اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سائفر اخراج مقدمہ اور چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق کے روبرو سماعت ہوئی۔ وکیل سلمان صفدر اور اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔ گزشتہ سماعت پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے تاہم راجہ رضوان عباسی کے دلائل مکمل نہ ہو سکے تھے اس لیے انہوں ںے آج دوبارہ دلائل دیے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ قابل دست اندازی جرم پر ایف آئی آر کا اندراج بنتا ہے، وفاقی حکومت نے سیکرٹری داخلہ کو کمپلینٹ داخل کرنے کی منظوری دی، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں دس سال سے کم سزا والی دفعہ میں ضمانت ہوسکتی ہے لیکن دس سال سے زائد سزا والی سیکشن لگی ہو تو وہ ناقابل ضمانت ہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ مقدمہ اخراج کی درخواست میں کھوسہ صاحب نے تسلیم کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے جرم نہیں بنتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سائفر آرہے ہوں گے آؤٹ آف پریکٹس ہوں گے وہ سمجھا دیجئے گا، یقینا وزارت خارجہ نے ایس او پیز بنائے ہوں گے وہ بتا دیجیے گا، سائفر کے ذریعے جو بھی معلومات آرہی ہیں کیا وہ آگے کمیونی کیٹ نہیں کی جاسکتیں؟
اس پر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ سائفر کی دو کیٹگریز ہوتی ہیں جن میں سے ایک کی کمیونی کیشن کی جا سکتی ہے مگر دوسری کیٹگری کی نہیں، یہ سائفر دوسری کیٹگری کا سیکرٹ ڈاکومنٹ تھا جس کی معلومات پبلک نہیں کی جا سکتی تھیں، اس جرم کی سزا چودہ سال قید یا سزائے موت بنتی ہے، سیکرٹ ڈاکومنٹ پبلک کرنے پر بطور وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنا حاصل نہیں۔
یہ پڑھیں : سیکیورٹی کے پیش نظر جیل ٹرائل چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے، سائفر کیس فیصلہ
اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ نعمان نامی سائفر اسسٹنٹ کے پاس سائفر آیا، ڈپٹی ڈائریکٹر عمران ساجد، حسیب بن عزیز، سابقہ سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کا 161 بیان ہے، شمعون قیصر وزیر اعظم ہاؤس میں سائفر آفیسر، ڈی ایس پی ایم آفس حسیب گوہر کا 161 کابیان ہے، ساجد محمود ڈی ایس وزیر اعظم آفس اور اعظم خان کا 161 کا بیان ہے، اعظم خان کبھی بھی ملزم نہیں تھا بلکہ گواہوں کی لسٹ میں اس کا نام تھا۔
راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ اعظم خان کے لاپتا ہونے کا مقدمہ تھانہ کوہسار میں درج تھا، اعظم خان تفتیشی افسر کے سامنے آیا متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا، اعظم خان نے کہا وہ کچھ دیر کے لیے پیس آف مائنڈ کے لئے کہیں چلے گئے تھے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں نے چین سمجھنی ہے کہ کس طرح سائفر آتا ہے کس طرح جاتا ہے اگر چین ان بیانات میں موجود ہے تو پڑھ لیں۔
راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ میں سائفر کی چین آف کسٹڈی بتا دیتا ہوں، نعمان سائفر اسسٹنٹ ہے جس نے سائفر وصول کیا اور پھر ڈپٹی ڈائریکٹر عمران ساجد کے حوالے کیا، سائفر پھر حسیب بن عزیز اور پھر اس وقت کے فارن سیکرٹری سہیل محمود کے پاس گیا، سائفر کو اس کے بعد پی ایم آفس کے سائفر آفیسر شاہین قیصر اور ڈپٹی سیکرٹری پی ایم آفس حسیب گوہر کے پاس بھجوایا گیا اور سب سے آخر میں اس وقت کے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے پاس پہنچا۔
انہوں ںے کہا کہ اعظم خان کے بیان پر تنقید کی گئی، ان کا اس کیس میں کبھی ملزم نہیں بنایا گیا، اعظم خان کا نام اس کیس کے گواہوں کی لسٹ میں شامل ہے، وہ تفتیشی افسر کے سامنے خود پیش ہوئے اور بیان ریکارڈ کرایا، اعظم خان نے بتایا سائفر والے کیس میں دباؤ تھا اس لیے ذہنی سکون کے لیے کچھ عرصہ کے لیے غائب ہو گیا تھا، اس کیس میں اسد مجید اور اعظم خان مرکزی گواہان میں شامل ہیں، میں سمجھانے کے لیے ٹرائل کے گواہوں کے بیانات پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے اس بات پر اعتراض ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر سائفر اسسٹنٹ نعمان کا بیان پڑھ کر سنا رہے ہیں جو اس کیس کے گواہ بھی ہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہ کے مطابق سائفر ٹیلی گرام موصول ہونے پر عمران ساجد کو حوالے کیا اور اس کا رجسٹر میں اندراج کیا۔
سائفر اسسٹنٹ کا بیان پڑھنے پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دوبارہ اعتراض کیا۔
پراسکیوٹر نے کہا کہ سائفر کیس میں ایف آئی اے نے تین ایکسپرٹس کی رائے بھی شامل کی ہے، رائے لی گئی ہے کہ اس ایکٹ کے عالمی سطح پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں، تین ایکسپرٹس میں اسد مجید خان ، سابق سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اور وزارت خارجہ کے سابق ڈی جی یو ایس اے فیصل نیاز ترمزی کا بیان بھی شامل ہے۔
راجہ رضوان عباسی نے کلبھوشن جادیو کیس میں بھارتی عدالت کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ جن کیسز کے حوالے دیے ان میں زیادہ تر کلاسایفائیڈ ڈاکومنٹس کی معلومات لیک کرنے کے خدشات پر تھے، ان کیسز میں معلومات لیک کرنے کے ثبوت نہیں تھے مگر پھر بھی معلومات لیک ہونے پر سزائیں ہوئیں، اس کیس میں تو اعتراف جرم موجود ہے کہ سیکرٹ ڈاکومنٹ کی معلومات کو پبلک کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی بیان سے پاکستان کے سپر پاور امریکا سے تعلقات متاثر ہوں تو یقیناً اس کا کسی کو فائدہ بھی ہوگا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی وہ کر رہا ہے جو انتہائی ذمہ دار شخص ہونا چاہیے، اس متعلق معلومات تو وہ اپنی فیملی کے ساتھ بھی شیئر نہیں کرسکتا، یہ کیس بھی نہیں کہ اپنے فرینڈز کے درمیان بیٹھ کر معلومات شیئر کیں۔ یہ کہہ کر اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی کے دلائل مکمل کرلیے۔
ان کے بعد اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ سائفر نو مارچ 2022ء کو پی ایم آفس میں وصول ہوا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ سائفر میسج واپس جانے کے حوالے سے کوئی تحریری ایس او پی ہے؟ اس پر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ سائفر کو جلد از جلد واپس کرنا ہوتا ہے اگر اس پر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میٹنگ بلانی تھی تو فورا بلاتے، چیئرمین پی ٹی آئی نے 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ جلسے میں سائفر لہرایا اور سیاسی فائدے کے لیے معلومات پبلک کیں۔
شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ 9 مارچ سے 27 مارچ تک کیا ہوا؟ سائفر پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، پٹیشنر کے وکیل نے خود اعتراف کیا کہ سائفر کی معلومات پبلک کی گئی تھیں، اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے جوابی دیے ان کے بعد سردار لطیف کھوسہ نے مقدمہ اخراج درخواست پر جوابی دلائل کا آغاز کر دیا۔
سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ کہا گیا ہے کہ سائفر کی معلومات پبلک کرنے کا اعتراف کرلیا میں قطعاً کسی بات کا اعتراف نہیں کر رہا، چیئرمین پی ٹی آئی نے پبلک کو کوئی سائفر دکھایا؟ انہوں نے تو علامتی طور پر ایک کاغذ لہرایا تھا، ڈی کوڈ ہونے والا سائفر تو آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، شہباز شریف اور خواجہ آصف کے پاس بھی گیا، اس پر تو سفارتی سطح پر شدید احتجاج بھی کیا گیا تھا، ڈی کلاسیفائی وفاقی کابینہ نے کیا تھا ، سیکشن 248 میں واضح ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بطور وزیر اعظم استثنی حاصل ہے۔
بعد ازاں چیف جسٹس عامر فاروق نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سائفر اخراج مقدمہ اور چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