ایم کیو ایم پاکستان کا ملیر کا جلسہ
ایم کیو ایم کی نئی قیادت عوام کے مسائل کو حل کرنے پر بھرپور توجہ مرکوزکررہی ہے
ایم کیو ایم پاکستان کراچی کی ایک مقبول سیاسی جماعت ہے۔ یہ ماضی کی طرح آج بھی عوام میں مقبول ہے۔ اس کے ماضی پر بعض لوگ ضرور سوالات کھڑے کرتے ہیں لیکن اب ایک نئی ایم کیو ایم نے جنم لیا ہے جس کا مقصد صرف عوام کی فلاح و بہبود اور صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں امن و امان کا قیام اور ملک و قوم کو خوشحال بنانا ہے۔
ایم کیو ایم کی نئی قیادت عوام کے مسائل کو حل کرنے پر بھرپور توجہ مرکوزکررہی ہے اور گزشتہ حکومتوں نے عوام کو جو غربت کے جال میں پھنسایا ہے، اس سے انھیں نجات دلانے کے لیے پرعزم ہے۔ گزشتہ اتوارکو ملیر کے عوام کے پر زور اصرار پر ایم کیو ایم نے وہاں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا۔ اس میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کراچی کے عوام اب بھی اس کے ساتھ ہیں۔
اس جلسے میں ایم کیو ایم پاکستان کے اہم رہنماؤں نے خطاب کیا اور مختلف حلقوں کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دورکرنے کی کوشش کی تاہم وہاں کے عوام کا کہنا تھا کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان کے خلاف کسی بھی پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہو سکتے وہ جس طرح ماضی میں ایم کیو ایم پر اعتماد کرتے تھے اب بھی ویسا ہی اعتماد کرتے ہیں۔ اب نئی قیادت سے وہ بے حد متاثر ہوئے اور ان کی امن پسند اور تعمیری سرگرمیوں کے گرویدہ ہوگئے ہیں۔
ان کا خیال تھا کہ کراچی کے مسائل کو صرف ایم کیو ایم ہی حل کر سکتی ہے کیونکہ اس کے رہنما خود ان مسائل کا شکار ہیں۔ ایم کیو ایم کو پہلے اپنے عوامی ایجنڈے پر عمل کرنے میں ضرور مشکلات حائل تھیں مگر اب وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکتی ہے کیوں کہ اب شہر میں امن ہے کسی سیاسی پارٹی کو دوسری سیاسی پارٹی سے کوئی رقابت نہیں ہے، ہر سیاسی پارٹی اپنے منشور کے مطابق کام کر سکتی ہے۔ ماضی کی خونریزی کی وجہ سے اس شہر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔
اب تخریب کاری کا خاتمہ ہو چکا ہے اس لیے کہ ''را'' کی حکمرانی اس شہر سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیو ایم نے اگرچہ بہت دیر بعد کوئی جلسہ منعقد کیا ہے مگر یہ بہت ہی کامیاب رہا ہے اس لیے کہ اس میں عوام کی کثیر تعداد میں شرکت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ شہر اب بھی ایم کیو ایم کا ہے اور وہ آیندہ انتخابات میں ضرور سرخرو ہوگی۔ ایک تجزیہ کار نے ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کے اس بیان پر کہ کراچی ملک کی بقا، سلامتی اور خوش حالی کا گیٹ وے ہے اگر کراچی کو بدحال کیا گیا تو پورا ملک بدحال ہو جائے گا۔
یہ بات بالکل درست ہے کراچی ہی پاکستان کا واحد شہر ہے جو پورے ملک کی کفالت کرتا ہے یہ ملک کو 75 فی صد ریونیو فراہم کرتا ہے۔ اس کی آمدنی آج سے نہیں ہمیشہ سے قابل قدر اور قابل فخر ہے۔ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے کہ جسے کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس کماؤ پوت کو ہر دور میں ہر حکومت نے نظرانداز کیا ہے۔ اس کی کمائی اس پر نہیں لگائی گئی، البتہ اس کی کمائی سے ملک کے دیگر شعبے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
