اعلان بالفور

اسرائیل امریکا کا لاڈلہ ہے اور اس کا وجود بھی امریکی مدد کا محتاج ہے

jamilmarghuz1@gmail.com

آج پھر فلسطین میں خاک اور خون کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان 'ان کی حمایت میں سڑکوں پر نعرہ زن ہیں لیکن مسلم حکمران خاموش ہیں یا صرف مذمت کے بیانا ت پر گزارہ کر رہے ہیں۔یہ مسئلہ کیا ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا؟اس پر تفصیلی روشنی ڈالنے کی کو شش کریں گے۔

2نومبر1917کو اعلان بالفور کو 106سال ہوگئے ہیں'اس اعلان کا صد سالہ جشن 'اسرائیل میں منایا گیا ' کیونکہ اس اعلان کی وجہ سے اسرائیل کا قیام ممکن ہوا'ادھر فلسطینیوں نے یوم سوگ منایا 'کیونکہ اس کی وجہ سے ان کی زمین چھن گئی اور اسرائیلی ریاست ان کی زمین پر قائم ہوئی۔

2نومبر 1917 کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے اعلان کیا کہ '' حکومت برطانیہ یہودیوں کے لیے فلسطین کی زمین پر ایک قومی ریاست کے قیام کی حمایت کرتی ہے۔''کہنے کو تو یہ ایک پیراگراف تھا جو 67الفاظ پر مشتمل تھا 'لیکن ان الفاظ کا مطلب صیہونی تحریک کے اس ارمان کی ٹھوس حمایت تھی جسے اسرائیل کہا جاتا ہے۔

جرمنی میں یہودیوں کی بالادستی تھی 'فوج اور نیوی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے 'بینکوں اور تجارت پر ان کی اجارہ داری تھی 'جنگ عظیم اول میںجرمنی کو شکست دینے کے لیے برطانیہ کو یہودیوں کی مدد کی ضرورت تھی 'انھوں نے اعلان بالفور کے ذریعے ریاست اسرائیل کے قیام کا وعدہ کیا اور یہودیوں نے جرمنی کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔

قیصر ولیم کی شکست کے بعد جب ہٹلر نے حکومت سنبھالی تو اس نے غداری پر یہودیوں کو سزائیں دیں' اس کو یہودی ''ہولو کاسٹ'' کہتے ہیں۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو 'کو حکومت برطانیہ نے اعلان بالفور کی 100سالہ سالگرہ کے موقعے پر لندن مدعو کیا' جہاں انھوں نے برطانیہ کے وزیراعظم تھریسا مے کے ساتھ ایک ڈنر میں شرکت کی 'مے نے کہا کہ وہ اس دن کو فخر سے منائے گی۔

ادھر برطانیہ میں اس سالگرہ پر تنقید ہو رہی ہے کیونکہ اس اعلان کی وجہ سے یہودیوں نے نصف صدی سے مغربی کنارے کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کیا'برطانیہ کے حزب اختلاف کے لیڈر لیبر پارٹی کے جیرمی کاربائن نے اس ڈنر میں شرکت سے انکار کر دیا'فلسطینیوں نے اس دن رملہ میں ایک بڑا مظاہرہ کیا اور اعلان بالفور پر برطانیہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔

1948میں اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا اور فلسطینیوں پر مظالم شروع ہوگئے ان کو زبردستی بے دخل کیا گیا 'عرب ممالک کے علاقوں پر قبضہ کیا گیا۔

اس دوران فلسطینی اپنے وطن کی آزادی کے لیے مسلح اور سیاسی جدوجہد کرتے رہے' 70کی دہائی میں فلسطینیوں کی تحریک عروج پر تھی ، فلسطینی تحریک کی اساس قوم پرستی پر رکھی گئی تھی، تمام فلسطینی بلا تفریق مذہب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے لڑ رہے تھے' فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں مختلف تنظیمیں برسرپیکا ر تھیں'ان میں یاسر عرفات کی FATAHاور جارج حباش کی PFLPسب سے اہم تھیں۔

FATAHکی قیادت زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل تھی' PFPL(پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین)کی قیادت اور اس کے ممبران میں عیسائیوں کی اکثریت تھی' جارج حباش اور لیلی خالد باوجود یہ کہ عیسائی تھے لیکن ان کی فلسطین کی آزادی کے لیے کارنامے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں'ان کے علاوہ دیگر تنظیمیں بھی تھیں'جن میں الصاعقہ اور DFLP (ڈیموکریٹک فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین)شامل تھیں۔


یہ تمام تنظیمیں 1964 میںمتحد ہوکر PLO (تنظیم برائے آزادی فلسطین) بن گئیں اور فتح کے یاسرعرفات اس تنظیم کے سربراہ بن گئے ' تمام فلسطینی اس جنگ کو قومی آزادی کی بنیاد پر لڑ رہے تھے۔ حماس کے قیام کے بعد فلسطینیوں کے درمیان اتفاق ختم ہوگیا'فلسطینی اسرائیل کے بجائے آپس میں زیادہ لڑ نے لگے 'فتح اصل میں PLOکی باقیات ہے اور ایک جمہوری اور سیکولر تحریک ہے 'یاسر عرفات کی موت کے بعد اس کی قیادت محمود عباس کر رہے ہیں'یہ فلسطین کے صدر بھی ہیں'حماس ایک سخت گیر اسلامی تحریک ہے۔

یہ اپنے آپ کو اسلامی مزاحمتی تحریک کہتی ہے اور ایک اسلامی فلسطین کے لیے جدوجہد کر ر ہی ہے 'اس کے لیڈر خالد مشعل شام میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں'اس کی جدوجہد اسرائیل کے بجائے زیادہ تر فتح کے خلاف ہے 'وہ اپنے اسلامی ایجنڈے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فتح کو قرار دیتی ہے 'یہ دونوں گروپ ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار رہتے ہیں'عرب ممالک اور بیرونی دنیا اس لڑائی کو فلسطین کی خانہ جنگی کہتے ہیں'جس طرح سامراجی سازشوں نے مذہب کو استعمال کرکے دو سرے ممالک میں جمہوری اور ترقی پسند سیاسی قوتوں کا راستہ روکا ہے ۔

حماس اور فتح کی لڑائی کا سب سے زیادہ فا ئدہ اسرائیل اور امریکا کو پہنچا ہے اور دشمن نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا' حماس کو اب عقل آرہی ہے اور وہ فتح کے ساتھ ایک پرامن معاہدے اور ایک فلسطینی حکومت کے قیام کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اب ان کو سامراجی سازش کا پتہ لگ گیا ہے' جس کا مقصد فلسطین کے عوام کا اتحاد ختم کرنا تھا ۔

اسرائیل کا رقبہ21642مربع میل ہے اور آبادی 73لاکھ ہے، 76فی صد یہودی اور 16فی صد مسلمان ہیں' ادھر عرب ممالک کی تعداد 21ہے 'ان کا کل رقبہ ایک کروڑ 40لاکھ مربع میل ہے 'ان کی کل آبادی 34کروڑ سے زیادہ ہے 'اسرائیل متحد اور یکسو ہے ' عرب ممالک ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہیں'دنیا میںصرف فلسطینیوں کی کل تعداد تقریباً ایک کروڑ 20لاکھ ہے' 25لاکھ مغربی کنارے میں اور 15لاکھ غزہ کی پٹی میں رہتے ہیں۔

اردن میں 19لاکھ' اسرائیل میں 13لاکھ 'شام میں 6لاکھ 'عرب دنیا سے باہر ان کی سب سے بڑی آبادی تقریباً5لاکھ لاطینی امریکا کے ملک چلی میں ہے۔آج فلسطینی نظریاتی طور پر دو بڑے گروپوں میں تقسیم ہیں'یہ دونوں گروپ ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں'الفتح اور حماس نے فلسطینیوں کو بری طرح تقسیم کر دیا ہے۔

پی ایل او مغربی کنارے میں حکمران ہے اور حماس غزہ کی پٹی میں حکومت کر رہی ہے' ایک ملک میں دو حکومتیں؟ فلسطینی ریاست دو مختلف علاقوں پر مشتمل ہے 'مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے درمیان اسرائیل کا علاقہ ہے 'ان دونوں علاقوں میںکسی بھی مسئلے پر ہم آہنگی نہیں ہے'کیونکہ دونوں جگہ مختلف حکومتیں قائم ہیں۔

اسرائیل امریکا کا لاڈلہ ہے اور اس کا وجود بھی امریکی مدد کا محتاج ہے' امریکا بجائے اس کے کہ اپنے اسرائیلی حکومت کی غیر انسانی کارروائیوں پر تنقید کرے' وہ الٹا فلسطینیوں اور لبنانیوں کو دہشت گرد اور Rogue ثابت کرتا رہتا ہے۔

مشرق وسطی کا پورا خطہ اس کی وجہ سے بدامنی کا شکار ہے' اسرائیل کی حفاظت کے لیے سامراجی طاقتوں نے عرب ترقی پسند حکمرانوں ' صدر ناصر'صدام حسین' معمر قذافی 'بشارہ الاسد کو ختم اور ایرانی حکومت کو مفلوج کردیا'باقی مسلمان حکومتوں نے امریکی حکم پر اسرائیل کو تسلیم کر لیا'اب بھی فلسطینی امن کی بھیک مانگ رہے ہیں۔

وہ دو ریاستی فارمولے پر بھی راضی ہیں۔ امریکا اور پوری سامراجی دنیا کو جان لیناچاہیے کہ امن صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب اسرائیل کی جارحیت کو بند کرکے اس کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کیا جائے کہ وہ عالمی قوانین اور قوموں کی خودمختاریوں کی پابندی کرے۔
Load Next Story