بھارتی سپریم کورٹ کا ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے سے انکار

ہم جنس پرست جوڑوں کو مشترکہ طور پر بچہ گود لینے کا حق نہیں دیا جا سکتا، بھارتی سپریم کورٹ


ویب ڈیسک October 17, 2023
ہم جنس پرست جوڑوں کو مشترکہ طور پر بچہ گود لینے کا حق نہیں دیا جا سکتا، بھارتی سپریم کورٹ (فوٹو: فائل)

بھارتی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ کو آئین سازی کی ہدایت کرنا ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینے اور پارلیمنٹ کو اس کے لیے قانونی سازی کی ہدایت جاری کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو قانونی شناخت دینے سے انکار کرتے ہوئے لکھا کہ یہ اختیار صرف مرکزی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے پاس ہے کہ وہ ایسے ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی قانونی حیثیت کی توثیق کے لیے ادارے بنائیں۔

عدالت نے فیصلے میں یہ بھی قرار دیا کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو مشترکہ طور پر بچہ گود لینے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔

چیف جسٹس آف انڈیا دھننجایا یشونت، جسٹس سنجے کشن کول، ایس رویندر بھٹ، ہیما کوہلی اور پی ایس نرسمہا پر مشتمل پانچ ججوں کے آئینی بنچ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنا اور اس کو قانوی حیثیت دینے کے لیے پارلیمنٹ کو ہدایت جاری کرنا ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں۔

ججز نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ہم جنس پرست جوڑوں کے خدشات کا جائزہ لینے اور کچھ اصلاحی اقدامات کرنے کے لیے مئی میں مرکز کی طرف سے تجویز کردہ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے کام کو مزید آگے بڑھایا جائے۔

لیکن سپریم کورٹ نے اسپیشل میرج ایکٹ کی دفعات کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے سے بھی انکار کر دیا تاکہ غیر ہم جنس پرست جوڑوں کو اس کے دائرے میں شامل کیا جا سکے کیوں کہ ایسے جوڑوں کو بغیر کسی تشدد اور زبردستی مداخلت کے ساتھ ایک ساتھ رہنے کا حق حاصل ہو۔

تاہم عدالت ہم جنس پرستوں کے سول یونینز بنانے کا حق کے فیصلے پر منقسم نظر آئی۔ چیف جسٹس اور جسٹس کول نے سول یونین بنانے کے حق کو تسلیم کیا جب کہ جسٹس بھٹ، کوہلی اور نرسمہا نے اس بات پر زور دیا کہ آئین کے تحت شادی کا کوئی بنیادی حق نہیں بلکہ صرف ایک قانونی حق ہے اس لیے سول یونین کا کوئی حق نہیں ہوسکتا جو قانونی طور پر نافذ ہو سکے۔

خیال رہے کہ 20 سے زیادہ درخواستوں میں مارچ کے آخر سے اپریل کے اوائل تک 10 دن تک جاری رہنے والے دلائل کے بعد پانچ ججوں کی بنچ نے 11 مئی کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

 

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں