کج سانوں مرن دا شوق وی سی
جوسرنگیں اس دور میں بچھائی گئی ہیں اسے صاف کرتے کرتے بڑے میاں صاحب کہیں تھک نہ جائیں
میاں شہبازشریف نے اپریل 2022 میں 16ماہ کی عارضی حکومت کابیڑہ بظاہر آصف علی زرداری کے کہنے پر اُٹھایا تھا۔
وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ جس طرح انھوں نے صوبہ پنجاب کو اپنی محنت اور کارگذاری سے ایک بہتر صوبہ بنا ڈالاتھا اسی طرح وہ وزیراعظم بن کر اس ملک کانقشہ ہی بدل ڈالیں گے، لیکن وہ ملک اوروطن عزیز کانقشہ کیابدل پاتے بلکہ قوم اورعوام کو مزید اذیت میں مبتلا کرگئے۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج کل اپنے ہرجلسے اوربیانوں میں اپنے اس دور کی صفائیاں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
انھوں نے اپنے ساتھ ساتھ ساری پارٹی کو بھی مشکلوں میںڈال دیا ہے ،وہ اگر اس وقت حکومت نہ سنبھالتے تو کیا ہوجاتا۔ کیا یہ ملک اورریاست ختم ہوجاتی ۔جنھوں نے اس ملک کی یہ درگت بنائی تھی اسے درست کرنا بھی انھی کی ذمے داری تھی۔ ''سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے'' کی عملی تصویر بن کر میاں شہباز شریف نے یہ مصیبت خود اپنے سرلے لی ۔وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کام اس لیے کیا کیونکہ ہم اگر اس وقت یہ نہ کرتے تو یہ ملک سری لنکا بن جاتااورعوام کو ضروریات زندگی کی کوئی شہ بھی دستیاب نہ ہوتی۔
ڈالر 500روپے تک جا پہنچتااوروطن عزیزکی سالمیت اور خود مختاری بھی خطرے میں پڑجاتی۔مگر انھیں یہ دیکھنا ہوگا کہ سری لنکا ڈیفالٹ ہوکر بھی آج دوبارہ کھڑا ہوگیااوراس کے روپے کی قیمت بھی مستحکم ہوچکی ہے۔ IMF نے اسے ہم سے زیادہ آسان شرائط پرامداد اورقرضے دیکر اسے دوبارہ اس قابل بنادیا کہ وہ قوموں کی برادری میں ایک بار پھر سے باعزت اورباوقار مقام حاصل کرنے لگا ہے۔
اس لیے یہ کہنا کہ ہم اگر اس وقت اقتدار نہیں سنبھالتے تو یہ ملک خدانخوستہ دنیا کے نقشے سے مٹ جاتاکسی طور درست اورصحیح سوچ نہیں ہے۔ دنیا میں بہت سے ملک ڈیفالٹ بھی ہوئے اور پھر سے مضبوط اورمستحکم معیشت کے حامل بھی بن گئے۔
IMFکی پالیسی ہی یہی ہے کہ کمزوروں کو ڈراکے اوردبا کے رکھاجائے اورجو ڈرجاتاہے اُسے وہ مزید دباکے رکھتاہے۔ ہم ڈیفالٹ ہونے سے بچنے کے لیے اس کے ہردباؤ کوقبول کرتے رہے اورنتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
اتحادی حکومت کے ایک وزیر خزانہ اسحق ڈار جب ملک کی معیشت سنبھالنے لندن سے دوڑے چلے آئے تویہ باور کیاجانے لگاکہ اب معیشت جلد ہی سدھر جائے گی ۔ وہ موصوف بھی قوم کو یہ تاثر دیتے رہے کہ ڈالر جلد ہی اپنی اصل قیمت یعنی 200 روپے پرجلد آجائے گااورملک ایک بار پھرترقی وخوشحالی کی منازل طے کرنے لگے گا۔
ڈالر 200 روپے پرکیا واپس آتا اُلٹا 300 کو بھی عبورکرگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے بجلی اورگیس کے بل دگنے اورچوگنے ہوگئے ، پٹرول کی قیمت بھی ڈالر کی طرح اُڑان بھرنے لگی ۔عوام کی زندگی اجیرن بنادی گئی۔خوشحالی کی نوید سناتے سناتے قوم کومایوسیوں اور نااُمیدیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیاگیا۔ صاحب حیثیت لوگ ملک چھوڑچھوڑ کرجانے لگے۔
