غزہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال
اس لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان غزہ میں رہنے والے عام فلسطینی شہریوں کا ہورہا ہے
اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی کی وجہ سے غزہ شہر کے حالات انتہائی مخدوش ہوچکے ہیں۔
فریقین تاحال حالت جنگ میں ہیں، اس لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان غزہ میں رہنے والے عام فلسطینی شہریوں کا ہورہا ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ خالی کرنے کا الٹی میٹم دے دیا ہے اور اس کی فوجیں اور ائرفورس سرحدوں پر تیار ہے، کئی بار اسرائیلی ٹینک غزہ میں داخل بھی ہوچکے ہیں۔
ادھر روس کے صدر ویلادی میر پیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے زمینی حملے کے نتیجے میں عام شہریوں کا جانی نقصان 'بالکل ناقابل قبول' ہوگا، انھوں نے فوری جنگ بندی اور زمینی صورت حال بہتر کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کا مطالبہ کیا، صدرپیوٹن نے واضع کیا کہ موجودہ بحران مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی کی ناکامی کا نتیجہ ہے، ان نے جنگ بندی کے لیے ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔
شمالی کوریا نے بھی فلسطین کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے غزہ میں خون ریزی کا ذمے دار اسرائیل کو قرار دے دیا،شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ غزہ میں ہونے والی لڑائی اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف مسلسل زیادتیوں کی وجہ سے ہے۔
دنیا بھر میں اسرائیلی حملوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ پاکستان میں بھی گزشتہ روز فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کیے گئے ۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں فلسطینیوں کے حق میں اسرائیلی قونصلیٹ تک مارچ کیا گیا، جنوبی افریقہ کے شہروں جوہانسبرگ اور کیپ ٹاون میں بھی اسرائیلی حملوں کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں۔یوں اسرائیلی حکومت پر عالمی رائے عامہ کا دباؤ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اسرائیلی فوج نے الٹی میٹم دیا ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر تمام شہری شمالی غزہ چھوڑ کر جنوبی غزہ چلے جائیں، عالمی میڈیا کے مطابق اس الٹی میٹم کے بعد شہریوں نے ہجرت شروع کردی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ اسرائیلی ٹینک غزہ کی حدود میں داخل ہوئے ہیں، تاہم وہ واپس چلے گئے، ادھرحماس نے اعلان کیا ہے کہ شمالی غزہ سے نقل مکانی کا انتباہ 'جعلی پروپیگنڈا' ہے لہٰذا شہری اس کا شکار نہ ہوں، اس جنگ میں دونوں جانب بھاری جانی نقصان ہورہا ہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ 'تباہ کن انسانی نتائج کے بغیر'شمالی غزہ سے شہریوں کی نقل مکانی ناممکن ہے،اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے اے ایف پی کو بتایا کہ اگر اس کی الٹی میٹم کی تصدیق ہوتی ہے تو اقوام متحدہ اسے واپس لینے کا پرزور مطالبہ کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کا ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) پہلے ہی خبردار کرچکا ہے کہ غزہ میں خوراک اور تازہ پانی خطرناک حد تک کم ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدری کی ایجنسی (او سی ایچ اے) کی دو روز قبل کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں بے گھر افراد کی تعداد 4 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ایجنسی نے 29 کروڑ 40 لاکھ ڈالر امداد کی اپیل بھی کررکھی ہے تاکہ غزہ اور مغربی کنارے میں تقریباً 13 لاکھ افراد کی مدد کی جاسکے۔
فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ اگر وہ زمینی راستے سے غزہ میں داخل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو ہم مکمل طور پر تیار ہیں، القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے گزشتہ روز کہا کہ زمینی راستے سے غزہ میں داخل ہونے کی صورت میں اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچانے کے لیے ہم نئے آپشنز اختیار کریں گے۔ حماس نے اسرائیل کے ساتھ اعلان جنگ کررکھا، لبنان کی حزب اﷲ اور شام بھی اس جنگ میں حماس کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔
یوں یہ جنگ پھیلنے کا خطرہ ہے اور اس کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصان بھی بڑھے گا، اطلاعات ہیں کہ اسرائیل کی فوج الرٹ حالت میں ہے، ٹینک اور بھاری فوجی سازوسامان بھی غزہ کی سرحد پر پہنچا دیا گیا ہے۔ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ جنگ مغربی کنارے تک بھی پھیل سکتی ہے۔