سب سے قابل دید بات یہ ہے کہ اس شہر کے لوگ کبھی بھی ملک کی خدمت سے بے بہرہ نہیں ہوئے وہ خود تو مشکل کی زندگی گزار رہے ہیں مگر اپنی حق تلفی پر ملک سے شکوہ اور شکایت کے مرتکب نہیں ہوئے البتہ اپنے حقوق کے لیے حکمرانوں سے ضرور محو احتجاج رہے مگر مجال ہے کہ کراچی کے عوام کے مطالبات پر کبھی کسی حکمران نے سنجیدگی سے غور کیا ہو۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی حکومت کی کراچی سے بے اعتنائی سب پر ہی عیاں ہے۔ اس کی جانب سے کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے کئی دفعہ فنڈ دینے کا اعلان کیا گیا مگر افسوس کہ کبھی اس کا وعدہ وفا نہ ہو سکا۔
اس جلسے میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ہم نے کراچی کی 70 لاکھ آبادی کو بازیاب کرایا ہے تو یہ بات بالکل درست ہے اگر ایم کیو ایم حکومت کو کراچی کے عوام کی صحیح گنتی کرنے کی جانب مائل نہ کرتی تو شاید کراچی اب بھی ایک لاکھ 60 ہزار نفوس پر مشتمل شہر مانا جاتا۔ اب ایم کیو ایم کی کوششوں سے کراچی کی آبادی میں 70 لاکھ غائب عوام کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔
اب حکومت کو کراچی کو فنڈز اس کی صحیح آبادی کے لحاظ سے فراہم کرنا چاہیے اور اس میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے تاکہ اس شہر کے دیرینہ مسائل حل ہو سکیں اور مسائل میں گھرے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم نے گزشتہ پانچ سالوں میں شہدا قبرستان کو بھرنے نہیں دیا۔
یہ بات یقینا قابل غور ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں کراچی میں لسانی بنیاد پر کوئی فساد برپا نہیں ہوا بلکہ ہوا یہ ہے کہ ماحول ایسا بن گیا ہے کہ لسانیت کی لعنت ہی اب نیست و نابود ہو گئی ہے۔ یہ فضا پیدا کرنے میں حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے قابل فخر رہنما مصطفیٰ کمال کا بڑا کردار ہے انھوں نے کراچی کی تمام کمیونٹیز کو جو پہلے ہمیشہ باہم دست و گریباں رہتی تھیں اب شیر و شکر نظر آتی ہیں۔
اس آپسی میل ملاپ اور محبت اور درگزر کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ کراچی سے خون خرابہ ختم ہو چکاہے اب تعصب کی بنیاد پر کوئی شخص قتل نہیں ہو رہا اس طرح کراچی کے تمام ہی قبرستانوں میں جو پہلے بھیڑ بھاڑ رہتی تھی وہ ختم ہو گئی ہے اب لوگ یا تو اپنی موت آپ مرتے ہیں یا پھر چور ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں جس کی وجہ ہماری پولیس کی ناقص کارکردگی ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے یہ بھی کہا کہ کچھ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم تقسیم ہو رہی ہے تو ایسا نہیں ہے ایم کیو ایم اب بکھر نہیں رہی بلکہ نکھر رہی ہے اور تقسیم نہیں ہو رہی بلکہ متحد ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ گوکہ ابھی حتمی تاریخ نہیں دی گئی ہے مگر لگتا ہے جنوری کے آخری ہفتے کی کسی تاریخ کو ضرور منعقد ہوں گے۔
بہرحال ایم کیو ایم پاکستان نے ملیر کے جلسے سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اب ایم کیو ایم پاکستان رفتہ رفتہ کراچی کے مختلف علاقوں کے علاوہ اندرون سندھ بھی اپنے انتخابی جلسوں کا آغاز کرنے والی ہے۔ ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم کا یہ موقف دہرایا کہ ایم کیو ایم سندھ کے ہاریوں کو وڈیروں کے چنگل سے آزاد کرنے کا عزم کر چکی ہے اور وہ ہاریوں پر صدیوں سے جاری ظلم و ستم کو ختم کرا کے دم لیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے ہاری اپنی مظلومیت کا شکوہ کرتے کرتے تھک چکے ہیں مگر کسی سیاسی جماعت نے ان کی نہیں سنی ہے حتیٰ کہ پیپلز پارٹی جس کا منشور ہی مزدوروں کسانوں اور ہاریوں کو وڈیروں سے تحفظ دلانا ہے اپنے منشور پر عمل پیرا ہونے میں قطعی ناکام رہی ہے۔ اب سندھ کے مظلوم لوگوں کا یہ امتحان ہے کہ وہ آیندہ انتخابات میں بہت سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور اپنے مسائل کو حل کرنے والی جماعت کو ہی اپنے ووٹ سے نوازیں۔
ایم کیو ایم کی نئی قیادت عوام کے مسائل کو حل کرنے پر بھرپور توجہ مرکوزکررہی ہے اور گزشتہ حکومتوں نے عوام کو جو غربت کے جال میں پھنسایا ہے، اس سے انھیں نجات دلانے کے لیے پرعزم ہے۔ گزشتہ اتوارکو ملیر کے عوام کے پر زور اصرار پر ایم کیو ایم نے وہاں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا۔ اس میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کراچی کے عوام اب بھی اس کے ساتھ ہیں۔
اس جلسے میں ایم کیو ایم پاکستان کے اہم رہنماؤں نے خطاب کیا اور مختلف حلقوں کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دورکرنے کی کوشش کی تاہم وہاں کے عوام کا کہنا تھا کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان کے خلاف کسی بھی پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہو سکتے وہ جس طرح ماضی میں ایم کیو ایم پر اعتماد کرتے تھے اب بھی ویسا ہی اعتماد کرتے ہیں۔ اب نئی قیادت سے وہ بے حد متاثر ہوئے اور ان کی امن پسند اور تعمیری سرگرمیوں کے گرویدہ ہوگئے ہیں۔
ان کا خیال تھا کہ کراچی کے مسائل کو صرف ایم کیو ایم ہی حل کر سکتی ہے کیونکہ اس کے رہنما خود ان مسائل کا شکار ہیں۔ ایم کیو ایم کو پہلے اپنے عوامی ایجنڈے پر عمل کرنے میں ضرور مشکلات حائل تھیں مگر اب وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکتی ہے کیوں کہ اب شہر میں امن ہے کسی سیاسی پارٹی کو دوسری سیاسی پارٹی سے کوئی رقابت نہیں ہے، ہر سیاسی پارٹی اپنے منشور کے مطابق کام کر سکتی ہے۔ ماضی کی خونریزی کی وجہ سے اس شہر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔
اب تخریب کاری کا خاتمہ ہو چکا ہے اس لیے کہ ''را'' کی حکمرانی اس شہر سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیو ایم نے اگرچہ بہت دیر بعد کوئی جلسہ منعقد کیا ہے مگر یہ بہت ہی کامیاب رہا ہے اس لیے کہ اس میں عوام کی کثیر تعداد میں شرکت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ شہر اب بھی ایم کیو ایم کا ہے اور وہ آیندہ انتخابات میں ضرور سرخرو ہوگی۔ ایک تجزیہ کار نے ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کے اس بیان پر کہ کراچی ملک کی بقا، سلامتی اور خوش حالی کا گیٹ وے ہے اگر کراچی کو بدحال کیا گیا تو پورا ملک بدحال ہو جائے گا۔
یہ بات بالکل درست ہے کراچی ہی پاکستان کا واحد شہر ہے جو پورے ملک کی کفالت کرتا ہے یہ ملک کو 75 فی صد ریونیو فراہم کرتا ہے۔ اس کی آمدنی آج سے نہیں ہمیشہ سے قابل قدر اور قابل فخر ہے۔ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے کہ جسے کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس کماؤ پوت کو ہر دور میں ہر حکومت نے نظرانداز کیا ہے۔ اس کی کمائی اس پر نہیں لگائی گئی، البتہ اس کی کمائی سے ملک کے دیگر شعبے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
سب سے قابل دید بات یہ ہے کہ اس شہر کے لوگ کبھی بھی ملک کی خدمت سے بے بہرہ نہیں ہوئے وہ خود تو مشکل کی زندگی گزار رہے ہیں مگر اپنی حق تلفی پر ملک سے شکوہ اور شکایت کے مرتکب نہیں ہوئے البتہ اپنے حقوق کے لیے حکمرانوں سے ضرور محو احتجاج رہے مگر مجال ہے کہ کراچی کے عوام کے مطالبات پر کبھی کسی حکمران نے سنجیدگی سے غور کیا ہو۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی حکومت کی کراچی سے بے اعتنائی سب پر ہی عیاں ہے۔ اس کی جانب سے کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے کئی دفعہ فنڈ دینے کا اعلان کیا گیا مگر افسوس کہ کبھی اس کا وعدہ وفا نہ ہو سکا۔
اس جلسے میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ہم نے کراچی کی 70 لاکھ آبادی کو بازیاب کرایا ہے تو یہ بات بالکل درست ہے اگر ایم کیو ایم حکومت کو کراچی کے عوام کی صحیح گنتی کرنے کی جانب مائل نہ کرتی تو شاید کراچی اب بھی ایک لاکھ 60 ہزار نفوس پر مشتمل شہر مانا جاتا۔ اب ایم کیو ایم کی کوششوں سے کراچی کی آبادی میں 70 لاکھ غائب عوام کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔
اب حکومت کو کراچی کو فنڈز اس کی صحیح آبادی کے لحاظ سے فراہم کرنا چاہیے اور اس میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے تاکہ اس شہر کے دیرینہ مسائل حل ہو سکیں اور مسائل میں گھرے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم نے گزشتہ پانچ سالوں میں شہدا قبرستان کو بھرنے نہیں دیا۔
یہ بات یقینا قابل غور ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں کراچی میں لسانی بنیاد پر کوئی فساد برپا نہیں ہوا بلکہ ہوا یہ ہے کہ ماحول ایسا بن گیا ہے کہ لسانیت کی لعنت ہی اب نیست و نابود ہو گئی ہے۔ یہ فضا پیدا کرنے میں حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے قابل فخر رہنما مصطفیٰ کمال کا بڑا کردار ہے انھوں نے کراچی کی تمام کمیونٹیز کو جو پہلے ہمیشہ باہم دست و گریباں رہتی تھیں اب شیر و شکر نظر آتی ہیں۔
اس آپسی میل ملاپ اور محبت اور درگزر کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ کراچی سے خون خرابہ ختم ہو چکاہے اب تعصب کی بنیاد پر کوئی شخص قتل نہیں ہو رہا اس طرح کراچی کے تمام ہی قبرستانوں میں جو پہلے بھیڑ بھاڑ رہتی تھی وہ ختم ہو گئی ہے اب لوگ یا تو اپنی موت آپ مرتے ہیں یا پھر چور ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں جس کی وجہ ہماری پولیس کی ناقص کارکردگی ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے یہ بھی کہا کہ کچھ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم تقسیم ہو رہی ہے تو ایسا نہیں ہے ایم کیو ایم اب بکھر نہیں رہی بلکہ نکھر رہی ہے اور تقسیم نہیں ہو رہی بلکہ متحد ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ گوکہ ابھی حتمی تاریخ نہیں دی گئی ہے مگر لگتا ہے جنوری کے آخری ہفتے کی کسی تاریخ کو ضرور منعقد ہوں گے۔
بہرحال ایم کیو ایم پاکستان نے ملیر کے جلسے سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اب ایم کیو ایم پاکستان رفتہ رفتہ کراچی کے مختلف علاقوں کے علاوہ اندرون سندھ بھی اپنے انتخابی جلسوں کا آغاز کرنے والی ہے۔ ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم کا یہ موقف دہرایا کہ ایم کیو ایم سندھ کے ہاریوں کو وڈیروں کے چنگل سے آزاد کرنے کا عزم کر چکی ہے اور وہ ہاریوں پر صدیوں سے جاری ظلم و ستم کو ختم کرا کے دم لیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے ہاری اپنی مظلومیت کا شکوہ کرتے کرتے تھک چکے ہیں مگر کسی سیاسی جماعت نے ان کی نہیں سنی ہے حتیٰ کہ پیپلز پارٹی جس کا منشور ہی مزدوروں کسانوں اور ہاریوں کو وڈیروں سے تحفظ دلانا ہے اپنے منشور پر عمل پیرا ہونے میں قطعی ناکام رہی ہے۔ اب سندھ کے مظلوم لوگوں کا یہ امتحان ہے کہ وہ آیندہ انتخابات میں بہت سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور اپنے مسائل کو حل کرنے والی جماعت کو ہی اپنے ووٹ سے نوازیں۔