کوچۂ سخن
غزل
یہ ارادہ ہے کہ اب اورکہیں ملتے ہیں
جس جگہ پر یہ فلک اور زمیں ملتے ہیں
تیرے انکار کی سرحد پر اگر پہنچیں تو
تیرے ہونے کے نشانات وہیں ملتے ہیں
اُس کے ماحول کا شاید یہ اثر ہے یارو
اُس کے سب چاہنے والے بھی حزیں ملتے ہیں
تیری فرقت میں مگر دل کو سکوں رہتا ہے
مجھ کو آلام تو تیرے ہی قریں ملتے ہیں
کون رودادِملاقات رقم کرتا ہے
آسماں والوں سے جب اہلِ زمیں ملتے ہیں
سخت کوشی کی شرائط سے گزر کر دیکھو
سنگ ریزوں میں ہی پوشیدہ نگیں ملتے ہیں
اُس کی حرمت پہ کوئی حرف نہ آنے پائے
ہم اسی واسطے اُس بت سے نہیں ملتے ہیں
ساجدِ خستہ میں وہ تاب نہیں ہے باقی
اب اُسے راحتِ جاں، دشمنِ دیں ملتے ہیں
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
بے خیالی میں وہ اک کام تو کر جاتی ہے
کاسۂ چشم کو دیدار سے بھر جاتی ہے
تتلیاں سیکھنے آتی ہیں نزاکت اُس سے
وہ جسے پھول بھی چھوتے ہیں تو ڈر جاتی ہے
حبس ایسا ہے ترے بعدد رونِ خانہ
سانس سہمے ہوئے آتی ہے ، ٹھہر جاتی ہے
زندگی نام ہے اُس عشق زدہ لڑکی کا
وقت پڑنے پہ جو دریا میں اُتر جاتی ہے
اس کو معلوم کہاں ضابطے حد بندی کے
سوچ درویش ہے، ہر حد سے گزر جاتی ہے
کیا عجب شے ہے تمناؤں کا مر جانا بھی
پاؤں پڑتے ہیں کدھر ،راہ کدھر جاتی ہے
ہم وہ آسیب زدہ جسم ہیں جن میں فیصلؔ
جونہی اُمید جنم لیتی ہے ، مر جاتی ہے
(فیصل ندیم فیصل۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
زخم کو رنگِ بہاراں نہیں ملنے دیتے
غم زمانے کے کچھ آساں نہیں ملنے دیتے
جیسے ممتاز ہو تم یوں ہی تمہارے دکھ ہیں
غم ِ دل میں غم ِ دوراں نہیں ملنے دیتے
درد بڑھتا ہے تو دور آپ سے ہو جاتے ہیں
حسن میں رنگ ِ پریشاں نہیں ملنے دیتے
مجھ تک آنا ہے تو پھر آگ کے دریا سے گزر
بے تگ و دو کبھی انساں نہیں ملنے دیتے
پہلے ملنے نہیں دیتی تھی دلوں کی الجھن
اب ہمیں زیست کے طوفاں نہیں ملنے دیتے
(عنبرین خان ۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
کشش وصال کی تفسیرِ انہدام نہ ہو
درختِ زرد امر بیل کا غلام نہ ہو
میں موج موج الجھتا ہوں بحرِ وحشت سے
کہیں یہ پہلی محبت کا انتقام نہ ہو
کبھی ہوا ہے جنوں کا صلہ بھی ردِ جنون
میں جیسے تجھ سے ہوا مجھ سے ہم کلام نہ ہو
یہ کارِ عشق سہولت ہے ایسے لوگوں کو
تمام عمر جنہیں اور کوئی کام نہیں
وہ آنکھ تیز ہے رفتارِ ماہ و انجم سے
دعا کرو کہ وہ تلوار بے نیام نہ ہو
یہ دکھ بھی کم ہے کہ یہ کائناتِ رنگ و بو
کسی کے کام نہ آئے، کسی کے نام نہ ہو
