جنگ اور کتب

نسل کشی کے ساتھ فلسطین ’’کتب کشی‘‘ سے بھی دوچار ہوچکا ہے

علم کشی کی داستان نسل کشی سے دگنی ہولناک ہوتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

لائبریری علم کی ایک پناہ گاہ ہے، جہاں بے شمار مصنفین اور شاعروں کی سرگوشیاں ہوا میں رقص کرتی ہیں، اور لازوال کہانیوں کے صفحات ان پرجوش دلوں اور متجسس ذہنوں کا انتظار کرتے ہیں جو اس کے مقدس ہال میں قدم رکھتے ہیں۔ ہر کتاب ایک نئی دنیا کا گیٹ وے ہے، جو راہ گیر کو دعوت دیتی ہے کہ وہ معروف اور نامعلوم دونوں جگہوں کو تلاش کرے، فکر اور حیرت کی اس پناہ گاہ میں، کوئی بھی سکون، ترغیب، اور کہانیوں کے نرم گلے کو پا سکتا ہے جو ہمیشہ ہماری روحوں کی تسکین میں رہتا ہے۔


لائبریری کی مثال اس بیساکھی کی سی ہے جو کسی بھی قوم کو منہ کے بل گرنے سے روکتی ہے مگر فطرت انسانی یہ ہے جنگی حالات میں انسان ''نسل کشی'' کے بجائے ''علم کشی'' کی طرف راغب ہوتا ہے کیوں کہ جنگ میں کامیابی دشمنوں کا خوں بہانے سے نہیں ملتی بلکہ دشمنوں کو مفلوج کرکے حاصل ہوتی ہے۔ علم کشی کی داستان نسل کشی سے دگنی ہولناک ہوتی ہے۔ اور نسل کشی کا تعلق ''فلسطین'' سے ایسا ہے جیسے کسی ''طفل کا مادر رحم سے۔'' جی ہاں فلسطین!


فلسطین، ایک ایسی سرزمین جو تاریخ کی تپش سے مزین ہے، جو زیتون کے باغات کے ذریعے قدیم سرگوشیوں اور اپنے متحرک شہروں میں لچک کی گونجوں میں سانس لیتی ہے۔ فلسطین کا ساحل جدوجہد کے درمیان، لوگوں کا جذبہ ہمت اور امید کی تصویر پیش کرتا ہے، جو انسانی روح کی پائیدار خوبصورتی کا ثبوت ہے۔ اس کے مناظر پر غروب آفتاب صبر کی کہانیاں بیان کرتا ہے اور ایک روشن، پُرامن کل کے خوابوں کو بیان کرتا ہے۔ مگر افسوس نسل کشی کے ساتھ فلسطین ''کتب کشی'' سے بھی دوچار ہوچکا ہے۔


19 صدی میں فلسطین کی پاک زمین پر ایسی لائبریری کا جنم ہوا جس میں آج بھی عرب کلیکشن کا انتہائی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس لائبریری کا نام اس کے بانی ''راغب الخالدی'' کے نام پر رکھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ''راغب الخالدی'' کا تعلق خالدی گھرانے سے تھا۔ خالدیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا نسب ابتدائی مسلمان فاتح خالد بن ولید سے ملتا ہے، جو 642 میں فوت ہوا تھا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں یروشلم میں خالدی نامی ایک خاندان کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ تاہم، سب سے بہتر تصدیق شدہ خاندانی نسب مملوک سلطنت کے دوران 14 ویں اور 15 ویں صدی میں شروع ہوتا ہے۔


یہ لائبریری عربی میں المکتبہ الخالدیہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یاد رکھیے کہ یہ پہلی عرب ''پبلک لائبریری'' ہے جو یروشلم کے قدیم شہر طارق باب السائلیلہ میں باب السلسیلہ کے قریب قائم کی گئی تھی، جو مسجد اقصیٰ کے گھر الحرام الشریف کے مرکزی دروازوں میں سے ایک ہے۔


یہ لائبریری تین منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ لائبریری کا نظام اتنا عمدہ تھا کہ یہاں مختلف علوم کو مختلف سائز کے پیپر پر محفوظ کیا جاتا تھا۔ تاکہ ان کی باآسانی کیٹگری معلوم ہوسکے۔



اس عمارت میں ایک دعائیہ مقام (محراب) اور خوارزمی امیر جنگجوؤں کی باقیات موجود ہیں جنہوں نے بارہویں، تیرہویں صدی میں صلیبیوں سے یروشلم کی بازیابی میں حصہ لیا تھا۔


اس لائبریری میں عربی مخطوطات کا دنیا کا سب سے بڑا نجی مجموعہ (تقریباً 1200 عنوانات) شامل ہے، جن میں سے سب سے قدیم تقریباً 1000 سال پرانا ہے۔ ان میں سے تقریباً 200 انتہائی نایاب اسلامی تحریریں ہیں، جن میں سے بہت سی رنگین سیاہی میں جیومیٹرک نمونوں سے پیچیدہ طور پر سجی ہوئی ہیں۔


اس کا مطبوعہ مجموعہ، جس میں زیادہ تر 19 ویں صدی کے پرانے مینو اسکرپٹ ہیں، یہ تقریباً 5500 جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس لائبریری میں 18 ویں صدی کے اوائل میں خاندانی دستاویزات کا ایک بہت بڑا آرکائیو بھی موجود ہے۔


یہ لائبریری مسلمانوں کا قیمتی اثاثہ ہے۔ خالدیہ کو بھی بہت سی دیگر عرب/ مسلم املاک کی طرح اسرائیلی حکام اور آس پاس کے آباد کاروں کی طرف سے ضبط کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ اس عمارت کے مشرقی حصے پر اسرائیلی قبضہ جما چکے ہیں۔ اب یہ ہم پر لازم ہے کہ ہم نسل کشی کے ساتھ ساتھ کتب کشی کو بھی روکنے کےلیے آواز بلند کریں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔



اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story