نواب بہادر یار جنگ پہلا حصہ
آپ قومی و مذہبی مجالس کے ہیرو تصور کیے جاتے جب کہ آپ نواب تھے
لسان الامت نواب بہادر یار جنگ کی رحلت پر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے ان الفاظ میں آپ کو خراج تحسین پیش کیا کہ ''نواب بہادر یار جنگ میرے عزیز دوست تھے اور ان کی موت میرے لیے ایک جانگداز صدمہ ہے۔
نواب مرحوم مومن صادق تھے اور دین اسلام کے بہت بڑے داعی۔ انھوں نے اسلام اور مسلمانان ہند کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔ تاریخ ان کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی وہ ہمارے لیے قدرت کا بیش بہاء عطیہ تھے۔''3فروری1905 بمطابق27ذی الحجہ1322ھ کو محمد بہادر خان کی ولادت ہوئی، بعد ازاں بہادر یارجنگ کے شاہی خطاب اور قائد ملت کے ملی لقب سے شہرت پائی۔ آپ کے اجداد قدیم افغانی قبیلہ کے سدوزئی پٹھان تھے جنھیں پنی پٹھان کہا جاتا ہے۔
آپ کے آباؤ اجداد احمد شاہ ابدالی کے دور میں ہندوستان (جے پور ریاست) میں وارد ہوئے اور حیدرآباد دکن اس وقت آئے جب مملکت آصفیہ کی باگ ڈور نواب سکندر جاہ بہادرکے ہاتھوں میں تھی۔ آپ کے بزرگ محمد دولت خان اولی جب دکن آئے تو یہاں ہر طرف بد امنی کا راج تھا ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور بہادر سپاہی ہونے کی وجہ سے جلد دربار شاہی میں رسائی حاصل کر لی اور نواب سکندرجاہ کی دور اندیشی نے آپ کی صلاحیتوں کا ادراک کرتے ہوئے حالات کی درستگی کا ذمے دولت خان کو دیا۔
دولت خان نے اپنی فہم و فراست کے سبب جلد حالات پر قابو پا لیا اور ایک پرامن سازگار فضا قائم کر دی۔ محمد بہادر خان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ اور مفیدالانام میں ہوئی پھر مدرسہ دارالعلوم بلدہ میں آپ کا داخلہ ہوا، ابھی میٹرک کا امتحان دے نہ پائے تھے کہ والد بزرگوارکے سایہ شفیقہ سے محروم ہوگئے اور جاگیرکے نظم ونسق کی ذمے داری آپ کے ناتواں کندھوں پرآپڑی اور یوں آپ کا تعلیمی سفر یہاں سے منقطع ہوگیا مگر علم کی چاشنی آپ کی کبھی ختم نہ ہوئی۔
مولوی سعد اللہ خان مندوزئی اور مولوی سید اشرف شمسی ( صاحب تفسیر شمسی) سے عربی ادب، تفسیر، حدیث اور فقہ کی بنیادی تعلیم حاصل کی ساتھ ہی ساتھ جستجو، ذہانت، وسعت مطالعہ آپ خود فرماتے ہیں کہ '' میں نے فارسی کی ابتدائی کتابیں کسی سے سبقا سبقا نہیں پڑھیں، صرف عربی کی ہی تعلیم ہوئی ہے'' مگر کرشمہ قدرت دیکھیے، 35 برس کی عمر میں قرآن کریم کے ایک ماہر طالب علم اور تاریخ اسلام کے مستند شخصیت بن چکے تھے۔
عربی، فارسی، انگریزی، اردو پر پوری گرفت حاصل کرلی تھی۔ بقول سرسید کہ ماں کی گود دو سو استادوں سے زیادہ موثر اور معتبر تربیت گاہ ہے گوکہ محمد بہادر خان کو ابھی پیدا ہوئے ہفتہ بھر ہی ہوا تھا کہ ان کی والدہ اس جہاں فانی سے کوچ کرگئیں، اور یوں آپ اپنی نانی کی تربیت میں آئے جو کہ نیک اور خدا ترس خاتون تھیں جو ملکی حالات میں گہری دلچسپی رکھتیں اور اس حوالے سے مطالعے کا شغف رکھتیں۔
آپ تقریبا چودہ برس ان کی دیکھ بھال میں رہے اور یہ مرحومہ کی ہی بے مثال تربیت کا شاخسانہ تھا کہ آپ مذہب سے بے انتہا لگائو رکھتے بچپن سے ہی ادائیگی نماز اور تلاوت کی بہت پابندی کراتیں اورکبھی اگر کسی روز آپ تلاوت سے چوک جاتے تو آپ سے کلام نہ کرتیں کہ '' آج تم نے اللہ سے باتیں نہیں کیں'' اور یہی چودہ سالہ تربیت آپ کی پوری زندگی کا نچوڑ ہے۔ بہادر یار جنگ سپہ گری کا بہت شوق رکھتے۔
آپ کو انتظامی قابلیت میں کمال مہارت حاصل تھی، مشکل سے مشکل معاملات کو بھی اس دانائی سے حل کر لیتے کہ لوگ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتے۔ قدرت کو آپ سے مسلم قیادت کا کام لینا تھا، اس لیے آپ کو دین اسلام سے خاص دلچسپی عطا فرمائی گئی تھی۔ آپ سیاحت کا بھی خاصہ ذوق رکھتے جس کا اولین مقصد رابطہ اسلامیہ کی زنجیر کے لیے کڑیاں پیدا کرنا تھا۔ بہادر یار جنگ کی نگاہ میں تبلیغ دین کی بڑی اہمیت تھی چنانچہ انھوں نے1927 میں ایک مجلس انجمن تبلیغ اسلام کی بنیاد ڈالی۔
آپ نے دکن کے گاؤں،گاؤں کے دورے کیے اور ہر طرح کی اذیتیں برداشت کیںجس کے نتیجے میں نہ جانے کتنے بے دین لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ فنون سپاہ گری کے عاشق تھے۔ آپ باتوں کے جتنے تیز تھے اس سے کہیں بڑھ کر عمل کے چست تھے۔ آپ سپاہی تھے اور یہ اوصاف ہر مسلمان میں نمایاں دیکھنا چاہتے۔ آپ ایک سچے مسلمان ، مفسر قرآن ، عاشق رسول ﷺ'مصلح قوم، تحریک پاکستان کے عظیم رہبر اور رہنما تھے۔
نواب صاحب ارادے کے پکے، مخلص، بات کے دھنی، خدا ترس، مجاہد اسلام تھے انھی خوبیوں کا کرشمہ تھا کہ انتہائی قلیل مدت میں پورے ہندوستان پر آپ چھا گئے تھے۔ آپ بڑی دلنشین تقریر فرماتے۔ جامعہ علی گڑھ میں ان کی پہلی تقریر کا موضوع '' حیدرآباد میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت اور دعویٰ ہائے اقتدار'' تھا دوران خطاب تاثیرکا دریا بہتا رہا اور ہر سامع اس بات سے متفق ہوگیا کہ یہ دعویٰ اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ انھوں نے اس کا دفاع بخوبی کیا جس کی بڑی تحسین کی گئی۔
کٹھن سے کٹھن حالات میں مجمع کو قابو میں رکھنے والا شعلہ بیاں مقرر اور لیڈر اگر بہادر یار جنگ کو کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ آپ میں خاکساری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ آپ کی تقاریر میں فصاحت و بلاغت اور بدایع کے جواہر نمایاں تھے۔ آپ کی نثر شاعری کا نمونہ تھی۔ آپ کی تقاریراسلامی تاریخ کی معلومات، اقبال کے اشعار، ابوالکلام کے الفاظ پر مشتمل ہوتی۔ اقبال کا بیشتر کلام آپ کے حافظے میں محفوظ تھا، جس سے وہ اپنی تقاریر میں بہت دلنشیں انداز میں شامل فرماتے۔
مسلم لیگ اور اتحاد بین المسلمین کے جلسے آپ کے خطابات کے بغیر ادھورے تصورکیے جاتے۔ مرحوم کا ایک موضوع مذہب آمیز سیاست بھی ہوتا، ان پر دینی سیاست کا راز آشکار ہو چکا تھا، یہی وجہ ہے کہ اگر بہادر یار جنگ نہ ہوتے تو حیدرآباد دکن کے نظم و نسق کا کچھ اور ہی نقشہ ہوگیا ہوتا اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ مرحوم کا بہت بڑا فکری کارنامہ ہے جس کی بناء پر آپ نے تکلیفیں بھی اٹھائیں،آپ پر پابندیاں بھی عائد کی گئیں، مگر آپ نے ایثارکا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
یہاں تک کہ اپنے منصب سے بھی دستبرار ہونا منظورکیا، مگر دین ملک وملت پرکبھی کوئی سمجھوتہ نہ کیا اور آپ کی ہی بدولت اتحاد المسلمین نے ملت کی آواز کا رتبہ پایا، جس کا مرکزی دفتر دارالسلام نامی عمارت کو بنایا گیا، نواب صاحب انتہائی ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔
آپ قومی و مذہبی مجالس کے ہیرو تصور کیے جاتے جب کہ آپ نواب تھے اور نواب کے حوالے سے جو تاثرات ذہن میں یک دم پروان چڑھتے ہیں آپ اس کے بالکل برعکس تھے۔ فجر کی نماز کے بعد وہ نو بجے تک قرآن کا درس مسجد میں دیتے۔ اقبالیات کا شغف اتنا کہ ہفتے میں ایک دن اقبال کی کتابوں پر بھی درس ہوتا۔
(جاری ہے۔)
نواب مرحوم مومن صادق تھے اور دین اسلام کے بہت بڑے داعی۔ انھوں نے اسلام اور مسلمانان ہند کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔ تاریخ ان کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی وہ ہمارے لیے قدرت کا بیش بہاء عطیہ تھے۔''3فروری1905 بمطابق27ذی الحجہ1322ھ کو محمد بہادر خان کی ولادت ہوئی، بعد ازاں بہادر یارجنگ کے شاہی خطاب اور قائد ملت کے ملی لقب سے شہرت پائی۔ آپ کے اجداد قدیم افغانی قبیلہ کے سدوزئی پٹھان تھے جنھیں پنی پٹھان کہا جاتا ہے۔
آپ کے آباؤ اجداد احمد شاہ ابدالی کے دور میں ہندوستان (جے پور ریاست) میں وارد ہوئے اور حیدرآباد دکن اس وقت آئے جب مملکت آصفیہ کی باگ ڈور نواب سکندر جاہ بہادرکے ہاتھوں میں تھی۔ آپ کے بزرگ محمد دولت خان اولی جب دکن آئے تو یہاں ہر طرف بد امنی کا راج تھا ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور بہادر سپاہی ہونے کی وجہ سے جلد دربار شاہی میں رسائی حاصل کر لی اور نواب سکندرجاہ کی دور اندیشی نے آپ کی صلاحیتوں کا ادراک کرتے ہوئے حالات کی درستگی کا ذمے دولت خان کو دیا۔
دولت خان نے اپنی فہم و فراست کے سبب جلد حالات پر قابو پا لیا اور ایک پرامن سازگار فضا قائم کر دی۔ محمد بہادر خان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ اور مفیدالانام میں ہوئی پھر مدرسہ دارالعلوم بلدہ میں آپ کا داخلہ ہوا، ابھی میٹرک کا امتحان دے نہ پائے تھے کہ والد بزرگوارکے سایہ شفیقہ سے محروم ہوگئے اور جاگیرکے نظم ونسق کی ذمے داری آپ کے ناتواں کندھوں پرآپڑی اور یوں آپ کا تعلیمی سفر یہاں سے منقطع ہوگیا مگر علم کی چاشنی آپ کی کبھی ختم نہ ہوئی۔
مولوی سعد اللہ خان مندوزئی اور مولوی سید اشرف شمسی ( صاحب تفسیر شمسی) سے عربی ادب، تفسیر، حدیث اور فقہ کی بنیادی تعلیم حاصل کی ساتھ ہی ساتھ جستجو، ذہانت، وسعت مطالعہ آپ خود فرماتے ہیں کہ '' میں نے فارسی کی ابتدائی کتابیں کسی سے سبقا سبقا نہیں پڑھیں، صرف عربی کی ہی تعلیم ہوئی ہے'' مگر کرشمہ قدرت دیکھیے، 35 برس کی عمر میں قرآن کریم کے ایک ماہر طالب علم اور تاریخ اسلام کے مستند شخصیت بن چکے تھے۔
عربی، فارسی، انگریزی، اردو پر پوری گرفت حاصل کرلی تھی۔ بقول سرسید کہ ماں کی گود دو سو استادوں سے زیادہ موثر اور معتبر تربیت گاہ ہے گوکہ محمد بہادر خان کو ابھی پیدا ہوئے ہفتہ بھر ہی ہوا تھا کہ ان کی والدہ اس جہاں فانی سے کوچ کرگئیں، اور یوں آپ اپنی نانی کی تربیت میں آئے جو کہ نیک اور خدا ترس خاتون تھیں جو ملکی حالات میں گہری دلچسپی رکھتیں اور اس حوالے سے مطالعے کا شغف رکھتیں۔
آپ تقریبا چودہ برس ان کی دیکھ بھال میں رہے اور یہ مرحومہ کی ہی بے مثال تربیت کا شاخسانہ تھا کہ آپ مذہب سے بے انتہا لگائو رکھتے بچپن سے ہی ادائیگی نماز اور تلاوت کی بہت پابندی کراتیں اورکبھی اگر کسی روز آپ تلاوت سے چوک جاتے تو آپ سے کلام نہ کرتیں کہ '' آج تم نے اللہ سے باتیں نہیں کیں'' اور یہی چودہ سالہ تربیت آپ کی پوری زندگی کا نچوڑ ہے۔ بہادر یار جنگ سپہ گری کا بہت شوق رکھتے۔
