تاریخ سچائی کی متلاشی ہے
شہید ِملت لیاقت علی خاں کے قتل کے محرکات کیا تھے؟
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا بھر میں ہائی پروفائل شخصیات کے قتل کے محرکات کو تلاش تو کرلیا گیا لیکن اقدام قتل کے بعد کی تفتیش بہت کم سامنے آئی۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کی نہ تو تفتیش مکمل ہوئی اور نہ ہی عدالتی تحقیقات کے ذریعے حقائق منظرعام پر آسکے۔
تفتیش پر مامور اس زمانے کی اسپیشل پولیس (آج کی FIA) کے انسپکٹر جنرل کا طیارہ بمعہ تفتیشی دستاویزات حادثے کا شکار ہوا اور یوں تفتیش کی نگرانی کرنے والی اعلیٰ ترین شخصیت کے ذہن میں اس قتل سے متعلق جو یادداشتیں ومعلومات موجود تھیں وہ ضائع ہوگئیں اور ساتھ ہی وہ کاغذات بھی ہمیشہ کے لیے دفن ہوگئے۔
اسی کے ساتھ فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس منیر کے ذریعے ہونے والی عدالتی تحقیقات بھی بے نتیجہ ثابت ہوئیں اور قومی سلامتی کے نام پر متعدد معلومات بھی صیغۂ راز کی نذرہوگئیں۔ اسی زمانے میں بیگم رعنالیاقت علی خان نے فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس سرعبدالرشید سے عدالتی تحقیقات کے دائرہ کار کو وسیع کرنے پر اصرار کیا تو سرعبدالرشید نے یہ کہہ کر معاملے کو ٹال دیا کہ قتل چوںکہ پنجاب کی صوبائی حدود میں ہوا ہے اس لیے یہ صوبائی مسئلہ ہے۔
18 جولائی 2006 کو مشرق وسطی سے شائع ہونے والے کثیرالاشاعت اخبار ''عرب نیوز'' نے اس قتل سے متعلق سیدراشد حسین کا مضمون شائع کیا جس میں موصوف نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اہم تحقیقی مواد جمع کردیا۔ مذکورہ مضمون میں نہ صرف اکتوبر 1951 ء میں بھوپال سے شائع ہونے والے اردو اخبار ''ندیم'' کا حوالہ موجود ہے، بلکہ امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ان کاغذات تذکرہ بھی شامل جنہیں 2000 میں معمول کے مطابق افشاء کیا گیا تھا۔
ان مطبوعات میں لیاقت علی خان کے قتل کے محرکات میں کہیں نہ کہیں اس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکا کی حکومت کے مفادات نظر آتے ہیں۔ حالات کے مشاہدے سے پتا چلتا ہے کہ امریکا دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اپنے مفادات نظر آتے ہیں۔
حالات کے مشاہدے سے پتا چلتا ہے کہ امریکا دوسری جگ عظیم کے بعد سے اپنے مفادات کی خاطر پوری دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ میں نہ صرف ہر طرح کی سازشوں میں مصروف رہا بلکہ فوجی کارروائیوں سے بھی گریز نہیں کیا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جب واحد سپرپاور کی حیثیت سے امریکا نمودار ہوا تو بلاروک ٹوک تیسری دنیا میں اپنے مفادات کے تحفظ وحصول کے نام پر وہ کچھ کرتا رہا جن کی جڑیں اس کی تاریخ میں پیوست ہیں۔
1950 کی دہائی کے اوائل میں ریاست ہائے متحدہ امریکا نے پاکستان سے بعض اسٹریٹیجک نوعیت کی مراعات کاطلب گار تھا۔ اس وقت تک سعودی عرب میں تیل کے اتنے بڑے ذخائر دریافت نہیں ہوئے تھے جو مغرب خصوصاً امریکا کی ضروریات کے لیے درکار تھے۔ البتہ برطانیہ نے ایران میں تیل کے بڑے ذخائر دریافت کرلیے تھے اور امریکی حکومت کی خواہش تھی کہ ان ذخائر کے تصرف پر اس کو مکمل دسترس حاصل ہو۔