غیر ملکی ویزا دفاترکے آگے لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں اورعوام اس حکومت کو کوسنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم لیگ نون ایک بڑی سیاسی پارٹی ہونے کے باوجود اپنی مقبولیت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے خوب ہاتھ پاؤں ماررہی ہے، یہ سب کچھ کیوں ہوا۔شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت نے خود اپنی پارٹی کے لیے ایسے گڑھے کھودڈالے ہیں کہ جن سے باہرنکلنا اب اس کے بس کی بات نہیں۔کوئی غیبی امداد ہی اسے اس عذاب سے باہرنکال سکتی ہے۔
21اکتوبر2023 کو بڑے میاں صاحب چاربرس کی خود ساختہ جلاوطنی گذار کرواپس تشریف تو لارہے ہیں لیکن عوام کے طرف سے والہانہ استقبال ہوتا ہے یا نہیں اس کا پتہ تو بعد میں چلے گا۔اسی لیے وہ اب تک پس وپیش سے کام لیتے رہے اورآنے سے پہلے ایک بھرپور مہم کا اہتمام بھی کروا لیا ہے۔ ملک کے مقتدر حلقوں کی طرف سے اگر یقین دہانی نہیں کروائی گئی ہوتی تووہ شاید واپس بھی نہیں آتے۔ایسا لگتا ہے کہ 2018 کا الٹا ری پلے چل رہاہے ۔
جومشکلیں اس وقت انھیں درپیش تھیں اورکسی اورشخص کے لیے راہیں ہموار کی جارہی تھیں آج اس کے بالکل برعکس ہورہاہے۔ وہ شخص جسے اس وقت وزیراعظم کے منصب پربٹھانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے گئے اورمیاں نوازشریف کو سیاست سے ہی باہر کر دیاگیابلکہ قید میں ڈال دیاگیا آج وہی منظرنامہ پلٹ دیاگیا ہے ۔
خان صاحب جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں اورجو اس وقت جیل میں تھا آج ایک آزاد شہری کی حیثیت سے لاہور شہر میں کھلے عام ایک بڑاجلسہ کرنے جارہا ہے۔''ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں'' کی حقیقی اورجیتی جاگتی تصویرآج ہمارے سامنے ہے۔
جنھیں کبھی یہ توقع بھی نہ تھی کہ چند مہینوں میں ساری کایا یوں پلٹ جائے گی کہ جو لوگ چیئرمین تحریک انصاف پراپنی جانیں نثارکرنے کی باتیں کیا کرتے تھے اب یوں اس کے خلاف چارج شیٹ پیش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
میاں شہباز شریف نے اپنے گلے میں مصیبت ڈال کرمسلم لیگ نون کی مقبولیت پر جو کاری ضرب لگائی ہے ،اسے مندمل ہونے میں چند مہینے نہیں بلکہ کئی سال لگ جائیںگے۔
جوسرنگیں اس دور میں بچھائی گئی ہیں اسے صاف کرتے کرتے بڑے میاں صاحب کہیں تھک نہ جائیں، اگر ایسا ہوا تو پھر اس ملک کامستقبل توکجا خود مسلم لیگ نون کامستقبل خطروں سے دوچار ہوجائے گا۔ مصطفی نواز کھوکھرایک نئی پارٹی بنانے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں لیکن ایسے انھیں لوگ نہیں مل رہے کہ جنھیں لے کر وہ عوام کو اپنی طرف راغب کرسکیں۔
اُن سے پہلے ہی دونئی سیاسی پارٹیاں جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی سربراہی میںبن چکی ہیں لیکن خان فیکٹر کی موجودگی میں ان کی دال ابھی گل نہیں رہی ہے۔ ایسے میں کون سی تیسری پارٹی عوامی مقبولیت کادرجہ حاصل کرپاسکتی ہے۔پارٹی چلانا کوئی اتنا آسان بھی نہیں ہوتا،اس کے لیے بہت سے فنڈز درکارہوتے ہیں۔
ملک کی ستر اسّی پارٹیوں میں سے ڈھیرساری صرف کاغذوں پر ہی موجود ہیں ۔الیکشن جیت جانا اُن کے بس کی بات نہیں۔وہ کسی بڑی پارٹی کو بلیک میل ضرور کرسکتی ہیں اوراس کے عوض کسی صوبے کی حکومت بھی حاصل کرسکتی ہیں لیکن صرف اپنے بل بوتے پربھرپور الیکشن نہیں جیت سکتیں ۔
شہباز شریف کو ریاست بچانے کا بیانیہ اب چھوڑنا ہوگاکیونکہ جوکام وہ اپنے 16 مہینوں میں نہ کرسکے وہ موجودہ کاکڑ حکومت نے دومہینوں میں کردکھایاہے۔
یعنی ڈالر کی قیمت کولگام اور سرحدوں سے اسمگلنگ روکنا۔یہ دونوں کام نجانے شہباز شریف کیوں نہ کرسکے، وہ اگر یہی کرجاتے تو آج اُن کے بڑے بھائی کوایسی مشکلیں درپیش نہ ہوتیں اورعوام کی بھاری اکثریت اُن کے استقبال کے لیے خود ہی باہرنکل آتی۔
وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ جس طرح انھوں نے صوبہ پنجاب کو اپنی محنت اور کارگذاری سے ایک بہتر صوبہ بنا ڈالاتھا اسی طرح وہ وزیراعظم بن کر اس ملک کانقشہ ہی بدل ڈالیں گے، لیکن وہ ملک اوروطن عزیز کانقشہ کیابدل پاتے بلکہ قوم اورعوام کو مزید اذیت میں مبتلا کرگئے۔یہی وجہ ہے کہ وہ آج کل اپنے ہرجلسے اوربیانوں میں اپنے اس دور کی صفائیاں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
انھوں نے اپنے ساتھ ساتھ ساری پارٹی کو بھی مشکلوں میںڈال دیا ہے ،وہ اگر اس وقت حکومت نہ سنبھالتے تو کیا ہوجاتا۔ کیا یہ ملک اورریاست ختم ہوجاتی ۔جنھوں نے اس ملک کی یہ درگت بنائی تھی اسے درست کرنا بھی انھی کی ذمے داری تھی۔ ''سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے'' کی عملی تصویر بن کر میاں شہباز شریف نے یہ مصیبت خود اپنے سرلے لی ۔وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کام اس لیے کیا کیونکہ ہم اگر اس وقت یہ نہ کرتے تو یہ ملک سری لنکا بن جاتااورعوام کو ضروریات زندگی کی کوئی شہ بھی دستیاب نہ ہوتی۔
ڈالر 500روپے تک جا پہنچتااوروطن عزیزکی سالمیت اور خود مختاری بھی خطرے میں پڑجاتی۔مگر انھیں یہ دیکھنا ہوگا کہ سری لنکا ڈیفالٹ ہوکر بھی آج دوبارہ کھڑا ہوگیااوراس کے روپے کی قیمت بھی مستحکم ہوچکی ہے۔ IMF نے اسے ہم سے زیادہ آسان شرائط پرامداد اورقرضے دیکر اسے دوبارہ اس قابل بنادیا کہ وہ قوموں کی برادری میں ایک بار پھر سے باعزت اورباوقار مقام حاصل کرنے لگا ہے۔
اس لیے یہ کہنا کہ ہم اگر اس وقت اقتدار نہیں سنبھالتے تو یہ ملک خدانخوستہ دنیا کے نقشے سے مٹ جاتاکسی طور درست اورصحیح سوچ نہیں ہے۔ دنیا میں بہت سے ملک ڈیفالٹ بھی ہوئے اور پھر سے مضبوط اورمستحکم معیشت کے حامل بھی بن گئے۔
IMFکی پالیسی ہی یہی ہے کہ کمزوروں کو ڈراکے اوردبا کے رکھاجائے اورجو ڈرجاتاہے اُسے وہ مزید دباکے رکھتاہے۔ ہم ڈیفالٹ ہونے سے بچنے کے لیے اس کے ہردباؤ کوقبول کرتے رہے اورنتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
اتحادی حکومت کے ایک وزیر خزانہ اسحق ڈار جب ملک کی معیشت سنبھالنے لندن سے دوڑے چلے آئے تویہ باور کیاجانے لگاکہ اب معیشت جلد ہی سدھر جائے گی ۔ وہ موصوف بھی قوم کو یہ تاثر دیتے رہے کہ ڈالر جلد ہی اپنی اصل قیمت یعنی 200 روپے پرجلد آجائے گااورملک ایک بار پھرترقی وخوشحالی کی منازل طے کرنے لگے گا۔
ڈالر 200 روپے پرکیا واپس آتا اُلٹا 300 کو بھی عبورکرگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے بجلی اورگیس کے بل دگنے اورچوگنے ہوگئے ، پٹرول کی قیمت بھی ڈالر کی طرح اُڑان بھرنے لگی ۔عوام کی زندگی اجیرن بنادی گئی۔خوشحالی کی نوید سناتے سناتے قوم کومایوسیوں اور نااُمیدیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیاگیا۔ صاحب حیثیت لوگ ملک چھوڑچھوڑ کرجانے لگے۔
غیر ملکی ویزا دفاترکے آگے لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں اورعوام اس حکومت کو کوسنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم لیگ نون ایک بڑی سیاسی پارٹی ہونے کے باوجود اپنی مقبولیت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے خوب ہاتھ پاؤں ماررہی ہے، یہ سب کچھ کیوں ہوا۔شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت نے خود اپنی پارٹی کے لیے ایسے گڑھے کھودڈالے ہیں کہ جن سے باہرنکلنا اب اس کے بس کی بات نہیں۔کوئی غیبی امداد ہی اسے اس عذاب سے باہرنکال سکتی ہے۔
