بلوچستان میں قیام امن کے دشمن
بلوچستان میں دہشت گردی کا مائنڈ سیٹ تاحال متحرک ہے، اس کے اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی
بلوچستان کے علاقے تربت میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے ملتان کی تحصیل شجاع آباد کے رہائشی ایک ہی خاندان کے چھ مزدور قتل اور دو زخمی ہوگئے۔
نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ نہ کسی بلوچ اور نہ کسی پنجابی نے بلکہ دہشت گردوں نے پاکستانیوں کو شہید کیا ہے، ناحق خون بہانے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔
دراصل صوبے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کا سب سے زیادہ فائدہ ان عناصر کو مل رہا ہے جو یہاں ترقی کے خلاف ہیں۔
دہشت گرد ماضی کے مقابلے میں زیادہ جدید اسلحے اور وسائل سے لیس ہیں، اِنہیں دی جانے والی غیر ملکی فنڈنگ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پنجاب ہو یا سندھ، خیبرپختونخوا ہو یا بلوچستان، سب ہی پاکستان کی اکائیاں ہیں تاہم معدنی وسائل سے مالامال بلوچستان اپنے قدرتی وسائل اور اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ملک دشمن قوتوں کا ٹارگٹ ہے۔
ِریکوڈِک کی کھربوں کی معدنیات کے علاوہ صوبے میں گوادر کی ترقی غیر ملکی قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، ایسی طاقتیں علاقے کے بعض نوجوانوں کی منفی ذہن سازی کرنے کے علاوہ چند لوگوں کو خرید کر علاقے میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرتی ہیں، تاہم متعلقہ ادارے دن رات محنت کر کے اِن کوششوں کو نہ صرف ناکام بناتے ہیں بلکہ اپنے خون سے پاکستان میں امن کی فصل سینچتے ہیں۔
یوں تو پچھلی چند دہائیوں سے مختلف صوبوں میں امن کے دشمن شورش بپا کرنے میں لگے رہتے ہیں، لیکن موثر کارروائیوں اور سدِباب کی کوششوں کے سبب اِن پر قابو پا لیا جاتا ہے، تاہم بلوچستان میں صورت حال قدرے مختلف ہے۔
یہاں دہشت گرد تواتر سے صوبے کے اَمن پر حملہ آور ہیں اور اِسی لیے اُن کی راہ میں حائل سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوان ہر وقت اُن کے نشانے پر رہتے ہیں۔
بلوچستان کا سماج قدیم قبائلی نظام سے لے کر نیم جاگیرداری، نیم تجارتی سرمایہ داری اور مسخ شدہ جدیدیت کا عجیب و غریب ملغوبہ بن چکا ہے۔ صدیوں کے تاریخی مدارج پر مشتمل یہ خطہ طرح طرح کی تفریقوں میں بٹا ہوا ہے۔
معاشرہ جب آگے کی جانب نہ بڑھ پا رہا ہو تو جمود کا شکار ہو جاتا ہے اور جدیدیت کے عہد میں بھی پسماندگی سماجی شعور پر غالب آجاتی ہے۔ فرقہ واریت پنپتی ہے، جرائم کی معیشت پھلتی پھولتی ہے اور غریب عوام مسلسل استحصال اور ظلم و بربریت کی اذیت سے دوچار رہتے ہیں۔
دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر شورش زدہ علاقوں میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں پر ہونے والے حملوں میں ایک بار پھر غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ کیوں یہ حملے ہو رہے ہیں اور کون ملوث ہے؟ دہشت گردی کی حالیہ لہر پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کی ایک سازش ہے۔
دراصل بلوچستان میں قیام امن کو تباہ کر کے دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتا ہے، یہاں اگر بد امنی ہوگی تو اس کے اثرات براہ راست ملک بھر پر پڑیں گے۔
حملوں کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شدت پسند تنظیمیں دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتیں کہ کوئی ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث کالعدم تنظیموں کے ارکان بڑے پیمانے پر دیہی علاقوں میں اپنے خفیہ ٹھکانوں میں رہائش پذیر ہیں۔
پر تشدد کارروائیوں کا تسلسل بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو ناکام بنانے کی بھی ایک کوشش ہے۔ بد امنی میں ملوث کالعدم تنظیمیں حکومت کی رٹ چیلنج کر کے اس حکومتی دعوے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ بلوچستان میں شدت پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔
پاکستان واحد ملک ہے جہاں عسکریت پسند تنظیموں کے تین طبقات پائے جاتے ہیں۔ پہلے طبقے میں وہ دہشت گرد تنظیم ہے جس کا دائرہ کاربین الاقوامی سطح پر ہے۔
دوسرے طبقے میں وہ دہشت گرد تنظیم ہے جو قومی سطح پر اپنی کارروائیاں کر رہی ہیں، جب کہ تیسرے طبقے میں وہ دہشت گرد تنظیم ہے جو مقامی سطح پر اپنی دہشت گردی کی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان تین مختلف سطحوں پر کام کرنے والی عسکریت پسند تنظیموں کے مابین زبردست اشتراک کار قائم ہیں۔
تینوں طبقوں کی ان دہشت گرد تنظیموں کے مابین منصوبہ بندی سے لے کر جنگی حکمت عملی، طریقہ کار اور اپنی کارروائیوں کو عملی جامعہ پہنانے تک دہشت گردی کے تمام مراحل میں ایک دوسرے کی کارروائیوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ہر قسم کے تعاون کا ماحول قائم ہے، جہاں تک مذہبی دہشت گردی کے سدِ باب کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
میدان جنگ ہو یا پُرامن حالات میں عسکریت پسندی کے لیے اُن کی تبلیغات دونوں میدانوں میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان مذہبی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کے لیے آپریشن نہایت ضروری ہے۔
تسلسل کے ساتھ ہونے والے دہشت گرد حملوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شدت پسندوں کی مضبوط جڑیں ہیں۔ ہر پرتشدد واقعے کے بعد شدت پسند آسانی سے اس لیے فرار ہو جاتے ہیں کیونکہ انھوں نے عام لوگوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ادارے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اور دور اندیشی پر مبنی اقدامات اٹھائیں تاکہ لوگ از خود امن مخالف عناصر کی سرکوبی کے لیے ان کے ساتھ تعاون کریں۔
دہشت گرد تنظیمیں بے گناہ شہریوں کے خون سے کھیل کر اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ بدامنی میں ملوث کالعدم تنظیموں کے کئی ارکان سیکیورٹی فورسز سے مقابلوں میں ہلاک اور گرفتار بھی ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں دہشت گردی کا مائنڈ سیٹ تاحال متحرک ہے، اس کے اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، یہی سے انتہا پسند بلوچستان کے دیگر علاقوں میں نقل و حمل کے لیے کمک پہنچاتے ہیں، حمایت اور حملوں کی منصوبہ بندی، ٹارگٹ کرنے کی کارروائی، منظم معلومات، سراغ رسانی اور ڈیٹا کلیکشن کے نتیجے میں کی جاتی ہے، سیکیورٹی فورسز کو ان دہشت گردوں کو اپنی قوت مجتمع ہونے کی مہلت نہیں دینی چاہیے۔
صوبے میں دہشت گردی کے پرانے سلیپر سیلز ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں، سیکیورٹی حلقوں کا کہنا ہے کہ صوبے میں سیاسی اضطراب کی وجوہ کا جائزہ لیتے ہوئے ان دہشت گردوں کی اجتماعی سرگرمیوں کو روکنا ناگزیر ہے جو مکران تک پھیلنے کے لیے مزید سیاسی خلفشار پیدا کرسکتے ہیں۔
ایک امکان یہ بھی ہے کہ سی پیک اور گوادر کی داخلی صورت حال سے متعلق جو افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں، ان میں کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو علاقے میں سماجی، اقتصادی صورتحال سے متعلق ہیں۔
عوام کو ان خطوط پر بدظن کیا جاسکتا ہے کہ پانی، روزگار اور ماہی گیری کے معاملات میں بہتری اور آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے لازمی ہیں، مین اسٹریم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے دو اسباب واضح طور پر داخلی سماجی اور سیاسی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں جب کہ ان مسائل کے حل میں جتنی کم تاخیر ہو اتنا ہی بہتر ہے، بلوچستان میں غربت آج بھی ایک مسئلہ ہے، بلوچستان کے دور افتادہ علاقے علاج، تعلیم، روزگار اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے محروم ہیں۔
عام بلوچ جدید دنیا کی سہولتوں سے فیض یاب نہیں، سماجی اور اقتصادی مصائب بے پناہ ہیں، کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ بلوچستان میں عدم مساوات کی شرح برائے نام ہے، لوگ حکومتی اقدامات اور اقتصادی و سماجی پروگراموں سے مستفید ہورہے ہیں اور حکومتی تبدیلیوں اور اقتصادی اقدامات کے باعث عوام کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہے تو یہ حقیقت پسندانہ انداز فکر نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی سے عام آدمی کی زندگی مسائل کا شکار ہے۔
لاتعداد لوگ انتہا پسندی کی وجہ سے نارمل زندگی نہیں گزار سکتے، دہشتگردی نے عدم اطمینان پیدا کیا ہے، لوگ حقیقی طمانیت سے محروم ہیں، سیکڑوں عمر رسیدہ خواتین اپنے پیاروں کے چہرے دیکھنے کی حسرت میں آنسو بہاتی ہیں۔
دہشت گردی ایک مستقل ذہنی اذیت ہے، جن کو بلوچستان میں کسی کام کے حوالے سے جانا پڑا ہے وہ بھی بے جا خوف کو بنیادی سبب بتاتے ہیں، اگر دہشتگردی اور بم دھماکے رک جائیں تو بلوچستان سے بہتر سیاحتی مقام کوئی اور نہیں۔
اِس میں دو رائے نہیں کہ سیاسی طور پر مستحکم ممالک ہی معاشی ترقی کر پاتے ہیں، پاکستان کو تو سیاسی استحکام کی اِس لیے بھی ضرورت ہے کہ پوری قوم جب تک ایک جان ہوکر چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرے گی، تب تک اِس کی مشکلات بڑھ تو سکتی ہیں لیکن کم ہرگز نہیں ہوں گی۔
اصل میں ہمارے ہمسائے بلوچستان میں قیام امن کے دشمن ہیں اور ہمیں ان کے خلاف چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کچلنے کے لیے بھی ازحد ضروری ہے کہ معاشرے میں سیاسی استحکام ہو تاکہ پوری قوم یکسو ہو کر اِس ناسور کو کچل سکے۔
نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ نہ کسی بلوچ اور نہ کسی پنجابی نے بلکہ دہشت گردوں نے پاکستانیوں کو شہید کیا ہے، ناحق خون بہانے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔
دراصل صوبے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کا سب سے زیادہ فائدہ ان عناصر کو مل رہا ہے جو یہاں ترقی کے خلاف ہیں۔
دہشت گرد ماضی کے مقابلے میں زیادہ جدید اسلحے اور وسائل سے لیس ہیں، اِنہیں دی جانے والی غیر ملکی فنڈنگ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پنجاب ہو یا سندھ، خیبرپختونخوا ہو یا بلوچستان، سب ہی پاکستان کی اکائیاں ہیں تاہم معدنی وسائل سے مالامال بلوچستان اپنے قدرتی وسائل اور اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ملک دشمن قوتوں کا ٹارگٹ ہے۔
ِریکوڈِک کی کھربوں کی معدنیات کے علاوہ صوبے میں گوادر کی ترقی غیر ملکی قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، ایسی طاقتیں علاقے کے بعض نوجوانوں کی منفی ذہن سازی کرنے کے علاوہ چند لوگوں کو خرید کر علاقے میں امن و امان کی صورتحال کو خراب کرتی ہیں، تاہم متعلقہ ادارے دن رات محنت کر کے اِن کوششوں کو نہ صرف ناکام بناتے ہیں بلکہ اپنے خون سے پاکستان میں امن کی فصل سینچتے ہیں۔
یوں تو پچھلی چند دہائیوں سے مختلف صوبوں میں امن کے دشمن شورش بپا کرنے میں لگے رہتے ہیں، لیکن موثر کارروائیوں اور سدِباب کی کوششوں کے سبب اِن پر قابو پا لیا جاتا ہے، تاہم بلوچستان میں صورت حال قدرے مختلف ہے۔
یہاں دہشت گرد تواتر سے صوبے کے اَمن پر حملہ آور ہیں اور اِسی لیے اُن کی راہ میں حائل سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوان ہر وقت اُن کے نشانے پر رہتے ہیں۔
