سندھ میں ایم ڈی کیٹ کا پرچہ لینے کیلیے 19 نومبر کی تاریخ تجویز
ایم ڈی کیٹ کے چالیس ہزار سے زائد امیدواروں کے مستقبل کا معاملہ ہے، طلبا کو دوبارہ فیس ادا نہیں کرنی ہوگی، وزیر صحت
محکمہ صحت سندھ نے ایم ڈی کیٹ 2023 کے دوبارہ ٹیسٹ کے انعقاد کے لیے 19 نومبر کی تاریخ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تجویز کردی ہے۔
نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ اگر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ایم ڈی کیٹ کے پرچے میں نقل ملوث ہوئے تو ان کو معطل کیا جائے گا،جبکہ ایم ڈی کیٹ میں شرکت کرنے والے طلبہ سے دوبارہ فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کو کراچی پریس کلب میں میڈیا نمائندگان سے ایم ڈی کیٹ کے متعلق گفتگو کے دورن کیا۔
اس سلسلے میں نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ آج ایک اہم مسئلے سے متعلق عوام کو آگاہ کرنا ہے،ایم ڈی کیٹ کے متاثرہ امیدواروں اور والدین کی تعداد بہت بڑی ہے،معذرت کرتا ہوں کہ ہمیں کچھ مشکل فیصلے لینے پڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) 2023 کا پرچہ آؤٹ ہوا، کہاوت ہے کہ نقل کے لیئے بھی عقل چاہیے، جنہوں نے لیک پرچے سے فائدہ اٹھایا ان امیدواروں کے مارکس غیر معمولی ہیں، اس سلسلے میں انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس نے پرچہ آؤٹ ہونے کی تصدیق کی۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے نگراں وزیر اعلی سندھ کو سفارش کی کہ ایف آئی اے کو اس معاملے میں شامل کیا جائے،ایم ڈی کیٹ کے چالیس ہزار سے زائد امیدواروں کے مستقبل کا معاملہ ہے،اس میں بے ضابطگیاں میرٹ کے ساتھ زیادتی ہے، امیدواروں کا دوبارہ امتحان دینا زیادتی ہے لیکن باصلاحیت امیداواروں کا حق مارا جانا اس سے بھی بڑی زیادتی ہوگی،اس میں امیدواروں کو ذہنی کرب ضرور محسوس ہوگا، لیکن قابل امیدوار دوبارہ کامیاب ہوں گے۔
نگراں وزیرصحت نے کہا کہ ہم نے ڈاؤ یونیورسٹی کی تجویز کردہ تاریخ پر سفارش دی ہے کہ ایم ڈی کیٹ کا پرچہ 19 نومبر 2023 کو منعقد کروائیں جائیں، ہم نے یہ تاریخ پی ایم ڈی سی کو بھیج دی ہے،اس میں بچوں کو ذہنی طور پر تیاری کا وقت مل جائے گا،یہ افسوس کی بات ہے کہ اتنے اہم معاملے میں ہمارے معاشرے کا ضمیر گر چکا ہے،نقل کرنے والے بچوں نے خود پیسے نہیں دیئے بلکہ ان کے والدین بھی اس میں ملوث تھے، ممکنہ طور پر بہتر اقدامات کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ 40 ہزار سے زائد بچوں کا بیک وقت امتحان لینا آسان نہیں ہوتا، اس سلسلے میں علیحدہ امتحانی مراکز بنائیں گئے تھے، بس معاشرے کو پیغام دوں گا کہ ضمیر کو نظر انداز نہ کریں اور جذبہ حب الوطنی پیدا کریں تاکہ اس طرح کے منفی تصورات ذہن میں نہ آئیں، ایم ڈی کیٹ میں شرکت کرنے والے طلبہ سے دوبارہ فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