امریکا اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں۔جب کہ مسلم ممالک کا ردعمل محتاط ہے۔سب سے زیادہ مشکل میں غزہ کے شہری ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق غزہ کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی پہلے ہی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ غزہ کے شہری خوراک، پانی اور ضروری اشیاء کی قلت کا شکار ہیں۔
مسلم ممالک نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں موجود اس سب سے بڑے تنازعے کے حل میں آگے بڑھے اور دو ریاستی کے فارمولے پر عملدرآمد کرائے۔ پاکستان نے بھی فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے اور بیت المقدس کو فلسطینیوں کے حوالے کرنے کے اپنے موقف کو دہرایا۔ تقریباً تمام مسلم ممالک اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے چھینے گئے علاقے واپس فلسطین کو دینے کے حق میں ہیں۔
کچھ امن پسند مغربی، افریقی اور ایشیائی ممالک بھی اس حل کے حق میں ہیں، مگر یورپ اور امریکا اپنی اسرائیل لابی کی وجہ سے اس حل کی طرف آنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ جب یہ مسئلہ عالمگیر حیثیت اختیار کرچکا ہے تو اس کا حل بھی ایسا تلاش کیا جانا چاہیے جو فلسطین اورمسلم امہ کو قابل قبول ہو، اگر اس سے ہٹ کر کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ دیرپا حل نہیں ہوگا۔
حماس اور اسرائیل کی حالیہ جنگ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حماس کے بغیر تنازعہ فلسطین کا حل ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل غزہ میں جو کچھ کررہا ہے ، اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ فلسطین کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے کثیرالجہتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ امریکا اسرائیل کے ساتھ کھڑاہے، مغربی یورپ بھی اسرائیل کے ساتھ ہے۔
اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ فلسطینیوں پر اپنی مرضی کا حل ٹھونس دے، اس لیے وہ طاقت استمعال کررہا ہے تاکہ کوئی فلسطینی تنظیم اس قابل نہ رہے کہ اسرائیلی حل کے خلاف کوئی آواز اٹھاسکے۔ فلسطینی اپنی مظلومیت کی داستان غم سنا رہے ہیں، بظاہر کوئی انصاف پسند ایسا نہیں ہے، جو ان کی روداد الم سنے اور داد رسی کرے۔ اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری، مادی وسائل کی قلت کے باوجود وہ آج تک اسرائیلی طاقت سے نبرد آزما ہیں۔
امریکا اور مغربی ممالک فلسطینیوںاس جائز حق کی بحالی کے لیے سنجیدگی کیوں اختیار نہیں کر رہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں فلسطینی مہاجرین اور فلسطین کے اندر اسرائیل کی بار بار جارحیت کا نشانہ بننے والے مظلوم فلسطینی انھیں دکھائی کیوں نہیں دے رہے؟
عالم اسلام اور عرب ممالک میں بھی کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ یوں لگتا ہے جیسے عالم عرب اور مسلم امہ نے بھی حماس کو اسرائیل کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ م ارض فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، شام کے علاقے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل قبضہ کرکے اسے اپنا علاقہ قرار دے چکا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے اسباب معیشت کو تباہ و برباد کررہا ہے۔
فلسطین کے علاقوں پر مسلسل قبضہ جماتے ہوئے یہودیوں کو بسایا جارہا ہے، غزہ پر فضائی حملے اسرائیل کی جارحیت کا زندہ ثبوت ہیں۔ مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کے لیے فلسطینیوں کے مکانات مسمار کیے جارہے ہیں۔ اسرائیل کو امریکا کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، اہم امر یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اپنے خلاف ہونے والی دہشت گردی پر احتجاج کا حق بھی حاصل نہیں۔
مشرق وسطیٰ ایک ایسا خطہ ہے جہاں کئی طاقتوں کے مفادات کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اس جنگ کا خمیازہ فلسطینی عوام تو بھگت ہی رہے ہیں، ان کے ساتھ ساتھ شام، لبنان، یمن اور عراق کے عوام بھی جنگ کا شکار ہو کر غربت کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ غزہ میں جو جنگ جاری ہے، اس کا سارے کا سارا نقصان غزہ میں بسنے والے عام فلسطینیوں کا ہو رہا ہے۔ حماس کے گوریلے لڑ رہے ہیں، حزب اللہ بھی ایک گروپ ہے، اس کے لوگ بھی حماس کا ساتھ دے رہے ہیں جب کہ شام بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔
ادھر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس انتہائی مشکل میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ وہ حماس کی بھی حمایت نہیں کرتے لیکن فلسطینیوں کی بربادی پر خاموش بھی نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح ترکی، مصر اور خلیجی عرب ممالک بھی حماس کے حق میں نہیں ہیں۔ ایران کھل کر حماس کی حمایت کر رہا ہے۔ اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس کے بارے میں اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ غزہ کے پاس نہ کوئی بڑی فوج ہے، نہ فضائیہ ہے اور نہ ہی ٹینک۔ اسرائیل کی دفاعی طاقت کہیں زیادہ ہے۔