(ذی شان مرتضے۔ٰ پہاڑپور، ڈیرہ اسماعیل خان)
۔۔۔
غزل
کس نے آنکھوں کو مری خواب سے چمکایا ہے
کس نے دھڑکن کو مری پیار پہ اکسایا ہے
رات ہجرت کے تماشوں سے ہوئی ہے برباد
دن جدائی کی گھڑی دیکھ کے مرجھایا ہے
سائیں فرہاد سکھاتا ہے جنوں کے آداب
اور مجنوں کئی دن سے مرا ہم سایا ہے
کچھ وجوہات بتائیں کہ تغافل کیوں ہے
ایک سولی پہ مری سانس کو لٹکایا ہے
جگنوؤں کو ہے جلن تیرے حسیں چہرے سے
اور مہتاب ترے مکھڑے سے گہنایا ہے
آپ آئے ہیں مرے دل کے نہاں خانے میں
کتنا احسان مری جان پہ فرمایا ہے
دوستوں پر نہیں اب مجھ کو بھروسہ احمدؔ
کیونکہ ہر لمحہ مجھے اپنوں نے ٹھکرایا ہے
(احمد حجازی۔ لیاقت پور)
۔۔۔
غزل
جو میسر ہے اُسی شے کی ضرورت کم ہے
حسن والوں کی مرے شہر میں عزت کم ہے
میں نے جو جرم کیا ہے وہ مرے اندر ہے
اور وہ جرم بتانے کی بھی ہمت کم ہے
اُس جگہ بولنا معیوب سا لگتا ہے مجھے
جس جگہ پر بھی مری بات کی وقعت کم ہے
سات لوگوں کی کفالت مرے سر ہے شافیؔ
کمسنی میں مجھے جینے کی اجازت کم ہے
(بلال شافی۔جڑانوالہ، فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
کوئی دکھ لمحہ لمحہ بڑھ رہا ہے
کہ کچھ کھونے کا خدشہ بڑھ رہا ہے
تعجب ہے ترے ہوتے ہوئے بھی
ہمارے گرد اندھیرا بڑھ رہا ہے
نواحی بستیاں خالی نہیں ہیں
اور اپنی حد سے دریا بڑھ رہا ہے
میں اک زندان میں ہوں، اور مسلسل
مرے اطراف پہرہ بڑھ رہا ہے
محبت میں بچت کیسے ہو دل کی
کہ جب ہر روز خرچہ بڑھ رہا ہے
پلٹ جانے میں عافیّت ہے سب کی
یہاں سے آگے خطرہ بڑھ رہا ہے
حقیقت کھل رہی ہے دھیرے دھیرے
تعلق رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے
(حسیب علی۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
لوگ کہتے ہیں جس کو صحرا دوست
پہلے تھا اِس جگہ پہ دریا دوست
کھٹکھٹایا ہَوا نے دروازہ
میں یہ سمجھا کہ تُو ہے آیا دوست
پیڑ جو تُو نے کاٹ ڈالا ہے
کچھ پرندوں کا اِس پہ گھر تھا دوست
وار اُس نے کِیا بہت گہرا
جو تھا میرا بہت ہی گہرا دوست
درد سینے میں جاگ اُٹھتا ہے
یاد آتا ہے جب وہ بچھڑا دوست
جن گھروں میں کوئی نہ رہتا ہو
بھوت کر لیتے ہیں بسیرا دوست
میری آہ و فغاں یہ کون سنے
دوست ہوتا کوئی تو سنتا دوست
ہم بھرے شہر میں اکیلے ہیں
کاش ہوتا کوئی ہمارا دوست
زخم ہوتا تو کب کا بھر جاتا
دل کا ناسور کیسے بھرتا دوست
شب اندھیری تو فکر کیسی ہے
دن بھی نکلے گا کل سنہرا دوست
ساری دنیا بدل گئی راحلؔ
تُو ذرا بھی نہیں ہے بدلا دوست
( علی راحل ۔بورے والا، پنجاب)
۔۔۔
غزل
