سارے راستے…
پنجاب کے عوام ریاست بچانے کے بیانیہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں
میاں نواز شریف تیسری دفعہ اپنی خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آرہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکو مت کا 12 اکتوبر 1999 کو تختہ الٹ دیا گیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کا طیارہ اغواء کرنے کے جرم میں انھیں عمر قید کی سزا دی گئی۔ایک ڈیل کے تحت شریف فیملی سعودی عرب ہجرت کرگئی۔ جب ستمبر 2007میں بے نظیر بھٹو اپنی خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئیں اور پھر میاں نواز شریف کو بھی عدالت نے وطن واپسی کی اجازت دے دی۔
دوسری دفعہ میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں تاحیات نااہل قرار دیا۔ اس دوران ان کی اہلیہ کلثوم نواز کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئیں۔ میاں نواز شریف اپنی اہلیہ کی عیادت کے لیے لندن گئے۔
لاہور کی احتساب عدالت نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کو قید و جرمانہ کی سزا سنائی تو میاں صاحب اپنی بیٹی کے ہمراہ لاہور پہنچے جہاں سے انھیں اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا مگر اس دفعہ کی جلاوطنی ختم کرکے واپسی اور ماضی میں ان کی برطانیہ سے واپسی کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے 10 سال حکومت کی مگر ان کی حکومت میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان کا مسئلہ گھمبیر ہوا۔
پرویز مشرف نے حامد کرزئی حکومت کے بارے میں دہری پالیسی کے نتیجے میں کابل میں ہونے والی جنگ کراچی تک پہنچ گئی تھی۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی وکلاء کی تحریک سے پورے ملک میں پرویز مشرف حکومت کے خلاف سخت ردعمل پیدا ہوا۔ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن وکلاء اور سول سوسائٹی کے ساتھ صدر پرویز مشرف کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے جدوجہد کررہی تھیں۔ اس بناء پر میاں نواز شریف کے لیے حالات انتہائی موافق تھے۔
جب پاناما لیکس میں سزا پانے کے بعد میا ں نواز شریف واپس آئے تو پنجاب اور دیگر صوبوں میں ان کے لیے ہمدردی کے بادل خاصے گہرے تھے۔
مسلم لیگ ن نے میاں نواز شریف کے استقبال کے لیے ایک حکمت عملی تیار کی تھی مگر پنجاب کی نگراں حکومت نے جس کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری تھے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں، پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولوں کو بار بار پھینکا گیا۔
میاں نواز شریف کے لیے استقبال کے لیے آنے والے ہجوم کو منتشر کردیا گیا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی کے مطابق میاں شہباز شریف کی کمزوری اور انتظامیہ سے عدم ٹکراؤ کی پالیسی سے صورتحال کو تبدیل کردیا تھا۔
اس وقت میاں نواز شریف کے ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرہ کی گونج پنجاب اور خیبر پختون خوا کے شہروں میں محسوس ہوئی تھی مگر اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے والا پی ڈیم ایم اتحاد بکھر چکا ہے۔ اس اتحاد کی ایک اہم تنظیم پیپلز پارٹی لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت مسلم لیگ ن کی قیادت سے کررہی ہے۔
پی ڈی ایم کے دور حکومت میںمعاشی بحران مزید گہرا ہوا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بجلی اور گیس کے نرخو ں میں ہر مہینہ اضافہ، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان تک پہنچنے سے متوسط طبقہ کا وجود خطرہ میں پڑ گیا ہے۔ مسلم لیگ ن تنظیمی طور پر کمزور ہوچکی ہے۔
تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف مقدمات قائم ہیں ۔ میاں شہباز شریف اپنے حلقہ انتخاب میں گئے تو انھیں ایک ہجوم کے مخالفانہ نعروں کو برداشت کرنا پڑا۔ ضلع انتظامیہ کو موقع ملا اور 94 افراد کے خلاف پرچہ کٹ گیا۔ میاں شہباز شریف نے سیاسی رویہ اختیار کیا اور نوجوانوں کے خلاف ایف آئی آر کو ختم کردیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما یہ نعرہ لگارہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنی سیاست کو داؤ پر لگا کر ریاست کو بچایا ہے۔ مریم نواز کا بیانیہ ہے کہ میاں نوز شریف کی معزولی سے ملک بحران کا شکار ہوا، مگر اب میاں صاحب کے برسر اقتدار آنے سے ترقی کا نیا دور شروع ہونے والا ہے، مگر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے اس بیانیہ کی پنجاب میں بھی پذ یرائی کے امکانات کم نظر آرہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف 1985 میں برسر اقتدار آئے اور 1997 تک اقتدار میں رہے۔
2013 میں وہ پھر اقتدار پر فائز ہوئے اور 28 جولائی 2017 تک اقتدار میں رہے تو میاں نواز شریف کو ایک طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنے کا موقع ملا۔ اگرچہ ان کے دور میں ریکارڈ ترقی ہوئی مگر ملک کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہ ہوا۔ انھوں نے پہلے تو اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو چیلنج کیا تھا مگر اب مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کررہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے تو بتادیا ہے کہ جنوری میں انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔ یوں مسلم لیگ ن کی ساری سیاست یو ٹرن کا شکار ہوگئی ہے۔
سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے سپریم کورٹ پروسیجر ایکٹ کے خلاف حکمِ امتناعی ختم کردیا ہے مگر ماضی سے اپیل کے حق کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اس چیز کا نقصان یقیناً میاں نواز شریف کو ہورہا ہے، اگرچہ سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کہہ چکے ہیں کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت اب نااہلی کی مدت پانچ سال ہوگئی ہے اس بناء پر میاں صاحب انتخاب میں حصہ لینے کے اہل ہیں مگر اس صورتحال میں ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ میں ایک اور جنگ لڑنی ہوگی۔
تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا یہ بیان اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے میاں شہباز شریف سب سے زیادہ خوش ہیں۔ اسلام آباد کے بعض صحافی تو پیشگوئی کررہے ہیں کہ آیندہ وزیر اعظم شہباز شریف ہوںگے۔ یہی سوال مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر سے پوچھا گیا تھا تو انھوں نے سوال کا جواب دینے سے انکار کیا۔
میاں نواز شریف نے گزشتہ ماہ ججوں، جرنیلوں اور سیاست دانوں کے احتساب کا بیانیہ بنایا تھا۔ اس بیانیہ میں خاصی کشش تھی۔ انھوں نے اس بیانیہ سے دستبرداری کا فیصلہ کیا اور ریاست کو بچانے کا بیانیہ اختیار کیا۔ یوں ان کی پوزیشن مزید کمزور ہوگئی ہے اور اب تو پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب سمجھوتہ کرکے واپس آرہے ہیں۔
بہرحال پنجاب کے عوام ریاست بچانے کے بیانیہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس دفعہ میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ کے اسیر ہونے کی بناء پر ویسے اقدامات نہیں کرسکیں گے جیسے انھوں نے ماضی میں کیے۔ ساری صورتحال میں ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ یہ سب مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے نتیجہ ہے کہ سارے راستے اسٹیبلشمنٹ کی طرف جا کر ختم ہوجاتے ہیں۔