فریقین تاحال حالت جنگ میں ہیں، اس لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان غزہ میں رہنے والے عام فلسطینی شہریوں کا ہورہا ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ خالی کرنے کا الٹی میٹم دے دیا ہے اور اس کی فوجیں اور ائرفورس سرحدوں پر تیار ہے، کئی بار اسرائیلی ٹینک غزہ میں داخل بھی ہوچکے ہیں۔
ادھر روس کے صدر ویلادی میر پیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے زمینی حملے کے نتیجے میں عام شہریوں کا جانی نقصان 'بالکل ناقابل قبول' ہوگا، انھوں نے فوری جنگ بندی اور زمینی صورت حال بہتر کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کا مطالبہ کیا، صدرپیوٹن نے واضع کیا کہ موجودہ بحران مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی کی ناکامی کا نتیجہ ہے، ان نے جنگ بندی کے لیے ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔
شمالی کوریا نے بھی فلسطین کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے غزہ میں خون ریزی کا ذمے دار اسرائیل کو قرار دے دیا،شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ غزہ میں ہونے والی لڑائی اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف مسلسل زیادتیوں کی وجہ سے ہے۔
دنیا بھر میں اسرائیلی حملوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ پاکستان میں بھی گزشتہ روز فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کیے گئے ۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں فلسطینیوں کے حق میں اسرائیلی قونصلیٹ تک مارچ کیا گیا، جنوبی افریقہ کے شہروں جوہانسبرگ اور کیپ ٹاون میں بھی اسرائیلی حملوں کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں۔یوں اسرائیلی حکومت پر عالمی رائے عامہ کا دباؤ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اسرائیلی فوج نے الٹی میٹم دیا ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر تمام شہری شمالی غزہ چھوڑ کر جنوبی غزہ چلے جائیں، عالمی میڈیا کے مطابق اس الٹی میٹم کے بعد شہریوں نے ہجرت شروع کردی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ اسرائیلی ٹینک غزہ کی حدود میں داخل ہوئے ہیں، تاہم وہ واپس چلے گئے، ادھرحماس نے اعلان کیا ہے کہ شمالی غزہ سے نقل مکانی کا انتباہ 'جعلی پروپیگنڈا' ہے لہٰذا شہری اس کا شکار نہ ہوں، اس جنگ میں دونوں جانب بھاری جانی نقصان ہورہا ہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ 'تباہ کن انسانی نتائج کے بغیر'شمالی غزہ سے شہریوں کی نقل مکانی ناممکن ہے،اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے اے ایف پی کو بتایا کہ اگر اس کی الٹی میٹم کی تصدیق ہوتی ہے تو اقوام متحدہ اسے واپس لینے کا پرزور مطالبہ کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کا ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) پہلے ہی خبردار کرچکا ہے کہ غزہ میں خوراک اور تازہ پانی خطرناک حد تک کم ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدری کی ایجنسی (او سی ایچ اے) کی دو روز قبل کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں بے گھر افراد کی تعداد 4 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ایجنسی نے 29 کروڑ 40 لاکھ ڈالر امداد کی اپیل بھی کررکھی ہے تاکہ غزہ اور مغربی کنارے میں تقریباً 13 لاکھ افراد کی مدد کی جاسکے۔
فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ اگر وہ زمینی راستے سے غزہ میں داخل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو ہم مکمل طور پر تیار ہیں، القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے گزشتہ روز کہا کہ زمینی راستے سے غزہ میں داخل ہونے کی صورت میں اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچانے کے لیے ہم نئے آپشنز اختیار کریں گے۔ حماس نے اسرائیل کے ساتھ اعلان جنگ کررکھا، لبنان کی حزب اﷲ اور شام بھی اس جنگ میں حماس کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔
یوں یہ جنگ پھیلنے کا خطرہ ہے اور اس کے نتیجے میں جانی اور مالی نقصان بھی بڑھے گا، اطلاعات ہیں کہ اسرائیل کی فوج الرٹ حالت میں ہے، ٹینک اور بھاری فوجی سازوسامان بھی غزہ کی سرحد پر پہنچا دیا گیا ہے۔ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ یہ جنگ مغربی کنارے تک بھی پھیل سکتی ہے۔
امریکا اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں۔جب کہ مسلم ممالک کا ردعمل محتاط ہے۔سب سے زیادہ مشکل میں غزہ کے شہری ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق غزہ کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی پہلے ہی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ غزہ کے شہری خوراک، پانی اور ضروری اشیاء کی قلت کا شکار ہیں۔