چناںچہ وہ ایرانی تیل پر برطانیہ کے بجائے اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے پاکستان سے ایران پر دباؤ ڈلوانے کا خواہش مند تھا اور چاہتا تھا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان شہنشاہ ایران محمدرضاشاہ پہلوی اور ان کی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ ایرانی تیل کے ذخائر کا تسلط برطانیہ سے امریکا مستقل کرائیں۔ دوسری جانب برطانیہ بھی تیل کے ایرانی ذخائر پر اپنی دسترس بحال رکھنا چاہتا تھا۔ اس موقع پر لیاقت علی خان نے امریکا پر واضح کردیا کہ وہ ایران کے اندرونی معاملات کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال نہیں کریں گے۔
دوسری طرف دوسری جنگ عظیم کے دوران پاکستان کی حدود میں موجود برطانیہ کے فضائی اڈے جن کو جنگ عظیم کے دوران اتحادی ممالک جن میں امریکا شامل تھا، استعمال کرسکتے تھے۔ غالباً یہ ایئرپورٹس مشرقی پاکستان میں ہوں گے کیوںکہ مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر ہی اتحادی فوجیں جاپان سے نبردآزما تھیں۔ لیاقت علی خان نے امریکا کو ان فضائی اڈوں کو استعمال کرنے کے لیے دینے سے قطعاً انکار کردیا تھا۔
البتہ ایک فضائی اڈا صدرایوب خان کے دورحکومت میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کو دیا گیا جہاں سے ایک مرتبہ امریکی جاسوسی طیارے نے سوویت یونین کی حدود میں پرواز کی تھی۔ مذکورہ بالا مطالبات کی پاکستان کی جانب سے عدم منظوری کے بعد امریکا نے پاکستان پر واضح کردیا تھا کہ وہ جموں وکشمیر کے تنازعے میں اپنے ماضی کے وعدے پر پاکستانی موقف کی تائید نہیں کرے گا۔
اس موقع پر قائد ملت لیاقت علی خان کا اعلان تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں میں برملا کہا تھا کہ پاکستان نے کشمیر کا بڑا حصہ خود اپنے بل بوتے پر آزاد کرلیا ہے اور وہ بغیر کسی مدد کے بقیہ کشمیر بھی آزاد کرالے گا۔ میری تحقیق کے مطابق عوامی جمہوریہ چین کی نوزائیدہ ریاست کو پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنا اور سفارتی روابط قائم کرنا بھی مغرب بالخصوص امریکا کو سخت ناگوار گزرا تھا۔ لیاقت علی خان نے اپنے دورۂ امریکا میں کئی موقع پر واضح کردیا تھا کہ وہ مستقبل میں سوویت یونین کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مئی 1950 ء میں لیاقت علی خان کے دورۂ امریکا میں عدیم المثال استقبال کی وجہ سے صدر ہیری ٹرومین اور ان کی حکومت کا خیال تھا کہ وزیراعظم ان کے ہر مطالبے کی تائید کریں گے مگر انہوں نے پاکستانی مفادات کو مقدم رکھا۔
لیاقت علی خان کے دورۂ امریکا کے دوران امریکی قانون PL-480 کے ذریعے اجلاس کی شکل میں اعانت کا عند یہ دیا گیا تھا لیکن نہ تو وزیراعظم لیاقت علی خان نے اور نہ ہی ان کے پیش ردPL-480 کے ذریعے اجناس کی مدد کو قبول کیا بلکہ خواجہ ناظم الدین کے دورحکومت میں اقتدار میں شریک وزراء وگورنرز کی جانب سے آٹے کا مصنوعی قحط برپا کرکے وزیراعظم خواجہ نظام الدین کو امریکی گندم قبول کرنے پر مجبور کیا گیا لیکن انہوں نے اپنی برطرفی تک اس دباؤ کو قبول نہیں کیا۔
آج پاکستان میں ناقدین اور بعض سادہ لوح وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورۂ امریکا کو ملک کو امریکی کیمپ میں شامل کرنے کے کام کو پہلا قدم قرار دیتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے 3 سال بعد گورنر جنرل غلام محمد کی سربراہی میں اقتدار میں شامل شخصیات نے امریکا کے ساتھ پاکستان کے دفاعی معاہدوں کی داغ بیل ڈالی تھی اور 1954 ہی میں امریکی خوش نودی کے لیے پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
اگر پاکستان کے امریکی کیمپ میں شمولیت کے لیے مذکورہ مفروضے کو درست تسلیم کرلیا جائے تو کیا آج جب وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستان کی حکومت کو سیکولرازم اور غیرجانب داری کے آئینی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر امریکا کے قدموں میں نہیں رکھ دیا ہے؟ کیا یہ بھی ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے امریکی دورے کا نتیجہ ہے۔
جنہوں نے لیاقت علی خان کے دورۂ امریکا سے ایک سال قبل1949 ء میں امریکا کا دورہ کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ لیاقت علی خان کی شہادت کے3 سال بعد اقتدار میں آنے والے حکم رانوں نے پاکستان کو امریکی کیمپ میں شامل کیا اور جواہر لعل نہرو کے انتقال کے کئی عشروں بعد اب ہندوستان کے موجودہ حکم رانوں نے ہندوستان کو اسی مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔
ملکی 75 سالہ تاریخ سے ثابت ہے کہ لیاقت علی خان کا قتل دراصل پاکستان میں امریکی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ انٹیلی جینس رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں وفاقی وزیرخزانہ غلام محمد ، وزیر بے قلم دان نواب مشتاق احمد گورمانی اور سیکریٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا تواتر کے ساتھ دارالحکومت کراچی میں امریکی سفیر سے ملاقاتیں کرتے رہے تھے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون میں لیاقت علی خان کے قتل سے متعلق بعض اہم انکشافات کیے گئے ہیں جن کے مطابق افغانستان میں موجود پشتونستان کی تحریک سے رابطہ کر کے افغانی باشندے سید اکبر کو وزیراعظم کے قتل پر آمادہ کیا گیا تھا اور ان کو یہ نوید سنائی گئی کہ 1953 میں پاکستان کے علاقے پر مشتمل پشتونستان تشکیل دیا جائے گا۔
اخبارات کی اطلاع کے مطابق سید اکبر کو لیاقت علی خان کی قتل گاہ کمپنی باغ راولپنڈی میں ہی گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا۔ گجرات کے ایک قصبہ میں رہنے والے پولیس افسر نے سید اکبر کو گولیاں ماری تھیں۔ وہ فخر سے اس کارنامے کا ذکرکیا کرتا تھا لیکن شاید گواہی مٹانے کے لیے اس پولیس افسر کو بھی 60کی دہائی کے اولین سالوں میں بے دردی کے ساتھ مار دیا گیا۔
سید اکبر کی ہلاکت کے بعد اس کے سامان سے بڑی تعداد میں پاکستان کے کرنسی نوٹ برآمد ہوئے تھے جب کہ اس زمانے میں پاکستان اور افغانستان کے مابین کرنسی کا تبادلہ نہیں ہوتا تھا۔
عرب نیوز کے مضمون میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کو سب سے پہلے تعزیتی ٹیلیفون امریکی سفیر نے کیا تھا اور اس کے 3½منٹ بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے بیگم صاحبہ سے تعزیت کی تھی، جب کہ گورنر جنرل راولپنڈی سے قریب ہی نتھیا گلی میں مقیم تھے اور ان ہی کو مقامی حکام نے اس سانحے کی خبر دی تھی۔
راقم الحروف نے کرنل ڈاکٹر ایم بی اعظمی کے ایک مضمون میں پڑھا تھا کہ وہ (ڈاکٹر صاحب) کمبائنڈ ملٹری اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں موجود تھے، جہاں لیاقت علی خان کا نظام تنفس بحال کرنے اور ان کے جسم سے گولیاں نکالنے کی کوشش جاری تھی۔
اس موقع پر انہوں نے پنجاب کے گورنر سردار عبدالرب نشتر اور راولپنڈی کے انگریزی ڈپٹی کمشنر کے علاوہ کسی دوسری اہم شخصیت کو اسپتال آتے ہوئے نہیں دیکھا۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کی نہ تو تفتیش مکمل ہوئی اور نہ ہی عدالتی تحقیقات کے ذریعے حقائق منظرعام پر آسکے۔
تفتیش پر مامور اس زمانے کی اسپیشل پولیس (آج کی FIA) کے انسپکٹر جنرل کا طیارہ بمعہ تفتیشی دستاویزات حادثے کا شکار ہوا اور یوں تفتیش کی نگرانی کرنے والی اعلیٰ ترین شخصیت کے ذہن میں اس قتل سے متعلق جو یادداشتیں ومعلومات موجود تھیں وہ ضائع ہوگئیں اور ساتھ ہی وہ کاغذات بھی ہمیشہ کے لیے دفن ہوگئے۔
اسی کے ساتھ فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس منیر کے ذریعے ہونے والی عدالتی تحقیقات بھی بے نتیجہ ثابت ہوئیں اور قومی سلامتی کے نام پر متعدد معلومات بھی صیغۂ راز کی نذرہوگئیں۔ اسی زمانے میں بیگم رعنالیاقت علی خان نے فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس سرعبدالرشید سے عدالتی تحقیقات کے دائرہ کار کو وسیع کرنے پر اصرار کیا تو سرعبدالرشید نے یہ کہہ کر معاملے کو ٹال دیا کہ قتل چوںکہ پنجاب کی صوبائی حدود میں ہوا ہے اس لیے یہ صوبائی مسئلہ ہے۔
18 جولائی 2006 کو مشرق وسطی سے شائع ہونے والے کثیرالاشاعت اخبار ''عرب نیوز'' نے اس قتل سے متعلق سیدراشد حسین کا مضمون شائع کیا جس میں موصوف نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اہم تحقیقی مواد جمع کردیا۔ مذکورہ مضمون میں نہ صرف اکتوبر 1951 ء میں بھوپال سے شائع ہونے والے اردو اخبار ''ندیم'' کا حوالہ موجود ہے، بلکہ امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ان کاغذات تذکرہ بھی شامل جنہیں 2000 میں معمول کے مطابق افشاء کیا گیا تھا۔
ان مطبوعات میں لیاقت علی خان کے قتل کے محرکات میں کہیں نہ کہیں اس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکا کی حکومت کے مفادات نظر آتے ہیں۔ حالات کے مشاہدے سے پتا چلتا ہے کہ امریکا دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اپنے مفادات نظر آتے ہیں۔
حالات کے مشاہدے سے پتا چلتا ہے کہ امریکا دوسری جگ عظیم کے بعد سے اپنے مفادات کی خاطر پوری دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ میں نہ صرف ہر طرح کی سازشوں میں مصروف رہا بلکہ فوجی کارروائیوں سے بھی گریز نہیں کیا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جب واحد سپرپاور کی حیثیت سے امریکا نمودار ہوا تو بلاروک ٹوک تیسری دنیا میں اپنے مفادات کے تحفظ وحصول کے نام پر وہ کچھ کرتا رہا جن کی جڑیں اس کی تاریخ میں پیوست ہیں۔
1950 کی دہائی کے اوائل میں ریاست ہائے متحدہ امریکا نے پاکستان سے بعض اسٹریٹیجک نوعیت کی مراعات کاطلب گار تھا۔ اس وقت تک سعودی عرب میں تیل کے اتنے بڑے ذخائر دریافت نہیں ہوئے تھے جو مغرب خصوصاً امریکا کی ضروریات کے لیے درکار تھے۔ البتہ برطانیہ نے ایران میں تیل کے بڑے ذخائر دریافت کرلیے تھے اور امریکی حکومت کی خواہش تھی کہ ان ذخائر کے تصرف پر اس کو مکمل دسترس حاصل ہو۔
چناںچہ وہ ایرانی تیل پر برطانیہ کے بجائے اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے پاکستان سے ایران پر دباؤ ڈلوانے کا خواہش مند تھا اور چاہتا تھا کہ وزیراعظم لیاقت علی خان شہنشاہ ایران محمدرضاشاہ پہلوی اور ان کی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ ایرانی تیل کے ذخائر کا تسلط برطانیہ سے امریکا مستقل کرائیں۔ دوسری جانب برطانیہ بھی تیل کے ایرانی ذخائر پر اپنی دسترس بحال رکھنا چاہتا تھا۔ اس موقع پر لیاقت علی خان نے امریکا پر واضح کردیا کہ وہ ایران کے اندرونی معاملات کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال نہیں کریں گے۔
دوسری طرف دوسری جنگ عظیم کے دوران پاکستان کی حدود میں موجود برطانیہ کے فضائی اڈے جن کو جنگ عظیم کے دوران اتحادی ممالک جن میں امریکا شامل تھا، استعمال کرسکتے تھے۔ غالباً یہ ایئرپورٹس مشرقی پاکستان میں ہوں گے کیوںکہ مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر ہی اتحادی فوجیں جاپان سے نبردآزما تھیں۔ لیاقت علی خان نے امریکا کو ان فضائی اڈوں کو استعمال کرنے کے لیے دینے سے قطعاً انکار کردیا تھا۔
البتہ ایک فضائی اڈا صدرایوب خان کے دورحکومت میں سوویت یونین کے خلاف امریکا کو دیا گیا جہاں سے ایک مرتبہ امریکی جاسوسی طیارے نے سوویت یونین کی حدود میں پرواز کی تھی۔ مذکورہ بالا مطالبات کی پاکستان کی جانب سے عدم منظوری کے بعد امریکا نے پاکستان پر واضح کردیا تھا کہ وہ جموں وکشمیر کے تنازعے میں اپنے ماضی کے وعدے پر پاکستانی موقف کی تائید نہیں کرے گا۔
اس موقع پر قائد ملت لیاقت علی خان کا اعلان تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں میں برملا کہا تھا کہ پاکستان نے کشمیر کا بڑا حصہ خود اپنے بل بوتے پر آزاد کرلیا ہے اور وہ بغیر کسی مدد کے بقیہ کشمیر بھی آزاد کرالے گا۔ میری تحقیق کے مطابق عوامی جمہوریہ چین کی نوزائیدہ ریاست کو پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنا اور سفارتی روابط قائم کرنا بھی مغرب بالخصوص امریکا کو سخت ناگوار گزرا تھا۔ لیاقت علی خان نے اپنے دورۂ امریکا میں کئی موقع پر واضح کردیا تھا کہ وہ مستقبل میں سوویت یونین کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مئی 1950 ء میں لیاقت علی خان کے دورۂ امریکا میں عدیم المثال استقبال کی وجہ سے صدر ہیری ٹرومین اور ان کی حکومت کا خیال تھا کہ وزیراعظم ان کے ہر مطالبے کی تائید کریں گے مگر انہوں نے پاکستانی مفادات کو مقدم رکھا۔
لیاقت علی خان کے دورۂ امریکا کے دوران امریکی قانون PL-480 کے ذریعے اجلاس کی شکل میں اعانت کا عند یہ دیا گیا تھا لیکن نہ تو وزیراعظم لیاقت علی خان نے اور نہ ہی ان کے پیش ردPL-480 کے ذریعے اجناس کی مدد کو قبول کیا بلکہ خواجہ ناظم الدین کے دورحکومت میں اقتدار میں شریک وزراء وگورنرز کی جانب سے آٹے کا مصنوعی قحط برپا کرکے وزیراعظم خواجہ نظام الدین کو امریکی گندم قبول کرنے پر مجبور کیا گیا لیکن انہوں نے اپنی برطرفی تک اس دباؤ کو قبول نہیں کیا۔
آج پاکستان میں ناقدین اور بعض سادہ لوح وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورۂ امریکا کو ملک کو امریکی کیمپ میں شامل کرنے کے کام کو پہلا قدم قرار دیتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے 3 سال بعد گورنر جنرل غلام محمد کی سربراہی میں اقتدار میں شامل شخصیات نے امریکا کے ساتھ پاکستان کے دفاعی معاہدوں کی داغ بیل ڈالی تھی اور 1954 ہی میں امریکی خوش نودی کے لیے پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