21اکتوبر2023 کو بڑے میاں صاحب چاربرس کی خود ساختہ جلاوطنی گذار کرواپس تشریف تو لارہے ہیں لیکن عوام کے طرف سے والہانہ استقبال ہوتا ہے یا نہیں اس کا پتہ تو بعد میں چلے گا۔اسی لیے وہ اب تک پس وپیش سے کام لیتے رہے اورآنے سے پہلے ایک بھرپور مہم کا اہتمام بھی کروا لیا ہے۔ ملک کے مقتدر حلقوں کی طرف سے اگر یقین دہانی نہیں کروائی گئی ہوتی تووہ شاید واپس بھی نہیں آتے۔ایسا لگتا ہے کہ 2018 کا الٹا ری پلے چل رہاہے ۔
جومشکلیں اس وقت انھیں درپیش تھیں اورکسی اورشخص کے لیے راہیں ہموار کی جارہی تھیں آج اس کے بالکل برعکس ہورہاہے۔ وہ شخص جسے اس وقت وزیراعظم کے منصب پربٹھانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے گئے اورمیاں نوازشریف کو سیاست سے ہی باہر کر دیاگیابلکہ قید میں ڈال دیاگیا آج وہی منظرنامہ پلٹ دیاگیا ہے ۔
خان صاحب جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں اورجو اس وقت جیل میں تھا آج ایک آزاد شہری کی حیثیت سے لاہور شہر میں کھلے عام ایک بڑاجلسہ کرنے جارہا ہے۔''ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں'' کی حقیقی اورجیتی جاگتی تصویرآج ہمارے سامنے ہے۔
جنھیں کبھی یہ توقع بھی نہ تھی کہ چند مہینوں میں ساری کایا یوں پلٹ جائے گی کہ جو لوگ چیئرمین تحریک انصاف پراپنی جانیں نثارکرنے کی باتیں کیا کرتے تھے اب یوں اس کے خلاف چارج شیٹ پیش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
میاں شہباز شریف نے اپنے گلے میں مصیبت ڈال کرمسلم لیگ نون کی مقبولیت پر جو کاری ضرب لگائی ہے ،اسے مندمل ہونے میں چند مہینے نہیں بلکہ کئی سال لگ جائیںگے۔
جوسرنگیں اس دور میں بچھائی گئی ہیں اسے صاف کرتے کرتے بڑے میاں صاحب کہیں تھک نہ جائیں، اگر ایسا ہوا تو پھر اس ملک کامستقبل توکجا خود مسلم لیگ نون کامستقبل خطروں سے دوچار ہوجائے گا۔ مصطفی نواز کھوکھرایک نئی پارٹی بنانے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں لیکن ایسے انھیں لوگ نہیں مل رہے کہ جنھیں لے کر وہ عوام کو اپنی طرف راغب کرسکیں۔
اُن سے پہلے ہی دونئی سیاسی پارٹیاں جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی سربراہی میںبن چکی ہیں لیکن خان فیکٹر کی موجودگی میں ان کی دال ابھی گل نہیں رہی ہے۔ ایسے میں کون سی تیسری پارٹی عوامی مقبولیت کادرجہ حاصل کرپاسکتی ہے۔پارٹی چلانا کوئی اتنا آسان بھی نہیں ہوتا،اس کے لیے بہت سے فنڈز درکارہوتے ہیں۔
ملک کی ستر اسّی پارٹیوں میں سے ڈھیرساری صرف کاغذوں پر ہی موجود ہیں ۔الیکشن جیت جانا اُن کے بس کی بات نہیں۔وہ کسی بڑی پارٹی کو بلیک میل ضرور کرسکتی ہیں اوراس کے عوض کسی صوبے کی حکومت بھی حاصل کرسکتی ہیں لیکن صرف اپنے بل بوتے پربھرپور الیکشن نہیں جیت سکتیں ۔
شہباز شریف کو ریاست بچانے کا بیانیہ اب چھوڑنا ہوگاکیونکہ جوکام وہ اپنے 16 مہینوں میں نہ کرسکے وہ موجودہ کاکڑ حکومت نے دومہینوں میں کردکھایاہے۔
یعنی ڈالر کی قیمت کولگام اور سرحدوں سے اسمگلنگ روکنا۔یہ دونوں کام نجانے شہباز شریف کیوں نہ کرسکے، وہ اگر یہی کرجاتے تو آج اُن کے بڑے بھائی کوایسی مشکلیں درپیش نہ ہوتیں اورعوام کی بھاری اکثریت اُن کے استقبال کے لیے خود ہی باہرنکل آتی۔