مسلم ممالک نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں موجود اس سب سے بڑے تنازعے کے حل میں آگے بڑھے اور دو ریاستی کے فارمولے پر عملدرآمد کرائے۔ پاکستان نے بھی فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے اور بیت المقدس کو فلسطینیوں کے حوالے کرنے کے اپنے موقف کو دہرایا۔ تقریباً تمام مسلم ممالک اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے چھینے گئے علاقے واپس فلسطین کو دینے کے حق میں ہیں۔
کچھ امن پسند مغربی، افریقی اور ایشیائی ممالک بھی اس حل کے حق میں ہیں، مگر یورپ اور امریکا اپنی اسرائیل لابی کی وجہ سے اس حل کی طرف آنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ جب یہ مسئلہ عالمگیر حیثیت اختیار کرچکا ہے تو اس کا حل بھی ایسا تلاش کیا جانا چاہیے جو فلسطین اورمسلم امہ کو قابل قبول ہو، اگر اس سے ہٹ کر کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ دیرپا حل نہیں ہوگا۔
حماس اور اسرائیل کی حالیہ جنگ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حماس کے بغیر تنازعہ فلسطین کا حل ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل غزہ میں جو کچھ کررہا ہے ، اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ فلسطین کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے کثیرالجہتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ امریکا اسرائیل کے ساتھ کھڑاہے، مغربی یورپ بھی اسرائیل کے ساتھ ہے۔
اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ فلسطینیوں پر اپنی مرضی کا حل ٹھونس دے، اس لیے وہ طاقت استمعال کررہا ہے تاکہ کوئی فلسطینی تنظیم اس قابل نہ رہے کہ اسرائیلی حل کے خلاف کوئی آواز اٹھاسکے۔ فلسطینی اپنی مظلومیت کی داستان غم سنا رہے ہیں، بظاہر کوئی انصاف پسند ایسا نہیں ہے، جو ان کی روداد الم سنے اور داد رسی کرے۔ اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری، مادی وسائل کی قلت کے باوجود وہ آج تک اسرائیلی طاقت سے نبرد آزما ہیں۔
امریکا اور مغربی ممالک فلسطینیوںاس جائز حق کی بحالی کے لیے سنجیدگی کیوں اختیار نہیں کر رہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں فلسطینی مہاجرین اور فلسطین کے اندر اسرائیل کی بار بار جارحیت کا نشانہ بننے والے مظلوم فلسطینی انھیں دکھائی کیوں نہیں دے رہے؟
عالم اسلام اور عرب ممالک میں بھی کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ یوں لگتا ہے جیسے عالم عرب اور مسلم امہ نے بھی حماس کو اسرائیل کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ م ارض فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، شام کے علاقے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل قبضہ کرکے اسے اپنا علاقہ قرار دے چکا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے اسباب معیشت کو تباہ و برباد کررہا ہے۔
فلسطین کے علاقوں پر مسلسل قبضہ جماتے ہوئے یہودیوں کو بسایا جارہا ہے، غزہ پر فضائی حملے اسرائیل کی جارحیت کا زندہ ثبوت ہیں۔ مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کے لیے فلسطینیوں کے مکانات مسمار کیے جارہے ہیں۔ اسرائیل کو امریکا کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، اہم امر یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اپنے خلاف ہونے والی دہشت گردی پر احتجاج کا حق بھی حاصل نہیں۔
مشرق وسطیٰ ایک ایسا خطہ ہے جہاں کئی طاقتوں کے مفادات کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اس جنگ کا خمیازہ فلسطینی عوام تو بھگت ہی رہے ہیں، ان کے ساتھ ساتھ شام، لبنان، یمن اور عراق کے عوام بھی جنگ کا شکار ہو کر غربت کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ غزہ میں جو جنگ جاری ہے، اس کا سارے کا سارا نقصان غزہ میں بسنے والے عام فلسطینیوں کا ہو رہا ہے۔ حماس کے گوریلے لڑ رہے ہیں، حزب اللہ بھی ایک گروپ ہے، اس کے لوگ بھی حماس کا ساتھ دے رہے ہیں جب کہ شام بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔
ادھر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس انتہائی مشکل میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ وہ حماس کی بھی حمایت نہیں کرتے لیکن فلسطینیوں کی بربادی پر خاموش بھی نہیں رہ سکتے۔ اسی طرح ترکی، مصر اور خلیجی عرب ممالک بھی حماس کے حق میں نہیں ہیں۔ ایران کھل کر حماس کی حمایت کر رہا ہے۔ اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس کے بارے میں اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ غزہ کے پاس نہ کوئی بڑی فوج ہے، نہ فضائیہ ہے اور نہ ہی ٹینک۔ اسرائیل کی دفاعی طاقت کہیں زیادہ ہے۔