بھارت اور کینیڈا نئے دور میں

پرچار تو سب ہی کرتے ہیں کہ ہم بہت اچھے ہیں لیکن جن کی نیت اور اعمال کالے ہوں ان کے پول بھی جلد ہی کھل جاتے ہیں

بھارت اور کینیڈا کے درمیان تعلقات میں بات تشنگی سے بڑھ چکی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ مودی سرکار کی جذباتی تحریک نے ان کے امیج کو کسی پرانی فلم کی مانند لوگوں کے سامنے آشکار کیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

پرچار تو سب ہی کرتے ہیں کہ ہم بہت اچھے ہیں لیکن جن کی نیت اور اعمال کالے ہوں ان کے پول بھی جلد ہی کھل جاتے ہیں اور پھر ہوتا وہی ہے جو اس وقت بھارت کے ساتھ ہو رہا ہے۔

بھارت کے وزیر خارجہ نے کینیڈا کے اکتالیس سفارت کاروں کو اپنے ملک سے نکلنے کا حکم دیا ہے اورکینیڈا کو اپنا کم سے کم سفارتی عملہ بھارت میں متعین کرنے کو کہا ہے۔

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق بھارت کا یہ اقدام ابھی چند دنوں قبل سامنے آیا۔ اس اقدام کے ساتھ دھمکی بھی تھی کہ اگر دس دن تک سفارتی اسٹاف میں کمی نہ کی گئی تو اس کے بعد ان سفارت کاروں کو حاصل سفارتی استثنیٰ ختم کر دیا جائے گا۔

جی ٹوئنٹی کا انعقاد بھارت نے بڑی شان سے کیا تھا جس کی تیاریاں نہایت جوش و خروش سے ایک عرصے سے جاری تھیں۔ اس کے لیے علاقے کا چناؤ بھی خوب کیا گیا تھا، اس پر ایک الگ بحث درکار ہے لیکن اس بڑے جلسے میں گمان یہی تھا کہ بھارت کے کھلے ذہن اور ترقی کے چرچے دنیا بھر میں ہوں گے یقینا ایسا ہی ہوتا کیونکہ خود ہمارے ملک پاکستان میں ان کی اس بڑی کامیابی پر جس طرح ٹی وی چینلز پر بیٹھے نقادوں نے دہائیاں دیں اور پاکستان پر تاک تاک کر نشانے لگائے اس نے سوچنے پر مجبورکردیا کہ کیا واقعی ہم اس قدرکم عقل ہیں؟ یہ بھی ایک الگ بحث ہے اس پر بات پھر کبھی سہی لیکن جس ہدف کو پانے کی کوششیں کی گئی تھیں وہ حاصل بھی ہوا تو ریت کی مانند ہاتھوں سے پھسلتا چلا گیا۔

اٹھارہ جون 2023 اتوار کی شام کینیڈا کے برٹش کولمبیا کے ایک قصبے کے گوردوارہ نانک صاحب میں سکھ برادری اپنی عبادت میں مشغول تھی، جب اس ماحول میں فائرنگ کی خوفزدہ کر دینے والی آوازیں گونجنے لگیں۔ دو نامعلوم نقاب پوش کسی شکار کی تاک میں تھے اور موقع ملنے پر کام کر گئے تھے، وہ شخص سکھ برادری میں ایک سوشل اور گوردوارے کا صدر ہردیپ سنگھ تھا۔

کینیڈا میں سکھ برادری کے لیے یہ ایک تکلیف دہ بات تھی، کینیڈین پولیس تین مہینوں تک جتی رہی اور بالآخر اس کی کڑیاں بھارت کے ان عوامل پر جا کر ملیں جو خالصتان کی آزادی کے مخالف تھے۔


جی ٹوئنٹی کی تقریب دونوں بڑے رہنماؤں کے آمنے سامنے کے ردعمل کی ایک تصویر تھی جسے کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے دو ٹوک رویے سے ظاہر کر ہی دیا کہ وہ بھارت کے اس جھوٹے ڈرامے سے ہرگز متاثر نہیں ہوئے ہیں، جب کہ مودی سرکار کے مطابق کینیڈا میں بھارت کے خلاف علیحدگی پسندی کو شورش دی جا رہی ہے اور انھیں یعنی سکھوں کے جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے.

یہ الگ بات ہے کہ پینتالیس سالہ ہردیپ سنگھ پہلے ہی بھارت میں مودی سرکار کی آنکھوں کا کانٹا تھے ان پر یہاں کئی مقدمات بھی درج تھے۔ وہ خالصتان تحریک کا اہم حصہ تھے یا نہیں لیکن اس کی حمایت میں آگے آگے نظر ضرور آئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ 2020 میں بھارت نے انھیں دہشت گرد ڈکلیئر کر دیا تھا۔

ہردیپ سنگھ اور بہت سے دوسرے متمول سکھ برادری والے دوسرے ممالک خاص کر کینیڈا میں جا بسے اس میں انڈیا کی اس پالیسی کا بھی بڑا ہاتھ ہے جس کے ذریعے انھوں نے اپنے شہریوں کو باہر ممالک جا کر کمانے کے لیے بھرپور مواقع فراہم کیے تھے، لہٰذا یہ کہنا کہ وہ صرف خالصتان کی آزادی کی خاطر پردیس بسے کچھ غلط ہوگا۔ بہ ظاہر ہردیپ بھی کوئی بڑے عہدے پر فائز نہ تھے وہ پلمبر تھے لیکن ان کے بڑھتے ہوئے قد اور بیرونی ممالک سے خالصتان کی پکار مودی سرکار کو گراں گزرنے لگی تھی اور پھر ایسا ہی ہوا کہ ہردیپ سنگھ کی آواز خاموش کر دی گئی۔

اس تمام پس منظر میں واضح نظر آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ عنقریب معاملہ کوئی بڑی کروٹ لینے کے درپے ہے، امریکا بھی کینیڈا کے ساتھ شامل ہے کیونکہ کینیڈا نے انڈیا کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ پون کمار کو ملک بدر کرکے پہلا قدم اٹھایا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 2019 میں ٹروڈوکی حکومت سازی میں سکھ برادری نے بڑی مدد کی تھی اب معاملہ ملکی سطح کا ہے یا حقیقت پسندی کا۔

یہ ایک ایسا اہم نقطہ ہے جس پر دنیا کے بڑے بڑے ممالک مختلف خطوں میں کشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ برطانیہ ویسے بھی اپنے نئے سرکار کے ہمراہ بھارت کی جانب جھکتا دکھائی تو نہیں دیا لیکن امکان تو یہی ہے کہ خون تو بھارتی ہی ہے، ادھر امریکا اور برطانیہ کی پرانی دوستی کو بھی باآسانی توڑا نہیں جا سکتا۔

امریکا کا کینیڈا کی جانب جھکاؤ بھی فطری ہے۔ان تمام باتوں کے درپیش اب کیا نئی صورت حال پنپ رہی ہے اس کی وضاحت تو سفارتی اعتبار سے کھلتی دکھائی دے رہی ہے لیکن پردے کے پیچھے کی کہانی انتہائی شاطرانہ منصوبوں سے الجھی ہے۔ خالصتان کی آواز دبائی نہیں جا سکتی یہ تو طے ہے۔

کیا کشمیریوں کے حق میں بھی دنیائے عالم میں ایسی ہی بازگشت گونجے گی۔ یہ ایک متقابل تحریک ہے جسے ایک طویل عرصے سے ہر آنے جانے والی بھارتی حکومت طاقت کے زور پر دباتی چلی آئی ہے، شاید دنیائے عالم میں ظالم اور مظلوم کے علاوہ بھی اور دوسرے محرک ہیں جو دنیا کو بانٹتے ہیں ذہن میں تو آتا ہی ہے پر پردے کے سامنے اب کیا نئی سلائیڈ چلتی ہے۔ پُر امید تو ہم بھی ہیں۔
Load Next Story