بلوچستان کا سماج قدیم قبائلی نظام سے لے کر نیم جاگیرداری، نیم تجارتی سرمایہ داری اور مسخ شدہ جدیدیت کا عجیب و غریب ملغوبہ بن چکا ہے۔ صدیوں کے تاریخی مدارج پر مشتمل یہ خطہ طرح طرح کی تفریقوں میں بٹا ہوا ہے۔
معاشرہ جب آگے کی جانب نہ بڑھ پا رہا ہو تو جمود کا شکار ہو جاتا ہے اور جدیدیت کے عہد میں بھی پسماندگی سماجی شعور پر غالب آجاتی ہے۔ فرقہ واریت پنپتی ہے، جرائم کی معیشت پھلتی پھولتی ہے اور غریب عوام مسلسل استحصال اور ظلم و بربریت کی اذیت سے دوچار رہتے ہیں۔
دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر شورش زدہ علاقوں میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں پر ہونے والے حملوں میں ایک بار پھر غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ کیوں یہ حملے ہو رہے ہیں اور کون ملوث ہے؟ دہشت گردی کی حالیہ لہر پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کی ایک سازش ہے۔
دراصل بلوچستان میں قیام امن کو تباہ کر کے دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتا ہے، یہاں اگر بد امنی ہوگی تو اس کے اثرات براہ راست ملک بھر پر پڑیں گے۔
حملوں کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شدت پسند تنظیمیں دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتیں کہ کوئی ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث کالعدم تنظیموں کے ارکان بڑے پیمانے پر دیہی علاقوں میں اپنے خفیہ ٹھکانوں میں رہائش پذیر ہیں۔
پر تشدد کارروائیوں کا تسلسل بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو ناکام بنانے کی بھی ایک کوشش ہے۔ بد امنی میں ملوث کالعدم تنظیمیں حکومت کی رٹ چیلنج کر کے اس حکومتی دعوے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ بلوچستان میں شدت پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔
پاکستان واحد ملک ہے جہاں عسکریت پسند تنظیموں کے تین طبقات پائے جاتے ہیں۔ پہلے طبقے میں وہ دہشت گرد تنظیم ہے جس کا دائرہ کاربین الاقوامی سطح پر ہے۔
دوسرے طبقے میں وہ دہشت گرد تنظیم ہے جو قومی سطح پر اپنی کارروائیاں کر رہی ہیں، جب کہ تیسرے طبقے میں وہ دہشت گرد تنظیم ہے جو مقامی سطح پر اپنی دہشت گردی کی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان تین مختلف سطحوں پر کام کرنے والی عسکریت پسند تنظیموں کے مابین زبردست اشتراک کار قائم ہیں۔
تینوں طبقوں کی ان دہشت گرد تنظیموں کے مابین منصوبہ بندی سے لے کر جنگی حکمت عملی، طریقہ کار اور اپنی کارروائیوں کو عملی جامعہ پہنانے تک دہشت گردی کے تمام مراحل میں ایک دوسرے کی کارروائیوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ہر قسم کے تعاون کا ماحول قائم ہے، جہاں تک مذہبی دہشت گردی کے سدِ باب کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
میدان جنگ ہو یا پُرامن حالات میں عسکریت پسندی کے لیے اُن کی تبلیغات دونوں میدانوں میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان مذہبی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کے لیے آپریشن نہایت ضروری ہے۔
تسلسل کے ساتھ ہونے والے دہشت گرد حملوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شدت پسندوں کی مضبوط جڑیں ہیں۔ ہر پرتشدد واقعے کے بعد شدت پسند آسانی سے اس لیے فرار ہو جاتے ہیں کیونکہ انھوں نے عام لوگوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ادارے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اور دور اندیشی پر مبنی اقدامات اٹھائیں تاکہ لوگ از خود امن مخالف عناصر کی سرکوبی کے لیے ان کے ساتھ تعاون کریں۔
دہشت گرد تنظیمیں بے گناہ شہریوں کے خون سے کھیل کر اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ بدامنی میں ملوث کالعدم تنظیموں کے کئی ارکان سیکیورٹی فورسز سے مقابلوں میں ہلاک اور گرفتار بھی ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں دہشت گردی کا مائنڈ سیٹ تاحال متحرک ہے، اس کے اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، یہی سے انتہا پسند بلوچستان کے دیگر علاقوں میں نقل و حمل کے لیے کمک پہنچاتے ہیں، حمایت اور حملوں کی منصوبہ بندی، ٹارگٹ کرنے کی کارروائی، منظم معلومات، سراغ رسانی اور ڈیٹا کلیکشن کے نتیجے میں کی جاتی ہے، سیکیورٹی فورسز کو ان دہشت گردوں کو اپنی قوت مجتمع ہونے کی مہلت نہیں دینی چاہیے۔
صوبے میں دہشت گردی کے پرانے سلیپر سیلز ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں، سیکیورٹی حلقوں کا کہنا ہے کہ صوبے میں سیاسی اضطراب کی وجوہ کا جائزہ لیتے ہوئے ان دہشت گردوں کی اجتماعی سرگرمیوں کو روکنا ناگزیر ہے جو مکران تک پھیلنے کے لیے مزید سیاسی خلفشار پیدا کرسکتے ہیں۔
ایک امکان یہ بھی ہے کہ سی پیک اور گوادر کی داخلی صورت حال سے متعلق جو افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں، ان میں کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو علاقے میں سماجی، اقتصادی صورتحال سے متعلق ہیں۔
عوام کو ان خطوط پر بدظن کیا جاسکتا ہے کہ پانی، روزگار اور ماہی گیری کے معاملات میں بہتری اور آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے لازمی ہیں، مین اسٹریم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے دو اسباب واضح طور پر داخلی سماجی اور سیاسی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں جب کہ ان مسائل کے حل میں جتنی کم تاخیر ہو اتنا ہی بہتر ہے، بلوچستان میں غربت آج بھی ایک مسئلہ ہے، بلوچستان کے دور افتادہ علاقے علاج، تعلیم، روزگار اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں سے محروم ہیں۔
عام بلوچ جدید دنیا کی سہولتوں سے فیض یاب نہیں، سماجی اور اقتصادی مصائب بے پناہ ہیں، کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ بلوچستان میں عدم مساوات کی شرح برائے نام ہے، لوگ حکومتی اقدامات اور اقتصادی و سماجی پروگراموں سے مستفید ہورہے ہیں اور حکومتی تبدیلیوں اور اقتصادی اقدامات کے باعث عوام کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہے تو یہ حقیقت پسندانہ انداز فکر نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی سے عام آدمی کی زندگی مسائل کا شکار ہے۔
لاتعداد لوگ انتہا پسندی کی وجہ سے نارمل زندگی نہیں گزار سکتے، دہشتگردی نے عدم اطمینان پیدا کیا ہے، لوگ حقیقی طمانیت سے محروم ہیں، سیکڑوں عمر رسیدہ خواتین اپنے پیاروں کے چہرے دیکھنے کی حسرت میں آنسو بہاتی ہیں۔
دہشت گردی ایک مستقل ذہنی اذیت ہے، جن کو بلوچستان میں کسی کام کے حوالے سے جانا پڑا ہے وہ بھی بے جا خوف کو بنیادی سبب بتاتے ہیں، اگر دہشتگردی اور بم دھماکے رک جائیں تو بلوچستان سے بہتر سیاحتی مقام کوئی اور نہیں۔
اِس میں دو رائے نہیں کہ سیاسی طور پر مستحکم ممالک ہی معاشی ترقی کر پاتے ہیں، پاکستان کو تو سیاسی استحکام کی اِس لیے بھی ضرورت ہے کہ پوری قوم جب تک ایک جان ہوکر چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کرے گی، تب تک اِس کی مشکلات بڑھ تو سکتی ہیں لیکن کم ہرگز نہیں ہوں گی۔
اصل میں ہمارے ہمسائے بلوچستان میں قیام امن کے دشمن ہیں اور ہمیں ان کے خلاف چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کچلنے کے لیے بھی ازحد ضروری ہے کہ معاشرے میں سیاسی استحکام ہو تاکہ پوری قوم یکسو ہو کر اِس ناسور کو کچل سکے۔