متوقع انتخابات انتخابی مہم کا آغاز
مسلم لیگ (ن) کے پرانے کھلاڑیوں کے پاس عوام میں جانے کے لیے کچھ نہیں ہے کہ وہ پرانا مال ازسر نو فروخت کر سکیں
راقم نے گزشتہ ماہ شایع ہونے والے کالم میں لکھا تھا کہ نواز شریف آئیں گے تو کیا لائیں گے۔ مریم نوازنے شاہدرہ کے جلسے میں کہا 21 اکتوبر کو نواز شریف نہیں، پاکستان کی خوشحالی آ رہی ہے۔ پھر میاں شہباز شریف نے ورکرز کنونشن سے خطاب میں کہا کہ نواز شریف انتقام لینے نہیں خوشحالی لانے آ رہے ہیں۔
انھوں نے نواز دور میں سستی چینی اور آٹے کا بھی ذکر کیا۔پیپلز پارٹی کی طرف سے انتخابی مہم خود بلاول بھٹو زرداری نے شروع کی اور وہی پرانے دعوے دہرا دیے گئے ۔ماضی میں تین تین بار حکومت کرنے والی سابق حکمران جماعتوں کے برعکس 2018 سے قبل عوام سے بڑے بڑے دعوے کرنے مگر عمل میں ناکام پی ٹی آئی بھی نئے دعوؤں کے بجائے اپنی مظلومیت کا وہی بیانیہ اپنائے گی جو ماضی میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی بیان کیا کرتی تھیں۔
ان دونوں پارٹیوں پر زیادہ زیادتیاں غیر سول ادوار میں ہوئی تھیں جب کہ پونے چار سال تک حکومت کرنے والی حکومت وہ واحد حکومت ہے کہ جس کو اپریل 2022 میں پہلی بار آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تھا۔ اپنی حکومت ہٹائے جانے کے معاملے میں اس کے چیئرمین نے اپنی حکومت میں ہی الزام لگا دیا تھا کہ امریکا ان کی حکومت ختم کرنے کی سازش کر رہا ہے۔پاکستان میں امریکی مخالفت کا بیانیہ بھارت جیسا ہی کامیاب ہے اور شروع سے یہ نعرے سننے میں آتے رہے ہیں کہ جو امریکا کا یار ہے غدار ہے۔
امریکا مخالف بیانیہ پی پی اور (ن) لیگ سے زیادہ پی ٹی آئی نے اپنایا اور امریکی سائفر کو بنیاد بنایا۔ پیپلز پارٹی بھی پیپلزپارٹی حکومت ہٹوانے اور بھٹو کی پھانسی میں امریکا کو ملوث قرار دیتی رہی اور پی پی قیادت امریکا میں رہ کر امریکا کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ پی ٹی آئی اپنی حکومت ہٹانے کے الزامات کے بعد امریکا کو مناتی بھی رہی اور ہٹائے جانے کے الزامات بھی بدلتے رہے۔
جماعت اسلامی بھی امریکا مخالف بیانات برسوں سے دیتی رہی مگر اسے وہ پذیرائی نہیں ملی جو پی ٹی آئی کو امریکی سائفر سے ملی تھی۔مسلم لیگ (ن) کے قائد اپنی تینوں حکومتوں کو ہٹائے جانے کا الزام سابق صدر غلام اسحاق پر پھر جنرل پرویز مشرف پر اور پھر عدلیہ خصوصاً بعض بڑے ججوں پر لگاتے رہے ،کبھی 'مجھے کیوں نکالا، کبھی ووٹ کو عزت دو 'کے نعرے بھی لگے مگر اب (ن) لیگ اپنے سابق انتقامی نعروں سے دستبردار ہو چکی ہے اور تینوں بڑی پارٹیوں کے پاس اب امریکی مخالف نعرہ نہیں ہوگا۔
(ن) لیگ کے پاس اب نواز دورکی کارکردگیوں کا بیانیہ ہے جب کہ پیپلز پارٹی بھی اپنے دور کی کارکردگی جتائے گی اور عوام کو (ن) لیگ کی طرح خوشحالی کے خواب دکھائے گی جب کہ پی ٹی آئی کے پاس اپنی حکومتی کارکردگی بتانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں اس لیے اپنی مظلومیت کی دہائی دے گی اور اپنی حکومت کی ناکامی کی ذمے داری پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کا رونا روئے گی۔
پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی پی ٹی آئی حکومت کے بعد 16 ماہ حکومت رہی جس میں یہ سب مل کر مکمل ناکام رہے اور اتحادی حکومت نے ملک میں مہنگائی و بے روزگاری بڑھانے، حکومتی مزے لوٹنے، اپنوں کو نوازنے اور حکومتی اخراجات بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا اور بحرانوں کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دینے میں سب اتحادی متحد رہے اور زیادہ تر بدنامی مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئی مگر شہباز شریف کی وزیر اعظم بننے کی خواہش ضرور پوری ہوگئی اور اب (ن) لیگ کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی سیاست قربان کر کے 16 ماہ میں ریاست ضرور بچائی ہے۔
میاں نواز شریف کی واپسی پر پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ 21 اکتوبر کو جلسہ کرنے کے بجائے سرنڈرکریں اور پہلے جیل جائیں۔ (ن) لیگ کے مفاہمتی گروپ نے بھی نواز شریف کو واپسی موخرکرنے کی تجویز دی ہے اور ایک خبر کے مطابق (ن) لیگ کے ورکرز کنونشن سے کارکنوں کی عدم دلچسپی سے قیادت پریشان ہے۔ الیکشن کے باعث آئی پی پی اپنا منشور سوشل میڈیا پر ظاہر کر رہی ہے جو اقتدار میں نہیں آئی۔
مسلم لیگ (ن) کے پرانے کھلاڑیوں کے پاس عوام میں جانے کے لیے کچھ نہیں ہے کہ وہ پرانا مال ازسر نو فروخت کر سکیں۔ میاں شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ نے قوم کو مایوس اور (ن) لیگ کے کارکنوں کو بھی مایوس کیا ہے اور الیکشن میں جانا اتحادی پارٹیوں کے لیے ممکن نہیں ہے اور اب کوئی بھی پارٹی عوام کو اپنے دعوؤں سے نہیں بہلا سکتی۔