آپ کو انتظامی قابلیت میں کمال مہارت حاصل تھی، مشکل سے مشکل معاملات کو بھی اس دانائی سے حل کر لیتے کہ لوگ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتے۔ قدرت کو آپ سے مسلم قیادت کا کام لینا تھا، اس لیے آپ کو دین اسلام سے خاص دلچسپی عطا فرمائی گئی تھی۔ آپ سیاحت کا بھی خاصہ ذوق رکھتے جس کا اولین مقصد رابطہ اسلامیہ کی زنجیر کے لیے کڑیاں پیدا کرنا تھا۔ بہادر یار جنگ کی نگاہ میں تبلیغ دین کی بڑی اہمیت تھی چنانچہ انھوں نے1927 میں ایک مجلس انجمن تبلیغ اسلام کی بنیاد ڈالی۔
آپ نے دکن کے گاؤں،گاؤں کے دورے کیے اور ہر طرح کی اذیتیں برداشت کیںجس کے نتیجے میں نہ جانے کتنے بے دین لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ فنون سپاہ گری کے عاشق تھے۔ آپ باتوں کے جتنے تیز تھے اس سے کہیں بڑھ کر عمل کے چست تھے۔ آپ سپاہی تھے اور یہ اوصاف ہر مسلمان میں نمایاں دیکھنا چاہتے۔ آپ ایک سچے مسلمان ، مفسر قرآن ، عاشق رسول ﷺ'مصلح قوم، تحریک پاکستان کے عظیم رہبر اور رہنما تھے۔
نواب صاحب ارادے کے پکے، مخلص، بات کے دھنی، خدا ترس، مجاہد اسلام تھے انھی خوبیوں کا کرشمہ تھا کہ انتہائی قلیل مدت میں پورے ہندوستان پر آپ چھا گئے تھے۔ آپ بڑی دلنشین تقریر فرماتے۔ جامعہ علی گڑھ میں ان کی پہلی تقریر کا موضوع '' حیدرآباد میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت اور دعویٰ ہائے اقتدار'' تھا دوران خطاب تاثیرکا دریا بہتا رہا اور ہر سامع اس بات سے متفق ہوگیا کہ یہ دعویٰ اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ انھوں نے اس کا دفاع بخوبی کیا جس کی بڑی تحسین کی گئی۔
کٹھن سے کٹھن حالات میں مجمع کو قابو میں رکھنے والا شعلہ بیاں مقرر اور لیڈر اگر بہادر یار جنگ کو کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ آپ میں خاکساری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ آپ کی تقاریر میں فصاحت و بلاغت اور بدایع کے جواہر نمایاں تھے۔ آپ کی نثر شاعری کا نمونہ تھی۔ آپ کی تقاریراسلامی تاریخ کی معلومات، اقبال کے اشعار، ابوالکلام کے الفاظ پر مشتمل ہوتی۔ اقبال کا بیشتر کلام آپ کے حافظے میں محفوظ تھا، جس سے وہ اپنی تقاریر میں بہت دلنشیں انداز میں شامل فرماتے۔
مسلم لیگ اور اتحاد بین المسلمین کے جلسے آپ کے خطابات کے بغیر ادھورے تصورکیے جاتے۔ مرحوم کا ایک موضوع مذہب آمیز سیاست بھی ہوتا، ان پر دینی سیاست کا راز آشکار ہو چکا تھا، یہی وجہ ہے کہ اگر بہادر یار جنگ نہ ہوتے تو حیدرآباد دکن کے نظم و نسق کا کچھ اور ہی نقشہ ہوگیا ہوتا اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ مرحوم کا بہت بڑا فکری کارنامہ ہے جس کی بناء پر آپ نے تکلیفیں بھی اٹھائیں،آپ پر پابندیاں بھی عائد کی گئیں، مگر آپ نے ایثارکا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
یہاں تک کہ اپنے منصب سے بھی دستبرار ہونا منظورکیا، مگر دین ملک وملت پرکبھی کوئی سمجھوتہ نہ کیا اور آپ کی ہی بدولت اتحاد المسلمین نے ملت کی آواز کا رتبہ پایا، جس کا مرکزی دفتر دارالسلام نامی عمارت کو بنایا گیا، نواب صاحب انتہائی ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔
آپ قومی و مذہبی مجالس کے ہیرو تصور کیے جاتے جب کہ آپ نواب تھے اور نواب کے حوالے سے جو تاثرات ذہن میں یک دم پروان چڑھتے ہیں آپ اس کے بالکل برعکس تھے۔ فجر کی نماز کے بعد وہ نو بجے تک قرآن کا درس مسجد میں دیتے۔ اقبالیات کا شغف اتنا کہ ہفتے میں ایک دن اقبال کی کتابوں پر بھی درس ہوتا۔
(جاری ہے۔)