غیر قانونی ٹاورز بنوانے والے محفوظ کیوں

غیر قانونی تعمیرات کی تکمیل تک ایس بی سی اے افسران کی آنکھیں بند رہتی ہیں

m_saeedarain@hotmail.com

سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ 80 گز کے پلاٹوں پر ٹاورز کھڑے کرکے کراچی کا پورا سیوریج نظام تباہ کر دیا گیا ہے اور نالوں کو بھی نہیں بخشا گیا جن پر تجاوزات قائم نہ کرنے کا سپریم کورٹ کا حکم نامہ موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے نالے پر تجاوزات کے خلاف درخواست پر این ڈی ایم اے اور کمشنر کراچی کو نوٹس جاری کرکے اس سلسلے میں جواب طلب کر لیا ہے۔ فاضل ججز نے یہ بھی کہا کہ رہائشی علاقوں میں کمرشل سرگرمیاں ہو رہی ہیں کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے لیموں گوٹھ کے نالے پر تعمیرات کے علاوہ ناظم آباد بلاک 3 میں غیر قانونی تعمیرات روکنے کا بھی حکم دیا ہے کہ جہاں بغیر اجازت 5 منزلہ عمارت تعمیر کر لی گئی ہے۔

عدالت نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ مسلمانوں اور خاص کر پاکستانیوں کا مزاج بن گیا ہے کہ تھوڑا سا موقع مل جائے تو کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ عدالت نے اس سلسلے میں ایس بی سی اے کو غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کرنے سے بھی روک دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلے میں جوابات ملنے پر کارروائی ہوگی۔ لیموں گوٹھ پر نالے پر جو غیر قانونی تعمیرات ہوئی ہیں اس پر عدالت نے درخواست گزار سے پوچھا کہ کیا آپ پوری آبادی مسمار کرانا چاہتی ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ نے شارع فیصل کراچی پر واقع نسلہ ٹاور منہدم کرایا تھا ۔ سفید پوش متاثرین کا خیال کرتے ہوئے درخواست گزار سے یہ پوچھا گیا کہ ''کیا آپ پوری آبادی مسمار کرانے کے خواہش مند ہیں'' اس وقت ناظم آباد میں غیر قانونی تعمیرات بھی برقرار ہیں۔ کراچی میں عمارتوں کا جنگل بنانے اور غیر قانونی تعمیرات کی مکمل ذمے داری سابقہ کے بی سی اے اور موجودہ ایس بی سی اے پر عائد ہوتی ہے۔

ایس بی سی اے میں ایک معمولی ملازم سے تمام اعلیٰ افسران غیر قانونی تعمیرات کے ذمے دار ہیں اور پیپلز پارٹی کی 15 سالہ حکومت میں ایس بی سی اے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بنا رہا۔ پہلے یہ ادارہ کراچی تک محدود کے بی سی اے تھا جس میں اندھی کمائی ہو رہی تھی جس کے باعث عمارتوں کی تعمیرات کرانے والے اس ادارے کو سندھ تک پھیلایا گیا اور بلدیاتی اداروں میں سب سے زیادہ کمائی اور شکایات ہونا ایس بی سی اے نامی ادارے کا نام ہے۔

پہلے کراچی کے بی سی اے کی کمائی کا گڑھ تھا جس میں کراچی کے بعد پورے سندھ کو ایس بی سی اے کے شکنجے میں دے دیا گیا۔ کراچی میں پلاٹ مہنگے، آبادی کا مسلسل بڑھنا اور جگہ کم ہونے کی وجہ سے چھوٹے پلاٹوں پر بھی پانچ چھ منزلوں کی تعمیر کر دی جاتی ہے۔ کراچی کے متعدد علاقوں میں اونچی اونچی کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر پابندی ہے جس پر کسی حد تک کنٹونمنٹس میں عمل ہوا کیونکہ اس سلسلے میں ڈی ایچ اے کے قوانین سخت ہیں۔


قوانین تو کے بی سی اے کے بھی سخت تھے جو بھاری رشوت لے کر آسان ہو جاتے ہیں اور ایس بی سی اے کے فیلڈ افسران، انسپکٹرز، تمام ڈائریکٹرز بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور پکڑے جانے والوں میں صرف ایک شخص تھا جو مفرور ہے۔ایس بی سی اے کا دائرہ وسیع ہونے سے حکومت کو کم مگر تمام کرپٹ افسروں کو زیادہ فائدہ ہوا ہے۔

غیر قانونی تعمیرات میں صرف ایس بی سی اے نہیں بلکہ ایک مافیا بھی ملوث ہے جس کے کرداروں کو سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ اس نیٹ ورک میں عملے کے علاوہ بعض غیر معروف وکلا، چھوٹے اخباروں کے ایس بی سی اے کی بیٹ کرنے والے رپورٹر بھی شامل ہیں جو شہر میں گھوم پھر کر خود غیر قانونی تعمیرات کا سراغ لگاتے ہیں۔

ایس بی سی اے کا عملہ پہلے خود اپنا اور اوپر والوں کا حصہ وصول کرکے ان لوگوں کو وہاں بھیج دیتا ہے جس کی وجہ سے چھوٹی غیر قانونی تعمیرات کرنے والوں کو عملے کے علاوہ انھیں بھی رشوت دینا پڑتی ہے ورنہ عدالتوں سے حکم امتناعی جاری کرا لیا جاتا ہے یا خبریں شایع کرائی جاتی ہیں۔

بعض عدالتی اہلکار بھی اس میں ملوث ہیں اور ہر غیر متعلقہ فرد کی درخواست پر حکم امتناعی جاری کرا دیتے ہیں اور بعض خود ساختہ این جی اوز بھی غیر قانونی تعمیرات کرا رہی ہیں۔ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ایس بی سی اے اور عدلیہ میں درخواستیں غیر متعلقہ افراد دیتے ہیں جو اس علاقے کے ہوتے ہیں نہ وہ پڑوسی یا اہل محلہ ہوتے ہیں مگر بعض اپنے مالی مفادات کے لیے ایسا کرتے ہیں جب کہ یہ حق صرف متاثرین یا اہل محلہ کا ہوتا ہے۔

شہر بھر میں پابندی کے باوجود اور نقشے کی منظوری کے برعکس تعمیرات بڑھ رہی ہیں جس پر اہل محلہ نے اپنے علاقوں میں بینرز لگانا شروع کر دیے ہیں جن میں لوگوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ یہ تعمیرات غیر قانونی ہیں لوگ اس کی خریداری نہ کریں۔

ایس بی سی اے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے ریمارکس آتے رہے ہیں مگر ایس بی سی اے اور دیگر متعلقہ اداروں پر اثر نہیں ہوتا اور رشوت دے کر این او سی دے دیا جاتا ہے اور غیر قانونی تعمیرات کی سزا نسلہ ٹاور کی طرح وہاں کے رہائشیوں کو ملتی ہے۔

غیر قانونی تعمیرات کی تکمیل تک ایس بی سی اے افسران کی آنکھیں بند رہتی ہیں اور ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی اس لیے سب سے پہلے غیر قانونی تعمیرات کے ذمے دار ایس بی سی اے افسروں کی معطلی نہیں گرفتاری ہونی چاہیے اور لوگوں کا مالی نقصان بھی متعلقہ افسروں کی جائیدادوں کی فروخت سے پورا کرایا جانا چاہیے تب ہی یہ سدھریں گے۔
Load Next Story