ایک نئی سیاسی صف بندی

پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم ، اے این پی اور جے یوآئی سب انتخابی دھاندلیوں کو روکنے اورانتخابی اصلاحات کے حامی نظرآتے ہیں

salmanabidpk@gmail.com

کیا پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاست ایک نئی سیاسی صف بندی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کیونکہ پاکستان میں حزب اختلاف پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر موجود ضرور ہے ، لیکن اس کا مجموعی تاثر اتنا ہی برا ہے جتنا حکومت کی حکمرانی کا ہے ۔حزب اختلاف کا کام حکومت کے مقابلے میں ایک متبادل حکومت کا ہوتا ہے ، جو حکومت کو بھی اور لوگوں کو بھی آئینہ دکھاتا ہے ۔لیکن ہماری حزب اختلاف عمومی طور پر ایک تقسیم شدہ سیاست کے دائرہ کار میں قید نظر آتی ہے۔

ماضی میں یہ کام بڑی خوبصورتی سے نواب زادہ نصر اللہ مرحوم کیا کرتے تھے۔سیاسی لوگوں میں ایک دوسرے کے درمیان فاصلے اور اختلاف کے باوجود ان کو کسی مشترکہ ایجنڈے پر ایک کرنے کا ملکہ نواب زادہ نصر اللہ مرحوم کو ہی حاصل تھا۔اب ہماری حزب اختلاف کی سیاست ان کے بغیر سیاسی طور پر یتیم نظر آتی ہے ۔

لیکن اب جو سیاسی حالات میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس میں کچھ حکومت مخالف نئی سیاسی صف بندی کے امکانات کے پہلو سامنے آئے ہیں۔ 11مئی کو ایک بڑے جلسہ سے پہلی بار تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے تمام جماعتوں کی مدد اور اشتراک کے ساتھ بڑی جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عمران خان کی سیاست عملا سولو فلائٹ کے گرد گھومتی ہے۔ وہ دیگر جماعتوں کی سیاسی طاقت کو نظر انداز کرکے خود تن تنہا سیاسی میدان میں فاتح کے خواہش مند ہیں ۔ لیکن اب لگتا ہے کہ انھیں اندازہ ہوگیا ہے کہ معاملہ سولو فلائٹ سے حل نہیں ہوگا، اس کے لیے مشترکہ طور پر حکومت مخالف جماعتوں کے درمیان نئی حکمت عملی یا طریقہ کار کو حتمی شکل دے کر حکومت پر دباؤ کی سیاست کو بڑھانا ہوگا۔

فوری طور پر وہ انتخابی دھاندلی اور انتخابی اصلاحات کو بنیاد بناکر آگے بڑھنے کے خواہش مند ہیں۔ اگرچہ انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ وہ مڈٹرم انتخابات کے حامی ہیں یا حکومت کو قبل از وقت تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن جو اشارے اور چارٹر آف ڈیمانڈ انھوں نے پیش کیا ہے وہ محض مطالبات ہی نہیں بلکہ قبل از وقت انتخابات یا کسی اور طرز کی تبدیلی بھی پیدا کرسکتے ہیں ۔ممکن ہے کہ یہ خواہش عمران خان کی نہ ہو، لیکن جو حالات میںکروٹ ہے وہ کوئی ''غیر معمولی اقدام '' بھی ہوسکتا ہے ۔

پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم ، اے این پی اور جے یو آئی سب انتخابی دھاندلیوں کو روکنے اور انتخابی اصلاحات کے حامی نظر آتے ہیں ۔لیکن ان مسائل کے حل کا جو طریقہ کار عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری دے رہے ہیں وہ جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے خطرہ ہیں ۔ پہلی بات تو یہ کہ ابھی ابتدائی طور پر کوئی بڑی تحریک نہیں چل رہی ۔ اس لیے گیند تو ابھی بھی حکومتی کورٹ میں ہے کہ وہ تحریک انصاف کی ڈیمانڈ پر کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔


حکومت کا یہ موقف بجا کہ مسئلہ سڑکوں پر نہیں پارلیمنٹ میں حل ہوگا۔لیکن حکومت کو نئی سیاسی صف بندی یا کسی بھی تحریک سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ مستقبل میں انتخابی دھاندلیوں کو روکنے اور الیکشن کمیشن کے عمل کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے اقدامات کو بروئے کار لائے ۔ اس میں جتنی تاخیر ہوگی اس کا فائدہ حکومت مخالف جماعتیں ہی اٹھاکرسب کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہیں ۔

لیکن حکومت اس نئی سیاسی صف بندی میں خوف زدہ نظر آتی ہے ۔ بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے محض چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ حکومتی حلقوں میں خوف کی صورت اختیار کرگیا ہے ۔حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ ان چار حلقوں کو دوبارہ گنتی میں لے جاتی ہے تو اس کے نتائج کی تبدیلی کی صورت میں سارے انتخابی مینڈیٹ کی صحت متاثر ہوگی ، اس کا فائدہ حکومت مخالف قوتوں کو ہوگا جو مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ کرسکتی ہیں ۔ لیکن دوسری صورت بھی حکومت کے حق میں نہیں، کیونکہ اگر فوری طور پر ان چار حلقوں کا مسئلہ عملا حل نہیں ہوتا تو اس کے نتیجہ میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ)ق( سمیت دیگر جماعتیں اپنی تحریک میں شدت پیدا کرسکتی ہیں ۔کیونکہ ان چار حلقوں کے معاملے میں جتنی بھی تاخیر ہوگی وہ لوگوں میں اس رائے کو مضبوط کرے گی کہ انتخابی عمل اور اس کے نتائج مشکوک ہیں ۔

اگرچہ حکومت اور اس کے حامی عناصر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس نئی سیاسی صف بندی اور ممکنہ تحریک کے پیچھے اصل طاقت '' پس پردہ '' قوتوں کی ہے ۔ان کے بقول عمران خان ، چوہدری برادران اور ڈاکٹر طاہر القادری تنہا نہیں بلکہ وہ عملی طور پر '' اشاروں کی سیاست '' کررہے ہیں ۔حکومتی ترجمان بضد ہیں کہ پس پردہ قوتیں بعض ناکام سیاسی جماعتوں کی مدد کے ساتھ جمہوری عمل کی بساط کو لپیٹنے کا ارادہ کرچکی ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ حکومت کررہی ہے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جو حالات حکومت مخالف تحریک کے لیے نمودار ہوئے ہیں وہ سیاسی تنہائی میں نہیں ہوئے ، اس کی کچھ سیاسی وجوہات ہیں ۔ حکمران طبقات ہمیشہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال کر '' پس پردہ قوتوں '' پر بندوق چلا کر خود کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ غلطیاں حکومت سے بھی ہوتی ہیں، اس کا اعتراف بھی کیا جانا چاہیے ۔

اس لیے آنے والے دنوں میں حکومت مخالف تحریک کا کوئی امکان پیدا ہوتا ہے یا نئی سیاسی صف بندی ہوتی ہے تو یہ حیران کن بات نہیں ہوگی۔ سیاست میں کل کے مخالفین آج کے دوست ہوسکتے ہیں ۔ اس لیے تحریک انصاف، جماعت اسلامی ، مسلم لیگ)ق(، ایم کیو ایم ، جے یو آئی سمیت کچھ قوم پرست جماعتیں کسی نئے اتحاد کا حصہ بنتی ہیں تو یہ فطری امر ہوگا۔ہمارے دوست اصغر عبداللہ نے اپنے تجزیہ میں درست لکھا ہے کہ عمران خان اور چوہدری برادران آہستہ آہستہ ایک ہی پیج پر پہنچ رہے ہیں ، اور ان کے بقول یہ حزب اختلاف کی سیاست میں نیک فال ہے ۔ البتہ اس طرح کے اتحادوں کی تشکیل میں کیونکہ ماضی میں پس پردہ قوتیں اپنا حصہ ڈالتی رہی ہیں ، انھیں اس عمل سے دور ہی رہنا چاہیے۔حکومت مخالف جماعتوں کو بھی کسی اور سہارے کی بجائے سیاسی قوتوں کے درمیان اشتراک کار کے عمل کو ہی تلاش کرکے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہیے۔

عمران خان اگر واقعی اپنی حکومت مخالف تحریک میں شدت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنی صوبائی حکومت کی قربانی دینی ہوگی۔ چوہدری پرویز الہی کی بات اپنے اندر وزن رکھتی ہے کہ عمران خان '' آدھا تیتر اور آدھا بٹیر '' کی سیاست سے باہر نکل کر ایک صوبائی حکومت تک اپنے آپ کو محدود کرنے کی بجائے قومی سیاست کی طرف توجہ دیں ۔کیونکہ پاکستان کی سیاست میں یہ تجربہ ناکام ہوگیا ہے کہ ایک ہی وقت میںآپ حکومت اور حزب مخالف کے طور پر بھی اپنا حق ادا کرسکیں ۔لیکن کیا عمران خان ایسا کرسکیں گے یا صوبائی حکومت کو اپنی سیاسی مجبوری بناکر تضادات پر مبنی سیاست ہی کو تقویت دیں گے۔
Load Next Story

@media only screen and (min-width: 1024px) { div#google_ads_iframe_\/11952262\/express-sports-story-1_0__container__ { margin-bottom: 15px; } } @media only screen and (max-width: 600px) { .sidebar-social-icons.widget-spacing { display: none; } }