شناختی کارڈ کا نہ ہونا خواتین ووٹرز کے کم ٹرن آوٹ کی بڑی وجہ

10 ملین سے زائد خواتین حق رائے دہی سے محروم ہو جاتی ہیں،فرحت اللہ بابر

40 فیصد خواتین ووٹ ڈالتی ہیں،بلال،خواتین کی شمولیت اثر انداز ہوسکتی ،ملائکہ فوٹو فائل

شناختی کارڈ کا نہ ہونا ہے 10 ملین سے زائد خواتین کا شناختی کارڈ نہ بنوانے کم ٹرن آؤٹ کی بڑی وجہ قرار دی گئی ہے۔

عام انتخابات کی آمد آمد ہے جب کہ ماضی کی طرح اس بار بھی خواتین ووٹرز کے کم ٹرن آوٹ کا تاثر دیا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ شناختی کارڈ کا نہ ہونا ہے 10 ملین سے زائد خواتین شناختی کارڈنہ بنوانے پر حق رائے دہی سے محروم ہوجاتی ہیں۔

شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خواتین کی نسبت مردوں کو شناختی کارڈ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انہیں بینک اکاؤنٹ ، ڈرائیونگ لائسنس، اسلحہ لائسنس اور جائیداد کی خرید وفروخت کیلئے اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مجموعی طور پر 2008، 2013 اور 2018 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ کی شرح بالترتیب 45 فیصد، 54 فیصد اور 50 فیصد رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کی شہریوں کو ووٹر اندراج اور کوائف درستی کیلیے آخری مہلت

الیکشن کمیشن کے مطابق یہ اطلاع دی گئی کہ 2018 کے عام انتخابات میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 40 فیصد رہا جس میں 46 ملین رجسٹرڈ خواتین ووٹرز میں سے 21 نے پولنگ میں حصہ لیا۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے کہا، "صرف 40 فیصد خواتین اوسطاً ووٹ ڈالتی ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سماجی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

پلڈاٹ کے سربراہ نے کہا کہ نادرا، ای سی پی، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں، بین الاقوامی تنظیموں اور حکومتوں نے خواتین کو بطور ووٹر رجسٹر کرنے کے لیے شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔


یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے ملکی و غیر ملکی میڈیا و مبصرین کیلیے ضابطہ اخلاق جاری کردیا

پلڈاٹ کے سربراہ نے کہا کہ ووٹرز کے طور پر رجسٹرڈ نہ ہونے والی خواتین کی تعداد کل رجسٹرڈ ووٹرز کے فیصد کے طور پر کم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتوں کو نچلی سطح پر اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی خواتین کو CNIC حاصل کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔

پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ خواتین ووٹرز دوہرے خطرے کا شکار ہیں ان کا کہناتھاکہ خواتین کا ووٹر ٹرن آؤٹ مردوں کے مقابلے میں 10 فیصد سے زیادہ کم ہے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا 2018 کے الیکشن جیتنے والی پارٹی نے تقریباً 17 ملین ووٹ حاصل کیے،سوچنے کی بات ہے کہ اگر خواتین ووٹرز کو ووٹ دینے کے قابل بنایا جائے تو انتخابی نتائج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کی ایک کروڑ 30 لاکھ افراد کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کی تردید

حال ہی میں پی پی پی کی ملائکہ رضا نے کہا تھا کہ ملک میں تقریباً 10 ملین خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ ہونے کے لیے نااہل ہیں، اور حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابی حلقوں میں حق رائے دہی سے محروم خواتین کو رجسٹر کریں۔

پیپلز پارٹی کے انسانی حقوق سیل کی جنرل سیکرٹری ملائکہ نے 'لاپتہ خواتین' کی نمایاں تعداد پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان خواتین کو انتخابی فہرستوں میں شامل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی جائیں تاکہ وہ حصہ لے سکیں۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی دونوں امیدوار نتالیہ رحمان اور سارہ تھامسن نے اپنی تحقیق میں پایا کہ جب خواتین کی نقل و حرکت مردانہ ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے محدود ہو جاتی ہے یا وہ زیادہ تر مردانہ راستے پر سفر کرنے کی توقع رکھتی ہیں تو ان کے نکلنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
Load Next Story