کا امتی ہوں جن کی کنیت ''قاسم'' تھی بانٹنے والے تقسیم کرنے والے، جو کبھی خود اپنے لیے بچا کر نہیں رکھتے تھے اور بیت المال میں جو کچھ آتا تھا وہ تقسیم کیے بغیر گھر جانا پسند نہیں کرتے تھے یہ ان کی امت ہے جو سنت ترک کر کے اپنے معدے میں زہریلے گوشت اتار رہی ہے۔
یہ کار جس کے اندر بیٹھ کر میں اے سی چلاتا ہوں پھر ایک سو یا اسی کلومیٹر کی رفتار سے سگنل فری کوریڈور کے اندر سے دوڑاتے ہوئے بالائے زمین پلوں سے گزرتے ہوئے اس کے ذریعے دس منٹ میں اپنے دفتر پہنچ جاتا ہوں ،یہ کار مجھے اندر بیٹھ کر اچھی لگتی ہے کیوں کہ میں اس کے اندر بیٹھنے کی استعداد رکھتا ہوں ۔ لیکن یہ کار ماحول میں دھواں چھوڑ کر جو آلودگی پھیلا رہی ہے جس سے ماحولیات، موسم، دنیا، انسان، انسانیت، سب کچھ تباہ ہو رہے ہیں کیا میں اس کا اندازہ کرسکتا ہوں؟
یہ ہوائی جہاز جو دس ہزار کاروں میں استعمال ہونے والا ایندھن ایک پرواز میں استعمال کرلیتا ہے، جس کی آلودگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں مگر مجھے لمحوں میں یہاں سے وہاں لے جاتا ہے دھواں جہاز کے اندر تو نہیں آتا یہ باہر کا مسئلہ ہے۔ باہر سے میرا کیا تعلق میں تو دیوار کے صرف اس طرف دیکھتا ہوں دیوار کی دوسری طرف کا مسئلہ میرا نہیں سارتر کے الفاظ میں دوسرے جہنم میں جائیں ۔ اور اس سے بھی اہم تر سوال یہ ہے کہ آج میری سوچ اتنی خود غرضانہ کیوں ہو گئی ؟
جن اقوام اور سائنس دانوں نے فریج، کار، فریزر، اے سی ایجاد کیے ان کو خود اندازہ نہیں تھا کہ اس سے نکلنے والی گیس اس فطری قدرتی دنیا، اس حسین کائنات، اس میں آباد اللہ کی مخلوقات اور خود اس انسان کے لیے کتنی تباہ کن ہیں۔ آپ ایجاد کرسکتے ہیں لیکن اس کے سنگین نتائج کا اندازہ آپ کے بس میں نہیں ہوتا یہ اگلے تین سو برسوں میں تجربات کے بعد معلوم ہوتا ہے تو ایسے تجربات کرتے رہنا کیا عقل مندی ہے؟ ڈائنامیٹ ایجاد کرنے والے الفریڈ نوبل نے زمین ہموار کرنے کے لیے یہ ایجاد کی تھی مگر کیا اس ایجاد کا مقصد حاصل ہوسکا اس کے خطرناک استعمالات دیکھ کر اس نے نوبل انعام کی روایت ڈالی مگر کیا اس انعام نے امن قائم کر دیا؟
سائنس اور سرمایہ مقاصد کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتے۔ ڈائنامیٹ، وسائل، سائنس، سرمایہ پہلے مقاصد کے حصول کا ذریعہ تھے اب خود مقاصد بن گئے ہیں۔ آزادی کا حصول ان کے بغیر ممکن نہیں سمجھا جاتا۔آج اصل مقصد آزادی کا حصول ہے لہٰذا یہ ذرائع بھی وسائل نہیں اصلاً مقاصد ہی ہیں۔ سائنس کی پھیلائی ہوئی آلودگی کا علم تین سو برسوں کے بعد 1970ء میں ہوا اس کی تفصیل ''ڈیولپ منٹ ڈکشنری''کے مضمون ''انوائرمنٹ'' میں دیکھی جا سکتی ہے۔
گاڑی، فیکٹری، طیارہ، فریج، اے سی، فریزر وغیرہ جیسی اشیاء کے استعمال سے نکلنے والی''سی ایف سی'' گیسوں نے اوزون لہر کو تباہ کر دیا اس کا علم 1985ء میں تین سو سال کے بعد مغرب کو ہوا اوراوزون لہر کی مرمت بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کے نتیجے میں سورج کی گرمی چھن کر آنے کے بجائے براہ راست زمین پر آرہی ہے اس سے یورپ میں جلد کا سرطان عام ہوا، دنیا بھر میں فصلیں اور نسلیں تباہ ہو رہی ہیں کیا ہم اسے جان سکے؟ تفصیلات کے لیے ''الگور'' کی کتاب ''این انوائر منٹ ٹرتھ''دیکھیے۔ امریکا کے مشہور تاریخ داں ''جیرڈ ڈائمنڈ''اپنی کُتب میں بتاتے ہیں کہ دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں کا خاتمہ اسراف کی ثقافت وسائل کے بے تحاشہ استحصال اور تمتع فی الارض میں مسلسل انہماک کے باعث ہوا۔ عصر حاضر میں ''حدتِ ارضی'' کا سبب بھی یہی مسرفانہ طرز زندگی ہے۔
تسخیر کائنات کے نام پر تدفین کائنات کا عمل جاری و ساری ہے۔ کائنات کے وسائل پر قبضہ کر کے خواہش نفس کے غیر فطری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف کرۂ ارض بلکہ اس کرہ پر آباد پوری نسل انسانی تباہی کے خطرے سے دو چار ہے۔ اسراف و تبذیر نے اس کائنات کے وجود کو مشکوک بنا دیا ہے۔ تیزی سے تباہ ہوتا ہوا یہ کرۂ ارض ہمارے ''کنزیومر ازم'' کا براہِ راست نتیجہ ہے مگر یہی معیار ہر ایک کو مطلوب بھی ہے۔
''ڈیویلپ منٹ ڈکشنری ''ترقی، ماحولیات معیار زندگی سائنس اور ٹیکنالوجی کے نام پر پیدا کردہ دہشت گردی کے چہرے سے نقاب اٹھاتی ہے۔ جدید سائنس و ٹیکنالوجی نے اس کرۂ ارض کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے آلودگی نے بحر و بر ارض و سماء میں انسان کے لیے بے شمار قیامتیں پیدا کر دی ہیں ایسی قیامتیں جن کی آمد سے ہر انسان لاعلم ہے اور اس کے مصائب سے چھٹکارا پانا اس کے لیے محال کیا ان مباحث کو پڑھنا سمجھنا بڑے بڑے مفکرین کے لیے آج بھی ممکن ہے؟