ڈاکٹر خالد سعد نے کہا کہ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ایم ڈی کیٹ کا امتحان ہونا نہیں چاہیے،میڈیکل کالجوں اور جامعات میں داخلے کے لیئے آسان طریقہ اختیار کرنا چاہیے، گزشتہ سال ایم ڈی کیٹ کے پرچے میں سات سوالات نصاب سے باہر کے تھے،وہ ایک ٹیکنیکل مسئلہ تھا، ہم نے شفافیت برقرار رکھنے کے لیے ایف آئی اے کی مدد طلب کی اور امتحانات بھی دوبارہ منعقد کروا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر جے ایس ایم یو کے وائس چانسلر پرچہ لیک کرنے میں ملوث ہوئے تو ان کو معطل کیا جائے گا، نگراں حکومت کو تھوڑا وقت دیجیے، میں اگر کاروائی نہیں کرسکا تو میں وزارت چھوڑنے کو بھی تیار ہوں، میں ان میں سے نہیں جو صرف باتیں کرتے ہیں، ایف آئی اے کی ساری تحقیقاتی معلومات میڈیا سے شیئر کریں گے،کیونکہ یہ بہت بڑا جرم ہے، ہمارے پاس ملوث افراد کے خلاف جو ثبوت ہیں وہ کسی مستند ادارے کی طرف سے نہیں ہیں۔
وزیرصحت نے کہا کہ اگر تصدیق ہوگئی تو یقیناً کارروائی کریں گے، مسائل پچاس سال کے ہیں حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، دو ماہ میں واضح بہتری نظر آئے گی،ہماری توجہ پہلے بنیادی طبی سہولیات فراہم کرنے پر ہونی چاہیے، اگر اسپتالوں میں سہولیات مہیا نہیں کرسکتے تو پھر ان کو بے ضابطگیوں کی سزا بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔
انہوں نے بتایا کہ قومی ادارہ صحت برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کی سمری 6 ماہ قبل گئی تھی،آئندہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں قومی ادارہ صحت برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، سابق وزراء کچھ مخصوص اداروں کو ان کی خدمات کے لیے سراہتے ہوں گے جن میں ایس آئی یو ٹی،انڈس اسپتال سمیت ایسے ادارے شامل ہیں جو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چل رہے ہیں اور ان کے کامیابی کے پیچے بھی سندھ حکومت کی سپورٹ ہے۔
نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ اگر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ایم ڈی کیٹ کے پرچے میں نقل ملوث ہوئے تو ان کو معطل کیا جائے گا،جبکہ ایم ڈی کیٹ میں شرکت کرنے والے طلبہ سے دوبارہ فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کو کراچی پریس کلب میں میڈیا نمائندگان سے ایم ڈی کیٹ کے متعلق گفتگو کے دورن کیا۔
اس سلسلے میں نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ آج ایک اہم مسئلے سے متعلق عوام کو آگاہ کرنا ہے،ایم ڈی کیٹ کے متاثرہ امیدواروں اور والدین کی تعداد بہت بڑی ہے،معذرت کرتا ہوں کہ ہمیں کچھ مشکل فیصلے لینے پڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) 2023 کا پرچہ آؤٹ ہوا، کہاوت ہے کہ نقل کے لیئے بھی عقل چاہیے، جنہوں نے لیک پرچے سے فائدہ اٹھایا ان امیدواروں کے مارکس غیر معمولی ہیں، اس سلسلے میں انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس نے پرچہ آؤٹ ہونے کی تصدیق کی۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے نگراں وزیر اعلی سندھ کو سفارش کی کہ ایف آئی اے کو اس معاملے میں شامل کیا جائے،ایم ڈی کیٹ کے چالیس ہزار سے زائد امیدواروں کے مستقبل کا معاملہ ہے،اس میں بے ضابطگیاں میرٹ کے ساتھ زیادتی ہے، امیدواروں کا دوبارہ امتحان دینا زیادتی ہے لیکن باصلاحیت امیداواروں کا حق مارا جانا اس سے بھی بڑی زیادتی ہوگی،اس میں امیدواروں کو ذہنی کرب ضرور محسوس ہوگا، لیکن قابل امیدوار دوبارہ کامیاب ہوں گے۔
نگراں وزیرصحت نے کہا کہ ہم نے ڈاؤ یونیورسٹی کی تجویز کردہ تاریخ پر سفارش دی ہے کہ ایم ڈی کیٹ کا پرچہ 19 نومبر 2023 کو منعقد کروائیں جائیں، ہم نے یہ تاریخ پی ایم ڈی سی کو بھیج دی ہے،اس میں بچوں کو ذہنی طور پر تیاری کا وقت مل جائے گا،یہ افسوس کی بات ہے کہ اتنے اہم معاملے میں ہمارے معاشرے کا ضمیر گر چکا ہے،نقل کرنے والے بچوں نے خود پیسے نہیں دیئے بلکہ ان کے والدین بھی اس میں ملوث تھے، ممکنہ طور پر بہتر اقدامات کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ 40 ہزار سے زائد بچوں کا بیک وقت امتحان لینا آسان نہیں ہوتا، اس سلسلے میں علیحدہ امتحانی مراکز بنائیں گئے تھے، بس معاشرے کو پیغام دوں گا کہ ضمیر کو نظر انداز نہ کریں اور جذبہ حب الوطنی پیدا کریں تاکہ اس طرح کے منفی تصورات ذہن میں نہ آئیں، ایم ڈی کیٹ میں شرکت کرنے والے طلبہ سے دوبارہ فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
ڈاکٹر خالد سعد نے کہا کہ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ایم ڈی کیٹ کا امتحان ہونا نہیں چاہیے،میڈیکل کالجوں اور جامعات میں داخلے کے لیئے آسان طریقہ اختیار کرنا چاہیے، گزشتہ سال ایم ڈی کیٹ کے پرچے میں سات سوالات نصاب سے باہر کے تھے،وہ ایک ٹیکنیکل مسئلہ تھا، ہم نے شفافیت برقرار رکھنے کے لیے ایف آئی اے کی مدد طلب کی اور امتحانات بھی دوبارہ منعقد کروا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر جے ایس ایم یو کے وائس چانسلر پرچہ لیک کرنے میں ملوث ہوئے تو ان کو معطل کیا جائے گا، نگراں حکومت کو تھوڑا وقت دیجیے، میں اگر کاروائی نہیں کرسکا تو میں وزارت چھوڑنے کو بھی تیار ہوں، میں ان میں سے نہیں جو صرف باتیں کرتے ہیں، ایف آئی اے کی ساری تحقیقاتی معلومات میڈیا سے شیئر کریں گے،کیونکہ یہ بہت بڑا جرم ہے، ہمارے پاس ملوث افراد کے خلاف جو ثبوت ہیں وہ کسی مستند ادارے کی طرف سے نہیں ہیں۔
وزیرصحت نے کہا کہ اگر تصدیق ہوگئی تو یقیناً کارروائی کریں گے، مسائل پچاس سال کے ہیں حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، دو ماہ میں واضح بہتری نظر آئے گی،ہماری توجہ پہلے بنیادی طبی سہولیات فراہم کرنے پر ہونی چاہیے، اگر اسپتالوں میں سہولیات مہیا نہیں کرسکتے تو پھر ان کو بے ضابطگیوں کی سزا بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔
انہوں نے بتایا کہ قومی ادارہ صحت برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کی سمری 6 ماہ قبل گئی تھی،آئندہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں قومی ادارہ صحت برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، سابق وزراء کچھ مخصوص اداروں کو ان کی خدمات کے لیے سراہتے ہوں گے جن میں ایس آئی یو ٹی،انڈس اسپتال سمیت ایسے ادارے شامل ہیں جو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چل رہے ہیں اور ان کے کامیابی کے پیچے بھی سندھ حکومت کی سپورٹ ہے۔