اگر پاکستان کے امریکی کیمپ میں شمولیت کے لیے مذکورہ مفروضے کو درست تسلیم کرلیا جائے تو کیا آج جب وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستان کی حکومت کو سیکولرازم اور غیرجانب داری کے آئینی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر امریکا کے قدموں میں نہیں رکھ دیا ہے؟ کیا یہ بھی ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے امریکی دورے کا نتیجہ ہے۔
جنہوں نے لیاقت علی خان کے دورۂ امریکا سے ایک سال قبل1949 ء میں امریکا کا دورہ کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ لیاقت علی خان کی شہادت کے3 سال بعد اقتدار میں آنے والے حکم رانوں نے پاکستان کو امریکی کیمپ میں شامل کیا اور جواہر لعل نہرو کے انتقال کے کئی عشروں بعد اب ہندوستان کے موجودہ حکم رانوں نے ہندوستان کو اسی مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔
ملکی 75 سالہ تاریخ سے ثابت ہے کہ لیاقت علی خان کا قتل دراصل پاکستان میں امریکی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ انٹیلی جینس رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں وفاقی وزیرخزانہ غلام محمد ، وزیر بے قلم دان نواب مشتاق احمد گورمانی اور سیکریٹری دفاع میجر جنرل اسکندر مرزا تواتر کے ساتھ دارالحکومت کراچی میں امریکی سفیر سے ملاقاتیں کرتے رہے تھے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون میں لیاقت علی خان کے قتل سے متعلق بعض اہم انکشافات کیے گئے ہیں جن کے مطابق افغانستان میں موجود پشتونستان کی تحریک سے رابطہ کر کے افغانی باشندے سید اکبر کو وزیراعظم کے قتل پر آمادہ کیا گیا تھا اور ان کو یہ نوید سنائی گئی کہ 1953 میں پاکستان کے علاقے پر مشتمل پشتونستان تشکیل دیا جائے گا۔
اخبارات کی اطلاع کے مطابق سید اکبر کو لیاقت علی خان کی قتل گاہ کمپنی باغ راولپنڈی میں ہی گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا۔ گجرات کے ایک قصبہ میں رہنے والے پولیس افسر نے سید اکبر کو گولیاں ماری تھیں۔ وہ فخر سے اس کارنامے کا ذکرکیا کرتا تھا لیکن شاید گواہی مٹانے کے لیے اس پولیس افسر کو بھی 60کی دہائی کے اولین سالوں میں بے دردی کے ساتھ مار دیا گیا۔
سید اکبر کی ہلاکت کے بعد اس کے سامان سے بڑی تعداد میں پاکستان کے کرنسی نوٹ برآمد ہوئے تھے جب کہ اس زمانے میں پاکستان اور افغانستان کے مابین کرنسی کا تبادلہ نہیں ہوتا تھا۔
عرب نیوز کے مضمون میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کو سب سے پہلے تعزیتی ٹیلیفون امریکی سفیر نے کیا تھا اور اس کے 3½منٹ بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے بیگم صاحبہ سے تعزیت کی تھی، جب کہ گورنر جنرل راولپنڈی سے قریب ہی نتھیا گلی میں مقیم تھے اور ان ہی کو مقامی حکام نے اس سانحے کی خبر دی تھی۔
راقم الحروف نے کرنل ڈاکٹر ایم بی اعظمی کے ایک مضمون میں پڑھا تھا کہ وہ (ڈاکٹر صاحب) کمبائنڈ ملٹری اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں موجود تھے، جہاں لیاقت علی خان کا نظام تنفس بحال کرنے اور ان کے جسم سے گولیاں نکالنے کی کوشش جاری تھی۔
اس موقع پر انہوں نے پنجاب کے گورنر سردار عبدالرب نشتر اور راولپنڈی کے انگریزی ڈپٹی کمشنر کے علاوہ کسی دوسری اہم شخصیت کو اسپتال آتے ہوئے نہیں دیکھا۔