دیدہ دلیری
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں جو شخص بھی ارب پتی ہوتا ہے اس کی دولت کے حصول کے بارے میں ملک اور قوم کے ہر شخص کو ۔۔۔
گذشتہ دنوں اخبارات میں مانسہرہ میں ایک ایف ایس سی کی طالبہ کے ساتھ درندگی کی ایک انوکھی اور لرزہ خیز واردات نے ملک بھر کے اندر جوان بچیوں کے والدین کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب لوگ باقاعدہ طور پر دعا مانگ رہے ہیں کہ خدا انھیں راہ راست پر لائے جو مختلف مقامات اور علاقوں میں اپنے تمام تر کروفر کے ساتھ امن قائم رکھنے ، قانون کی عملداری اور انصاف کی فراہمی جیسی ذمے داریوں کو نبھانے کیلیے مامور کیے گئے ہیں۔خبر کیمطابق ''مانسہرہ میں نودولتیوں کی بگڑی اولادوں نے سیکنڈ ائر کی طالبہ اپنی ہی سہیلی کو ملی بھگت سے دن دہاڑے چلتی گاڑی میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔
پولیس نے تینوں ملزموں کو ساتھی لڑکی سمیت گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق مانسہرہ میں ایف ایس سی کی طالبہ مسماۃ (پ) آخری پرچہ دینے کے بعد امتحانی سینٹر سے باہر نکلی تو ساتھی طالبہ مسماۃ (الف) نے اسے گھر چھوڑنے کے بہانے گاڑی میں زبردستی بٹھا لیا اور دروازے لاک کردیے۔ گاڑی میں موجود قاری نصیر ، محمد فیضان عرف فیضی اور حسین نے کالے شیشوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اور اس دوران گاڑی کو مختلف سڑکوں پر دوڑاتے رہے۔ پولیس نے چاروں ملزموں کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا ہے جنھیں 24 گھنٹے حراست کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا۔
لڑکی نے پولیس کو درخواست دیتے ہوئے بتایا کہ آخری پرچہ دینے کے بعد جب کالج سے باہر آئی تو اس کی ساتھی طالبہ نے کہا کہ میرے کزن کی گاڑی ہے آئو تمہیں گھر تک چھوڑ آتے ہیں اور مجھے گاڑی میں بٹھا کر اور گاڑی کے دروازے لاک کردیے اور میرے ساتھ زیادتی کرتے رہے۔ پولیس نے طالبہ کی درخواست پر چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے ملزمان کو گرفتار کرلیا جب کہ متاثرہ لڑکی کو طبی امداد کیلیے اسپتال منتقل کردیا گیا۔ خبر کے مطابق ملزموں کا تعلق مانسہرہ کے بااثر خاندانوں سے ہے۔ ملزم قاری نصیر مدرسے کا مہتم ہے ملزم حسین سابق ناظم یوسی جبوڈی کا بیٹا ہے اور تیسرا ملزم فیضان دونوں کا دوست ہے۔
ڈی سی او ڈاکٹر خرم رشید نے بتایا کہ ملزمہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث تھی اور اپنے ساتھیوں سے مل کر ایسی وارداتیں کرتی رہی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ملزموں نے میڈیا کے سامنے طالبہ سے چلتی گاڑی میں زیادتی کا اعتراف کرلیا ہے۔ ملزم قاری نصیر نے کہا ہے کہ جرم پر اتنا نادم ہوںکہ زندہ رہنا نہیں چاہتاـ''۔ہم بحیثیت قوم لاتعداد مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں اور حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں قوموں پر آرام اور آزمائشوں کی ابتلائیں آتی ہیں اور جو قومیں مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہوں وہ اِن ابتلائوں اور آزمائشوں سے سرخرو ہوکر نکل آتی ہیں۔
جن قوموں کی بنیاد کھوکھلی ہوں وہ قومیں ان آزمائشوں کے دوران حوصلہ اور ہمت کے فقدان کے باعث اخلاقی طور پر پستیوں کی عمیق گہرائیوں میں گر جاتی ہیں اور اپنی شناخت گنوا بیٹھتی ہیں۔ نو دولتیے کون لوگ ہوتے ہیں؟ آج ہمارے معاشرے کی شناخت نودولتیوں کی مرہون منت ہے۔ جو خاندان اس وقت نامی گرامی ہیں عرصہ چالیس پچاس سال پہلے بالکل عام سمجھے جاتے تھے ۔ فارسی میں ایک مثل مشہور ہے کہ ''مالِ حرام بُود و بجائے حرام رفت '' حرام کا مال تھا حرام کی جگہ خرچ ہوگیا۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں جو شخص بھی ارب پتی ہوتا ہے اس کی دولت کے حصول کے بارے میں ملک اور قوم کے ہر شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے ارب پتی بنا کیونکہ ساری کی ساری معیشت ایک ایک پائی کے حساب کتاب سے چلتی ہے اور تمام آمدن اور اخراجات تحریر میں لائے جاتے ہیں لین دین کے سارے معاملات تحریراً ہوتے ہیں اور جہاں جہاں ٹیکس نافذ ہوتا ہے وہ دولت مند حضرات وخواتین خوشی خوشی نہ سہی لیکن باقاعدگی سے ادائیگی کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان ملکوں کے مروجہ قوانین کے مطابق کاروبار زندگی مال حرام کے بجائے مال حلال سے چلتا ہے اور معاشرتی سکون اور استحکام قائم رہتا ہے۔
ہمارے ہاں کل تک گلیوں محلوں میں چھوٹی موٹی بدمعاشیاں کرنے والے چوری چکاریوں کیلیے جانے پہچانے ہوئے لوگ ، ایک دوسرے کے خلاف ہلڑ بازیوں، لڑائیوں اور دنگا فسادیوںکیلیے مشہور لوگ دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گئے ہیں اور اب تو کروڑ پتی ہونا گھاٹے کا سودا شمار ہونے لگا ہے کیونکہ ارب پتی بننا ان لوگوں کے لیے جو پاکستان کے اندر بظاہر کامیاب زندگی گذارنے کا گُر جانتے ہیں نہایت آسان ہوگیا ہے کسی زمانے میں کسی نے کیا خوب کہا تھا۔
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
وہ ماں باپ جو ظلم، زیادتی، دھونس دھاندلی اور رشوت خوری سے کمائی ہوئی دولت کے ذریعے بچے پالتے ہیں ان سے اچھائی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ قاری نصیر کی قسمت دغا دے گئی وگرنہ وہ ساری عمر کبھی بے نقاب نہ ہوتا کیونکہ اس قماش کے لاتعداد افراد پکڑے نہ جانے کی وجہ سے باعزت طور پر اب بھی دندناتے پھرتے ہیں اور لوگوں کی عزتوں کے ساتھ کھیلنے کے شغل میں مشغول رہتے ہیں۔یہ انھی انفرادی سطح پر کرتوتوں کا نتیجہ ہے کہ اجتماعی سطح پر لوگوں کو ذبح کرنے کے بعد کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلا جاتا ہے۔ پولیو ٹیکے لگانے سے اور بچیوں کی تعلیم سے خرابی کا خطرہ ہے۔
آزادی نسواں پر آواز اٹھانا معاشرتی انتشار بن جاتا ہے ایسا کیوں ہے۔ایسا صرف اس لیے ہے کہ ایسا شخص عورت سے ہمہ وقت خوف زدہ رہتا ہے، وہ عورت کو سانس لیتی ہوئی لاش سے زیادہ اہمیت دینے سے گریزاں رہتا ہے کیونکہ اس سے اسے اپنی اوقات ظاہر ہوجانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ نائیجیریا میں پچھلے دنوں وہاں کے دہشت گرد بھائیوں نے ایک اسکول سے تقریباً 250 بچیوں کو اغوا کرلیا ہے اور ایک خبر کے مطابق اب ان بچیوں کو شادی کے خواہش مند دہشت گرد بھائیوں کو نیلام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک اور خبر کے مطابق یہ اغوا انھوں نے اپنے قیدی ساتھیوں کو جیل سے چھڑانے کیلیے کیا ہے دروغ برگردنِ راوی۔
بہرحال اب پاکستان میں حکومت وقت کو چاہے کہ وہ مرکزی حکومت ہو یا صوبے کی حکومت بچیوں کے اسکولوں کی حفاظت کیلیے فوری طور پر موثر اقدامات اٹھا لیں کیونکہ نائیجیریا کے دہشت گرد بھائیوںکی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔مانسہرہ کے واقعے نے اس قماش کے لوگوں کو اور زیادہ دیدہ دلیری عطا کردی ہے۔ اس واقعے کی مذمت میں کسی مذہبی جماعت نے ایک لفظ تک نہیں کہا ، صرف مانسہرہ کے شہریوں نے اجتماعی ریلی نکالی اور قاری نصیر پر سیاہی اور گندے انڈے پھینک کر اپنی بھرپور نفرت کا اظہار کیا ۔ بعض سیاسی جماعتوں کے مقامی نمائندوں اور لیڈروں نے اس بہیمانہ واقعے کے خلاف احتجاج کیا۔کیا اس چھوٹے سے احتجاج سے معاملات درست ہو جائیں گے۔
خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین
پولیس نے تینوں ملزموں کو ساتھی لڑکی سمیت گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق مانسہرہ میں ایف ایس سی کی طالبہ مسماۃ (پ) آخری پرچہ دینے کے بعد امتحانی سینٹر سے باہر نکلی تو ساتھی طالبہ مسماۃ (الف) نے اسے گھر چھوڑنے کے بہانے گاڑی میں زبردستی بٹھا لیا اور دروازے لاک کردیے۔ گاڑی میں موجود قاری نصیر ، محمد فیضان عرف فیضی اور حسین نے کالے شیشوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اور اس دوران گاڑی کو مختلف سڑکوں پر دوڑاتے رہے۔ پولیس نے چاروں ملزموں کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا ہے جنھیں 24 گھنٹے حراست کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا۔
لڑکی نے پولیس کو درخواست دیتے ہوئے بتایا کہ آخری پرچہ دینے کے بعد جب کالج سے باہر آئی تو اس کی ساتھی طالبہ نے کہا کہ میرے کزن کی گاڑی ہے آئو تمہیں گھر تک چھوڑ آتے ہیں اور مجھے گاڑی میں بٹھا کر اور گاڑی کے دروازے لاک کردیے اور میرے ساتھ زیادتی کرتے رہے۔ پولیس نے طالبہ کی درخواست پر چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے ملزمان کو گرفتار کرلیا جب کہ متاثرہ لڑکی کو طبی امداد کیلیے اسپتال منتقل کردیا گیا۔ خبر کے مطابق ملزموں کا تعلق مانسہرہ کے بااثر خاندانوں سے ہے۔ ملزم قاری نصیر مدرسے کا مہتم ہے ملزم حسین سابق ناظم یوسی جبوڈی کا بیٹا ہے اور تیسرا ملزم فیضان دونوں کا دوست ہے۔
ڈی سی او ڈاکٹر خرم رشید نے بتایا کہ ملزمہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث تھی اور اپنے ساتھیوں سے مل کر ایسی وارداتیں کرتی رہی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ملزموں نے میڈیا کے سامنے طالبہ سے چلتی گاڑی میں زیادتی کا اعتراف کرلیا ہے۔ ملزم قاری نصیر نے کہا ہے کہ جرم پر اتنا نادم ہوںکہ زندہ رہنا نہیں چاہتاـ''۔ہم بحیثیت قوم لاتعداد مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں اور حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں قوموں پر آرام اور آزمائشوں کی ابتلائیں آتی ہیں اور جو قومیں مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہوں وہ اِن ابتلائوں اور آزمائشوں سے سرخرو ہوکر نکل آتی ہیں۔
جن قوموں کی بنیاد کھوکھلی ہوں وہ قومیں ان آزمائشوں کے دوران حوصلہ اور ہمت کے فقدان کے باعث اخلاقی طور پر پستیوں کی عمیق گہرائیوں میں گر جاتی ہیں اور اپنی شناخت گنوا بیٹھتی ہیں۔ نو دولتیے کون لوگ ہوتے ہیں؟ آج ہمارے معاشرے کی شناخت نودولتیوں کی مرہون منت ہے۔ جو خاندان اس وقت نامی گرامی ہیں عرصہ چالیس پچاس سال پہلے بالکل عام سمجھے جاتے تھے ۔ فارسی میں ایک مثل مشہور ہے کہ ''مالِ حرام بُود و بجائے حرام رفت '' حرام کا مال تھا حرام کی جگہ خرچ ہوگیا۔
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں جو شخص بھی ارب پتی ہوتا ہے اس کی دولت کے حصول کے بارے میں ملک اور قوم کے ہر شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے ارب پتی بنا کیونکہ ساری کی ساری معیشت ایک ایک پائی کے حساب کتاب سے چلتی ہے اور تمام آمدن اور اخراجات تحریر میں لائے جاتے ہیں لین دین کے سارے معاملات تحریراً ہوتے ہیں اور جہاں جہاں ٹیکس نافذ ہوتا ہے وہ دولت مند حضرات وخواتین خوشی خوشی نہ سہی لیکن باقاعدگی سے ادائیگی کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان ملکوں کے مروجہ قوانین کے مطابق کاروبار زندگی مال حرام کے بجائے مال حلال سے چلتا ہے اور معاشرتی سکون اور استحکام قائم رہتا ہے۔
ہمارے ہاں کل تک گلیوں محلوں میں چھوٹی موٹی بدمعاشیاں کرنے والے چوری چکاریوں کیلیے جانے پہچانے ہوئے لوگ ، ایک دوسرے کے خلاف ہلڑ بازیوں، لڑائیوں اور دنگا فسادیوںکیلیے مشہور لوگ دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گئے ہیں اور اب تو کروڑ پتی ہونا گھاٹے کا سودا شمار ہونے لگا ہے کیونکہ ارب پتی بننا ان لوگوں کے لیے جو پاکستان کے اندر بظاہر کامیاب زندگی گذارنے کا گُر جانتے ہیں نہایت آسان ہوگیا ہے کسی زمانے میں کسی نے کیا خوب کہا تھا۔
کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے
ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
وہ ماں باپ جو ظلم، زیادتی، دھونس دھاندلی اور رشوت خوری سے کمائی ہوئی دولت کے ذریعے بچے پالتے ہیں ان سے اچھائی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ قاری نصیر کی قسمت دغا دے گئی وگرنہ وہ ساری عمر کبھی بے نقاب نہ ہوتا کیونکہ اس قماش کے لاتعداد افراد پکڑے نہ جانے کی وجہ سے باعزت طور پر اب بھی دندناتے پھرتے ہیں اور لوگوں کی عزتوں کے ساتھ کھیلنے کے شغل میں مشغول رہتے ہیں۔یہ انھی انفرادی سطح پر کرتوتوں کا نتیجہ ہے کہ اجتماعی سطح پر لوگوں کو ذبح کرنے کے بعد کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلا جاتا ہے۔ پولیو ٹیکے لگانے سے اور بچیوں کی تعلیم سے خرابی کا خطرہ ہے۔
آزادی نسواں پر آواز اٹھانا معاشرتی انتشار بن جاتا ہے ایسا کیوں ہے۔ایسا صرف اس لیے ہے کہ ایسا شخص عورت سے ہمہ وقت خوف زدہ رہتا ہے، وہ عورت کو سانس لیتی ہوئی لاش سے زیادہ اہمیت دینے سے گریزاں رہتا ہے کیونکہ اس سے اسے اپنی اوقات ظاہر ہوجانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ نائیجیریا میں پچھلے دنوں وہاں کے دہشت گرد بھائیوں نے ایک اسکول سے تقریباً 250 بچیوں کو اغوا کرلیا ہے اور ایک خبر کے مطابق اب ان بچیوں کو شادی کے خواہش مند دہشت گرد بھائیوں کو نیلام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک اور خبر کے مطابق یہ اغوا انھوں نے اپنے قیدی ساتھیوں کو جیل سے چھڑانے کیلیے کیا ہے دروغ برگردنِ راوی۔
بہرحال اب پاکستان میں حکومت وقت کو چاہے کہ وہ مرکزی حکومت ہو یا صوبے کی حکومت بچیوں کے اسکولوں کی حفاظت کیلیے فوری طور پر موثر اقدامات اٹھا لیں کیونکہ نائیجیریا کے دہشت گرد بھائیوںکی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔مانسہرہ کے واقعے نے اس قماش کے لوگوں کو اور زیادہ دیدہ دلیری عطا کردی ہے۔ اس واقعے کی مذمت میں کسی مذہبی جماعت نے ایک لفظ تک نہیں کہا ، صرف مانسہرہ کے شہریوں نے اجتماعی ریلی نکالی اور قاری نصیر پر سیاہی اور گندے انڈے پھینک کر اپنی بھرپور نفرت کا اظہار کیا ۔ بعض سیاسی جماعتوں کے مقامی نمائندوں اور لیڈروں نے اس بہیمانہ واقعے کے خلاف احتجاج کیا۔کیا اس چھوٹے سے احتجاج سے معاملات درست ہو جائیں گے۔
خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین