ایک نیا باب

ہم ترقی کی دوڑ میں اس خطے میں پیچھے رہ گئے۔افغانستان ہمیں اپنے بلیک ہول کی طرف کھینچتا جا رہا ہے

Jvqazi@gmail.com

ججز بحالی کی وکلاء تحریک کی کامیابی کے بعد جس طرح سے آرٹیکل 184(3)کا استعمال ہوا ہے ، چیف جسٹس صاحبان نے از خود نوٹس لیے، آرٹیکل 184(3) کی اوریجنل جیورسڈکشن کے اندر بینچ بنانے کا اختیار اپنے پاس رکھا اور جس طرح اقامہ پر فیصلہ صادر کیا گیااور پھر جس طرح سے سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کا استعمال کیا گیا، شہ سرخیاں بنائی گئیں، ایسا شاید کسی جمہوری آئینی ملک میں نہ ہوا ہو۔

جہاں تحریری آئین بھی ہے اورپارلیمان بھی۔اگر یہاں ڈیفیکٹو تھیوری کو لیا جائے تو یہ وہ ہی نظریہ ضرورت اور آرٹیکل58(2)(b)کی شکل تھی جس نے فرد واحد کے پاس سوموٹو کی صورت اختیار کرلی تھی اور اس آرٹیکل کے دائرے میں جو بھی اقدام کرلو یا کہہ دو وہ بس حرف آخر تھا۔ اٹھاون ٹو بی کے استعمال کے بعد قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی تھی لیکن سوموٹو کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے اپیل کا حق بھی حاصل نہیں!

اس دفعہ آمریت کچھ عجیب انداز سے آئی، بوٹ پیچھے رہ گئے، سوموٹو آگے آ گیا، کالے کوٹ اور ا س کے ا ندر چھپے مخصوص گروہ نے سوموٹو کو سپورٹ فراہم کی ، یوں انتظامیہ اور پارلیمنٹ کو مفلوج کردیا گیا ۔ منتخب وزیر اعظم کو نا اہل کرنے کے لیے 58(2)(b)نہیں رہی تو کیا ہوا؟ 184(3) تو موجود ہے ،سوموٹو کی پاور بھی ہے۔

یہ کیا بات ہوئی کہ سابق چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ سوموٹو اختیار استعمال نہ کریں تو ان کی واہ واہ ! اگر کوئی چیف جسٹس سوموٹو اختیار دھڑلے سے استعمال کرلے تو اس کی بھی واہ واہ ۔قانونی اور آئینی تقاضہ تو یہ ہے کہ سوموٹو کی پاور آئین کے تحت دی گئی ہے تو اس پاور کے استعمال کرنے کے کچھ پیرا میٹرز بھی ہونے چاہئیں، مگراس پاور کا جس طرح استعمال ہوا، اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ فل کورٹ کا حالیہ فیصلہ ہی بول رہا ہے۔

پاکستان کے آئین کے مطابق اپیل کا حق نہ ہونا خود آئین کے آرٹیکل "Right to Fair Trial" 10(A) کے منافی ہے۔ بلکہ اپیل کا حق نہ ہونا پاکستان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تھیوری سے متصادم ہے۔

اٹھارہویں ترمیم میں،آئینی عدالتوں کے جج صاحبان کی تقرری میں جب پارلیمان کی رائے کو وزن دیا گیا تو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے یہ فیصلہ دیا کہ ججز کی تقرری میں پارلیمان کی رائے کو وزن دینے سے عدلیہ کی آزادی مسخ ہوتی ہے ،مگر جو کچھ ہوا، وہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کن الفاظ میں رقم کی جاتی ہے، وہ تو مؤرخ ہی جانے! یہ ہمارا کام نہیں ہے۔

ہمارے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے آتے ہی فل بینچ تشکیل دے دیا جو پہلے بنانا ممکن نہ تھا۔ پھر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ کے بینچ کی کارروائی کو برا ہ راست نشر کیا گیا تاکہ عوام، قانون کے طالب علم اور اہل علم اعلیٰ عدالت کی کارروائی سے با خبر ہوں۔لوگوں نے پہلی بار اس کارروائی کو برا ہ راست دیکھا اور سنا۔یعنی بہ حیثیت چیف جسٹس انھوں نے اپنے اختیارات dedicate کر دیے۔


پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کو آئین کے تناظر میں تولا گیا۔اس ایکٹ کی شق نمبر 5(2)جس میں کہا گیا ہے کہ تمام سابقہ عدالتی فیصلے جو آرٹیکل 184(3) کے تحت کیے گئے ، ان میں بھی اپیل کا حق ہونا چاہیے، وہ نہیں مانا گیا یعنی ایکٹ کی یہ شق Ultra vires ٹھہری۔ایسا لگتا ہے کہ اکثریتی رائے میں ایکٹ کی اس شق کو عدلیہ کی آزادی کے منافی قرار دیا گیا ہے یا پھر اس کے ٹکراؤ میں ہے۔ اس ایکٹ کے لاگو ہونے کے بعد کے (Prospectively) فیصلوں میں اپیل کا حق موجود ہے مگر (retrospectively) یعنی سابقہ فیصلوں پر نہیں۔

آئین کے آرٹیکل 191پھر سے تشریح کی گئی،بھرپور بحث ہوئی ،وکلاء کو سنا گیا۔آمریت اور اس کی باقیات کو ہمارے آئین کے آرٹیکل 184(3)سے نکالنا ضروری ہو گیا تھا۔ کئی ناموروکلاء صاحبان نے بھی ایسے اختیارات کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور اپنے مقاصد پائے۔ کیا اسے ٹاؤٹ پریکٹس نہیںکہاجائے گا؟۔''قانون کی حکمرانی'' کی تشریح قانون کی تناظر میں یہ ہے کہ قانون وہ ہے جو بغیر کسی تضاد کے انصاف فراہم کرے۔یعنی Law اپنی روح میں پازیٹو ہو تا ہے۔

یہاں پر ایسے قانون کو ترجیح دی گئی جو آئین کی روح سے منفی تھا۔یہ کیسا قانون، رول یا پریکٹس تھی کہ اٹارنی جنرل استدعا پر استدعا کرتا رہ جائے کہ لارجر بنچ تشکیل دیا جائے لیکن چیف جسٹس تین ججز کے علاوہ کوئی بینچ ہی نہ بنائے۔یہ کیسی قانون کی حکمرانی تھی اور کیسی عدلیہ کی آزادی تھی؟ فل کورٹ کے حالیہ فیصلے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ پارلیمان کی قانون سازی عدلیہ کی آزادی میں اضافہ کرتی ہے نہ کہ اس کو محدود کرتی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے ریفارمز یعنی اصلاحات کے دروازے کھلیں گے۔ایک طرف افغان پالیسی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے اور دوسری طرف ڈالر کی اسمگلنگ کے خلاف جو کریک ڈاؤن کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں کچھ توازن پیدا ہونا شروع ہوا ہے، اگر کریک ڈاون مسلسل اور متواتر جاری رہے تو افراط زر پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اکیس اکتوبر کو میاں نواز شریف کی واپسی متوقع ہے، جس سے ملک کو سیاسی استحکام مل سکتا ہے ۔اس وقت بہتر لوگ اہم عہدوں پر فائز ہیں، ملک سنبھلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ہاں! مگر احتساب کا عمل رکنا نہیں چاہیے ، سب کا احتساب ہونا چاہیے اور اس احتساب کے عمل میں کوئی نا انصافی بھی نہیں ہونی چاہیے،اگر احتساب شفاف نہ ہوا تو پھر خدشہ ہے کہ ہم ایک نئے بھنور میں نہ پھنس جائیں۔

پاکستان میں کچھ مخصوص طاقتور اور بااثرگروہ ہیں جو اپنے مفادات کی خا طر ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔آمریت کسی ایک ادارے کے اندر نہیں پنپتی بلکہ آمریت کو سماج کے خدوخال سے تقویت ملتی ہے۔

یہ مخصوص گروہ چاہتے ہیں کہ ملک میں قانون کمزور اور مبہم ہو، اختیارات چندمخصوص عہدوں میں مرتکز ہوں تاکہ ان پر اپنے لوگ بٹھائے جاسکیں، ملک میں افراتفری رہے، تفرقہ بازی اور انتہا پسندی کا غلبہ رہے تاکہ کالے دھندے چلتے رہیں، دہشت گردی کا راج ہو، خود کش حملے ہوتے رہیں، سیکیورٹی اداروں کے افسر و جوان اور بے گناہ عوام شہید ہوتے رہیں، یہ وائٹ کالرکریمنلز دولت کے انبار لگاتے رہیں، ریاست کا مال ہڑپ کرتے رہیں،ان کی اولادیں ، رشتہ دار اور حواری یورپ ، مشرق وسطی ، افریقہ ، کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکا میں جائیدادیں خریدتے رہیں اور موج مستی کی زندگی گزارتے رہیں۔ایسی ہی حقیقتوں کا عکس ہے یہ تباہی جس کے دہانے پر ہم آج کھڑے ہیں۔

ہم ترقی کی دوڑ میں اس خطے میں پیچھے رہ گئے۔افغانستان ہمیں اپنے بلیک ہول کی طرف کھینچتا جا رہا ہے۔ہم بھی افغانستان بن جاتے، اگر اس ملک پر آج بھی چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت ہو تی۔ابھی تو ایک نئی ابتداء ہوئی ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟بہت سے کام کرنے ہیں ابھی، یقینا اس وقت پاکستان بنتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
Load Next Story