آئین شکن اور آئین ساز کے درمیان اکتوبر
عوام کے جمہوری حقوق کے حفاظت کی داعی سیاسی جماعتیں عوام کے آئینی حقوق کو با وقار بنا پائیں گی
پاکستان کی عدالتی تاریخ کا سچ ہے جس کو روندنے اور آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے کے لیے آمر جنرل ایوب کا ساتھ جسٹس منیر سے لے کر دیگر جسٹسز نے بھی کسی نہ کسی حیثیت میں دیا اور آئین و قانون کی بالادستی کے لیے کام کرنے والے جسٹس کارنیلوس اور جسٹس مولوی تمیز الدین کو مارشل لا نافذ کرنے والے آمروں نے نہ صرف تعزیر کا نشانہ بنایا بلکہ عدالتی تاریخ میں اپنے من پسند افراد کے ذریعے ''نظریہ ضرورت'' کے مفاداتی اقدامات کو جمہوریت کے مقابلے میں غیر آئینی وغیر قانونی اقتدار کے تحت کروڑوںافراد کے انسانی و جمہوری حقوق کو اپنی طاقت تلے روندا، ظلم اور جبر کے ان سیاہ دنوں نے ملک کا سیاسی سماجی اور معاشی نظام تہس نہس کیا اور ''طاقت اور ضد'' کے نظام کو فروغ دیا جس کی وجہ سے عوام کے ذہنوں میں Might is Right کے فلسفے کوپروان چڑھایا، جس نے سماج کی بنیادی اخلاقی اور سیاسی قدروں کو پامال کرکے دولت کمانے کے ہر اس حربے کو استعمال کیا جسے عرف عام میں''کرپشن'' کہا جاتا ہے۔
سماج میں اقربا پروری اور سیاسی و جمہوری تاریخ سے عوام کو دور رکھنے کی ہر نصابی کوشش کی،جس کے نتیجے میں ایسی نسل پروان چڑھی ،جس کا اوڑھنا بچھونا ہر ناجائز طریقے سے پیسہ کمانا شعار بنا دیا گیا ہے۔
مجھ سمیت میری صحافتی برادری کے وہ دوست جوشہری و جمہوری آزادیوں کے دفاع کے لیے ہمیشہ اصولی موقف اپنانے والوں کے ساتھ رہے، ان میں میرے عزیز دوست صحافی دوست مطیع اللہ جان اور صحافیوں کے لیے باوقار نام منہاج برنا کی سوچ وفکر آج تک ملک میں غاصبانہ قبضے کے خلاف بے سکون ہی ہے اور نجانے کب تک رہے؟
آج بھی منہاج برنا کے اشعار پر محیط کتاب''مرثیہ چوتھے ستون کا'' کے اوراق گواہ ہیں کہ صحافتی رہنما منہاج برنا اور صحافیوں کی تنظیمیں ہمیشہ عوام کی شہری آزادی اور جمہوری حقوق دلانے کی جدوجہد میں شریک رہیں اور جب جب ملک میں مارشل لائی قوتوں نے سماج کے افراد کی شہری و جمہوری آزادی کو تہہ تیغ کرنے کی کوشش کی تو ملک کے صحافی یک آواز ہوکر جمہوریت کی بقا کی خاطر سڑکوں پر عوام کے قدم بہ قدم ساتھ رہے اور تمامتر مارشل لائی جبر اور فسطائیت کا خم ٹھوک کر مقابلہ کیا،ملک کے عوام اور جمہوری قوتیں بھلا کیسے 12اکتوبر1999 کے غیر جمہوری اور آمر کے آئین شکن قدم کو بھول سکتی ہیں،یہ ملکی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جب ایک منتخب وزیراعظم کو بندوق کی نوک پر اقتدار سے معزول کیا گیا تھا،اور رات کی تاریکی میں اس ملک پر آئین شکنی کرکے مارشل لا کا نفاذ کیا گیا تھا۔
12اکتوبر کے غیر آئینی اقدامات کو سیاسی جماعتوں بطور خاص مسلم لیگ ن نے ان تاریخی حقائق کے ساتھ نئی نسل کے سامنے نہ رکھا جس کی ضرورت تھی، جنرل مشرف کے اس آئین شکن عمل کو نئی نسل کے سامنے وضاحت سے نہ رکھنے میں مسلم لیگ ن کی کیا مصلحت پسندی کار فرما ہے، اس کا جواب مسلم لیگ ن ہی تاریخ کو دے گی،مگر یہ طے ہے کہ کسی بھی غیر آئینی اقدامات اور اس کے حقائق عوام سے چھپائے نہیں جا سکتے، اس ضمن میں میرا اتفاق مطیع اللہ کے اس نکتہ نظر سے ضرور ہے کہ، جس میں مطیع نے اس کی سیاسی ذمے داری مسلم لیگ ن پر رکھی ہے، پاکستان میں سیاسی پیراڈائم کی تبدیلی کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ تمام تر غیر آئینی حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں اور اس میں کسی بھی قسم کی سیاسی مصلحت یا مفاد کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔
جہاں تک یہ استدلال کہ آئین اور پارلیمان ہی ملک کے سیاسی و معاشی معاملات کو درست رکھنے کا واحد ذریعہ ہے ،تو اس سے اختلاف کرنا موجودہ سیاسی حالات میں ممکن نہیں،جس اکتوبر کو آئین شکنی کے لیے جنرل مشرف نے استعمال کیا، اسی اکتوبر میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے پارلیمان کی سپرمیسی کے حوالے سے پریکٹس آف پروسیجر ایکٹ کو عین آئینی قرار دے کر سیاسی جماعتوں کی وہ مدد کی ہے جو انھیں پچھلے 76 برس میں حاصل نہ ہو سکی ہے۔
اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے تمامتر مفاد پرستی اقدامات کے باوجود ملک کی سیاسی جماعتیں آمروں کے آئین شکنی اقدامات کا وہ موثر جواب نہ دے سکی ہیں جو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حالیہ فیصلے نے دے دیا ہے،اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اب تک اقتدار حاصل کرنے کی ایسی کوشش میں مصروف رہی ہیں جن کی روشنی میں عوام کے جمہوری حقوق حاصل کرنے کی جستجو اب تک ایک سوالیہ نشان ہے۔
اس پورے سیاسی اور آئینی پس منظر میں یہ کہنا دشوار نہیں ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور جمہوری طرز عمل کے مطابق آئین کی بالادستی کو قائم کرنے کا سوال کسی حد تک اپنی بساط کے مطابق حل کر لیا ہے مگر سوال اب بھی سیاسی جماعتوں کے مفاد پرستانہ عمل کا ہے کہ جنھوں نے اب تک ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اب تک جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے سوال پر ایک عجیب الجھن اور کشمکش کا شکار ہیں اور عوام کو کوئی واضح موقف دینے میں یکسر ناکام ہیں۔
تو کیوں... سوال تو یہ بھی ہے کہ عوام کے جمہوری حقوق کے حفاظت کی داعی سیاسی جماعتیں عوام کے آئینی حقوق کو با وقار بنا پائیں گی یا پھر اقتداری مفاد پرستی کا شکار ہو جائیں گی ۔
سماج میں اقربا پروری اور سیاسی و جمہوری تاریخ سے عوام کو دور رکھنے کی ہر نصابی کوشش کی،جس کے نتیجے میں ایسی نسل پروان چڑھی ،جس کا اوڑھنا بچھونا ہر ناجائز طریقے سے پیسہ کمانا شعار بنا دیا گیا ہے۔
مجھ سمیت میری صحافتی برادری کے وہ دوست جوشہری و جمہوری آزادیوں کے دفاع کے لیے ہمیشہ اصولی موقف اپنانے والوں کے ساتھ رہے، ان میں میرے عزیز دوست صحافی دوست مطیع اللہ جان اور صحافیوں کے لیے باوقار نام منہاج برنا کی سوچ وفکر آج تک ملک میں غاصبانہ قبضے کے خلاف بے سکون ہی ہے اور نجانے کب تک رہے؟
آج بھی منہاج برنا کے اشعار پر محیط کتاب''مرثیہ چوتھے ستون کا'' کے اوراق گواہ ہیں کہ صحافتی رہنما منہاج برنا اور صحافیوں کی تنظیمیں ہمیشہ عوام کی شہری آزادی اور جمہوری حقوق دلانے کی جدوجہد میں شریک رہیں اور جب جب ملک میں مارشل لائی قوتوں نے سماج کے افراد کی شہری و جمہوری آزادی کو تہہ تیغ کرنے کی کوشش کی تو ملک کے صحافی یک آواز ہوکر جمہوریت کی بقا کی خاطر سڑکوں پر عوام کے قدم بہ قدم ساتھ رہے اور تمامتر مارشل لائی جبر اور فسطائیت کا خم ٹھوک کر مقابلہ کیا،ملک کے عوام اور جمہوری قوتیں بھلا کیسے 12اکتوبر1999 کے غیر جمہوری اور آمر کے آئین شکن قدم کو بھول سکتی ہیں،یہ ملکی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جب ایک منتخب وزیراعظم کو بندوق کی نوک پر اقتدار سے معزول کیا گیا تھا،اور رات کی تاریکی میں اس ملک پر آئین شکنی کرکے مارشل لا کا نفاذ کیا گیا تھا۔
12اکتوبر کے غیر آئینی اقدامات کو سیاسی جماعتوں بطور خاص مسلم لیگ ن نے ان تاریخی حقائق کے ساتھ نئی نسل کے سامنے نہ رکھا جس کی ضرورت تھی، جنرل مشرف کے اس آئین شکن عمل کو نئی نسل کے سامنے وضاحت سے نہ رکھنے میں مسلم لیگ ن کی کیا مصلحت پسندی کار فرما ہے، اس کا جواب مسلم لیگ ن ہی تاریخ کو دے گی،مگر یہ طے ہے کہ کسی بھی غیر آئینی اقدامات اور اس کے حقائق عوام سے چھپائے نہیں جا سکتے، اس ضمن میں میرا اتفاق مطیع اللہ کے اس نکتہ نظر سے ضرور ہے کہ، جس میں مطیع نے اس کی سیاسی ذمے داری مسلم لیگ ن پر رکھی ہے، پاکستان میں سیاسی پیراڈائم کی تبدیلی کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ تمام تر غیر آئینی حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں اور اس میں کسی بھی قسم کی سیاسی مصلحت یا مفاد کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔
جہاں تک یہ استدلال کہ آئین اور پارلیمان ہی ملک کے سیاسی و معاشی معاملات کو درست رکھنے کا واحد ذریعہ ہے ،تو اس سے اختلاف کرنا موجودہ سیاسی حالات میں ممکن نہیں،جس اکتوبر کو آئین شکنی کے لیے جنرل مشرف نے استعمال کیا، اسی اکتوبر میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے پارلیمان کی سپرمیسی کے حوالے سے پریکٹس آف پروسیجر ایکٹ کو عین آئینی قرار دے کر سیاسی جماعتوں کی وہ مدد کی ہے جو انھیں پچھلے 76 برس میں حاصل نہ ہو سکی ہے۔
اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے تمامتر مفاد پرستی اقدامات کے باوجود ملک کی سیاسی جماعتیں آمروں کے آئین شکنی اقدامات کا وہ موثر جواب نہ دے سکی ہیں جو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حالیہ فیصلے نے دے دیا ہے،اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اب تک اقتدار حاصل کرنے کی ایسی کوشش میں مصروف رہی ہیں جن کی روشنی میں عوام کے جمہوری حقوق حاصل کرنے کی جستجو اب تک ایک سوالیہ نشان ہے۔
اس پورے سیاسی اور آئینی پس منظر میں یہ کہنا دشوار نہیں ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور جمہوری طرز عمل کے مطابق آئین کی بالادستی کو قائم کرنے کا سوال کسی حد تک اپنی بساط کے مطابق حل کر لیا ہے مگر سوال اب بھی سیاسی جماعتوں کے مفاد پرستانہ عمل کا ہے کہ جنھوں نے اب تک ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اب تک جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے سوال پر ایک عجیب الجھن اور کشمکش کا شکار ہیں اور عوام کو کوئی واضح موقف دینے میں یکسر ناکام ہیں۔
تو کیوں... سوال تو یہ بھی ہے کہ عوام کے جمہوری حقوق کے حفاظت کی داعی سیاسی جماعتیں عوام کے آئینی حقوق کو با وقار بنا پائیں گی یا پھر اقتداری مفاد پرستی کا شکار ہو جائیں گی ۔