جو عشق کرنے لگے ہو تو اتنا دھیان رہے
کہ برقرار یہ توقیرِ خاندان رہے
جو اُن کی بزم میں خاموش کر دیے گئے ہیں
وہ خواب میں بھی سنا ہے کہ بے زبان رہے
ہم اپنی اپنی محبت کو لاکھ بھول چکے
'' مگر یہ بات ہمارے ہی درمیان رہے ''
ہماری روح کچھ ایسے بدن سے نہ خوش ہے
پرندہ جیسے کہ پنجرے سے بد گمان رہے
محبتوں میں یوں رسمِ وفا نبھاؤں گا
کہ روزِ حشر بھی ہر لب پہ داستان رہے
یہ التجا ہے بصد شوق اے بلال کے رب
سماعتوں میں سدا عشق کی اذان رہے
(بلال اختر۔رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
اڑاکے رکھ دی ہے میری نیندیں کہ خواب نے ہائے مارڈالا
فراقِ جاں میں تڑپ رہا ہوں عذاب نے ہائے مارڈالا
وہ تیرا چلنا وہ رک کے مڑنا نظر جھکاکر وہ مسکرانا
تری حیا نے تری ادا نے شباب نے ہائے مارڈالا
سوالِ الفت تو کرلیا ہے خدا ہی جانے جواب کیا ہو
خموش رہ کر مگر نظر کے جواب نے ہائے مارڈالا
کھلے نہ رازِ وفا کسی پر اٹھالیا ہے اسی کو سر نے
کہ جس میں تیری رکھی ہے فوٹو کتاب نے ہائے مارڈالا
وہ ایک ہوکر نظر جو آتی ہے چار یہ کیا معاملہ ہے
جو اس کی آنکھوں سے ہم نے پی تھی شراب نے ہائے مارڈالا
ہزار شمشیر و تیر آئے مگر نہ بسمل کبھی ہوا میں
ادا سے اس نے جو رخ پہ مارا گلاب نے ہائے مارڈالا
جو پرس ان کا گرا تھا ہم نے ادب سے ان کو دیا اٹھاکر
ملا طمانچہ ہے شکریے میں ثواب نے ہائے مارڈالا
(محمد کلیم شاداب۔ آکوٹ، ضلع آکولہ،انڈیا)
۔۔۔
غزل
کیا کہا پیار ہم نہیں کرتے
وہم اتنا صنم نہیں کرتے
تم سے تکرار ہم نہیں کرتے
ہاں مگر پیار کم نہیں کرتے
جسم تو ریت کا نوالہ تھا
سر بچا ہے سو خم نہیں کرتے
یادِجاناں میں شب گزرتی ہے
کارِ بے کار ہم نہیں کرتے
دھول کے مارے خواہشِ منزل
راہ کے پیچ و خم نہیں کرتے
تیری چاہت میں گم ہوئے ہیں ہم
فکرِجاہ و حشم نہیں کرتے
لغزشوں پر نگاہِ یاراں ہے
کیسے کہہ دوں کرم نہیں کرتے
ایک موقع ملے صفائی کا
سیفؔ اتنا ستم نہیں کرتے
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
وہ بظاہر برا نہیں کرتے
ورنہ کہنے کو کیا نہیں کرتے
کام وہ بھی کیا ہے ہم نے جو
احتیاطاًخدا نہیں کرتے
ایک بھی تو خوشی نہیں ایسی
جس کی قیمت ادا نہیں کرتے
دیکھ روشن چراغ سی لڑکی
اس طرح سے بجھا نہیں کرتے
ہم مسافر ہیں وہ مسافر جو
رک گئے تو چلا نہیں کرتا
تم پہ لعنت ہزار ہا لعنت
تم بھی چھپ چھپ کے کیا نہیں کرتے
ہم ہیں بازار کے وہ پھل عاجزؔ
شام تک جو بکا نہیں کرتے
(عمیر عاجز۔ تحصیل کروڑ، ضلع لیہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی