پاکستان کے زرعی شعبے میں چائلڈ لیبر کی تعداد سب سے زیادہ
بچوں سے مشقت لینے کی نگرانی کا کوئی نظام ہے اور نہ ہی اس کی روک تھام کیلیے مؤثر قوانین موجود ہیں
پاکستان میں سب سے زیادہ زرعی شعبے میں چائلڈ لیبر سے کام لیا جا رہا ہے جس سے بچوں کی تعلیم اور صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن زرعی شعبے میں بچوں سے مشقت لینے کی نگرانی کا کوئی نظام ہے اور نہ ہی اس کی روک تھام کے لیے مؤثر قوانین موجود ہیں۔
لاہور کے علاقہ اعوان ڈھائیوالہ کے رہائشی 12 سالہ محمد ابراہیم اپنے ہم عمر کئی بچوں کے ساتھ کھیتوں سے آلو اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں۔ ان بچوں میں بعض کی عمر سات، آٹھ برس ہوگی لیکن یہ بچے بڑی محنت سے آلو چنتے اور پھر کھیت کے اندر مختلف جگہوں پر ڈھیری لگا رہے ہیں۔ ان بچوں کو کھیتوں سے جمع کیے گئے آلوؤں کا کچھ حصہ بطور مزدوری ملتا ہے جسے یہ بچے گھر لے جائیں گے یا پھر بیچ دیں گے۔
محمد ابراہیم نے بتایا کہ وہ پہلے اسکول جاتا تھا لیکن چوتھی کلاس سے اسکول چھوڑ دیا اور اب صرف کھیتوں میں مزدوری کرتا ہے۔ کھیتوں سے آلوؤں کی چنائی، دھان کی پنیری لگانے، مویشیوں کو کھیتوں میں لے جانے سمیت دیگر کام کرتا ہے۔ اسے ماہانہ 12 ہزار روپے ملتے ہیں۔
ابراہیم کی طرح کھیتوں میں مزدوری کرنے والے بچوں کی ایسی ہی کہانیاں ہیں۔ کچھ بچے اپنے والد یا والدہ کے ساتھ مدد کرنے آتے ہیں، کئی بچے ایسے بھی ہیں خود اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ زراعت اور کھیتی باڑی ان کا آبائی پیشہ ہے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی سال 2021-22 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 10 سال کی عمر تک کے 14 ملین سے زیادہ بچے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں، جن میں سے 56 فیصد زرعی شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ زرعی شعبے میں سب سے زیادہ چائلڈ لیبر جنوبی پنجاب میں ہے جہاں 26 فیصد بچے کپاس کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔
چچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سرچ فار جسٹس کے سربراہ افتخار مبارک نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ پنجاب لیبر ڈیپارٹمنٹ کے 2019-20 کے سروے کے مطابق سب سے زیادہ چائلڈ لیبر زراعت، لائیو اسٹاک اور ماہی گیری کے شعبے میں ہے۔ چائلڈ لیبر ایکٹ 2016 کے مطابق 15 سال سے کم عمر بچے سے مزدوری کروانا قانوناً جرم ہے۔
انہوں نے کہا یہ حقیقت ہے کہ زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے سے چائلڈ لیبر کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم غربت اور بیروزگاری ہے۔ دیہات میں رہنے والوں کے پاس چونکہ روزگار کمانے کے کوئی متبادل ذرائع نہیں ہیں اس لیے وہاں زیادہ تر خاندان بشمول بچے ان شعبوں میں مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو چاہیے کہ لائیو اسٹاک اور زراعت میں جو خطرناک کام ہیں جن میں فصلوں میں زہروں کا سپرے، ٹریکٹر چلانا، تھریشر مشینیوں کا استعمال، رات کے وقت کھیتوں میں پانی لگانا، ٹوکہ مشینیں، مال برداری سمیت جو دیگر کام ہیں ان پر پابندی لگائی جائے کہ بچوں سے یہ کام کسی صورت نہیں لیے جا سکتے۔ اسی طرح دیہات میں رہنے والوں کو متبادل روزگار فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سرکاری اسکولوں کی عمارتوں میں ہی دیہی خواتین اور بچوں کے لیے شارٹ کورسز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
پراگریسو فارمر اور پاکستان میں کسانوں کے لیے پہلا ڈیجیٹل ڈیرہ بنانے والے عامر حیات بھنڈارا کہتے ہیں کہ چائلڈ لیبر بچوں کو تعلیم، صحت، ذہنی اور جسمانی تندرستی سے محروم کر دیتی ہے۔ چائلڈ لیبر کی بنیادی وجوہات غربت، تعلیم کی کمی، کمزور لیبر قوانین اور غیر رسمی موثر شعبے ہیں۔
انہوں نے کہا یہ حقیقت ہے کہ لائیو اسٹاک اور ایگری کلچر میں چائلڈ لیبر سب سے زیادہ ہے، دیہات میں مزدوری کرنے والے افراد اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ ان خاندانوں کے اخراجات زیادہ اور آمدن کم ہوتی ہے۔ اس لیے بچے والدین کا ہاتھ بٹانے کے لیے کھیت میں مزدوری کرتے ہیں۔ بچوں کو مال مویشی خاص طور پر بھیڑ بکریاں چرانے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ کھیتوں سے چارہ لانے کے لیے بھی بچے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر بچوں سے اس وقت کام لیا جاتا ہے جب کسی فصل کی چنائی کرنی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ خود کافی عرصہ سے لائیو اسٹاک اور ایگری کلچر میں چائلڈ لیبر کو کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے لیے انہوں نے سب سے پہلے اپنے گاؤں جو کہ پاکپتن میں واقع ہے یہاں سے اس کا آغاز کیا ہے۔ یہاں لائیو اسٹاک اور ایگری کلچر میں ایسے کام جو بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ان میں چائلڈ لیبر کو زیرو کر دیا ہے۔
پنجاب لیبر ڈیپارٹمنٹ حکام کے مطابق 2018 کی لیبر پالیسی میں زراعت اور تعمیراتی شعبے کو بھی شامل کیا گیا تھا تاہم ابھی تک لائیو اسٹاک اور ایگری کلچر کے شعبوں میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کی انسپکشن کے حوالے سے رولز نہیں بن سکے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ افرادی قوت کی کمی بھی ہے۔
پنجاب لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور لاء آفیسر محمد شاہد نے بتایا کہ ابھی تک ایگری کلچر کے شعبے میں چائلڈ لیبر کو کسی قانونی فریم ورک میں نہیں لایا جاسکا ہے تاہم اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور رولز بنانے پر کام ہو رہا ہے۔
دوسری طرف لیبر ڈیپارٹمنٹ کے فوکل پرسن راؤ زاہد محمود نے ٹربیون کو بتایا کہ پنجاب سمیت پورے ملک میں جنرل فارمنگ سیکٹر کے لیے کوئی قانون نہیں بن سکا ہے۔ کمرشل فارمنگ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں اور وہاں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے۔
لاہور کے علاقہ اعوان ڈھائیوالہ کے رہائشی 12 سالہ محمد ابراہیم اپنے ہم عمر کئی بچوں کے ساتھ کھیتوں سے آلو اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں۔ ان بچوں میں بعض کی عمر سات، آٹھ برس ہوگی لیکن یہ بچے بڑی محنت سے آلو چنتے اور پھر کھیت کے اندر مختلف جگہوں پر ڈھیری لگا رہے ہیں۔ ان بچوں کو کھیتوں سے جمع کیے گئے آلوؤں کا کچھ حصہ بطور مزدوری ملتا ہے جسے یہ بچے گھر لے جائیں گے یا پھر بیچ دیں گے۔
محمد ابراہیم نے بتایا کہ وہ پہلے اسکول جاتا تھا لیکن چوتھی کلاس سے اسکول چھوڑ دیا اور اب صرف کھیتوں میں مزدوری کرتا ہے۔ کھیتوں سے آلوؤں کی چنائی، دھان کی پنیری لگانے، مویشیوں کو کھیتوں میں لے جانے سمیت دیگر کام کرتا ہے۔ اسے ماہانہ 12 ہزار روپے ملتے ہیں۔
ابراہیم کی طرح کھیتوں میں مزدوری کرنے والے بچوں کی ایسی ہی کہانیاں ہیں۔ کچھ بچے اپنے والد یا والدہ کے ساتھ مدد کرنے آتے ہیں، کئی بچے ایسے بھی ہیں خود اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ زراعت اور کھیتی باڑی ان کا آبائی پیشہ ہے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی سال 2021-22 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 10 سال کی عمر تک کے 14 ملین سے زیادہ بچے مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں، جن میں سے 56 فیصد زرعی شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ زرعی شعبے میں سب سے زیادہ چائلڈ لیبر جنوبی پنجاب میں ہے جہاں 26 فیصد بچے کپاس کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔
چچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سرچ فار جسٹس کے سربراہ افتخار مبارک نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ پنجاب لیبر ڈیپارٹمنٹ کے 2019-20 کے سروے کے مطابق سب سے زیادہ چائلڈ لیبر زراعت، لائیو اسٹاک اور ماہی گیری کے شعبے میں ہے۔ چائلڈ لیبر ایکٹ 2016 کے مطابق 15 سال سے کم عمر بچے سے مزدوری کروانا قانوناً جرم ہے۔
انہوں نے کہا یہ حقیقت ہے کہ زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے سے چائلڈ لیبر کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم غربت اور بیروزگاری ہے۔ دیہات میں رہنے والوں کے پاس چونکہ روزگار کمانے کے کوئی متبادل ذرائع نہیں ہیں اس لیے وہاں زیادہ تر خاندان بشمول بچے ان شعبوں میں مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو چاہیے کہ لائیو اسٹاک اور زراعت میں جو خطرناک کام ہیں جن میں فصلوں میں زہروں کا سپرے، ٹریکٹر چلانا، تھریشر مشینیوں کا استعمال، رات کے وقت کھیتوں میں پانی لگانا، ٹوکہ مشینیں، مال برداری سمیت جو دیگر کام ہیں ان پر پابندی لگائی جائے کہ بچوں سے یہ کام کسی صورت نہیں لیے جا سکتے۔ اسی طرح دیہات میں رہنے والوں کو متبادل روزگار فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سرکاری اسکولوں کی عمارتوں میں ہی دیہی خواتین اور بچوں کے لیے شارٹ کورسز کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
پراگریسو فارمر اور پاکستان میں کسانوں کے لیے پہلا ڈیجیٹل ڈیرہ بنانے والے عامر حیات بھنڈارا کہتے ہیں کہ چائلڈ لیبر بچوں کو تعلیم، صحت، ذہنی اور جسمانی تندرستی سے محروم کر دیتی ہے۔ چائلڈ لیبر کی بنیادی وجوہات غربت، تعلیم کی کمی، کمزور لیبر قوانین اور غیر رسمی موثر شعبے ہیں۔
انہوں نے کہا یہ حقیقت ہے کہ لائیو اسٹاک اور ایگری کلچر میں چائلڈ لیبر سب سے زیادہ ہے، دیہات میں مزدوری کرنے والے افراد اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ ان خاندانوں کے اخراجات زیادہ اور آمدن کم ہوتی ہے۔ اس لیے بچے والدین کا ہاتھ بٹانے کے لیے کھیت میں مزدوری کرتے ہیں۔ بچوں کو مال مویشی خاص طور پر بھیڑ بکریاں چرانے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ کھیتوں سے چارہ لانے کے لیے بھی بچے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر بچوں سے اس وقت کام لیا جاتا ہے جب کسی فصل کی چنائی کرنی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ خود کافی عرصہ سے لائیو اسٹاک اور ایگری کلچر میں چائلڈ لیبر کو کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے لیے انہوں نے سب سے پہلے اپنے گاؤں جو کہ پاکپتن میں واقع ہے یہاں سے اس کا آغاز کیا ہے۔ یہاں لائیو اسٹاک اور ایگری کلچر میں ایسے کام جو بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ان میں چائلڈ لیبر کو زیرو کر دیا ہے۔
پنجاب لیبر ڈیپارٹمنٹ حکام کے مطابق 2018 کی لیبر پالیسی میں زراعت اور تعمیراتی شعبے کو بھی شامل کیا گیا تھا تاہم ابھی تک لائیو اسٹاک اور ایگری کلچر کے شعبوں میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کی انسپکشن کے حوالے سے رولز نہیں بن سکے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ افرادی قوت کی کمی بھی ہے۔
پنجاب لیبر ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور لاء آفیسر محمد شاہد نے بتایا کہ ابھی تک ایگری کلچر کے شعبے میں چائلڈ لیبر کو کسی قانونی فریم ورک میں نہیں لایا جاسکا ہے تاہم اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور رولز بنانے پر کام ہو رہا ہے۔
دوسری طرف لیبر ڈیپارٹمنٹ کے فوکل پرسن راؤ زاہد محمود نے ٹربیون کو بتایا کہ پنجاب سمیت پورے ملک میں جنرل فارمنگ سیکٹر کے لیے کوئی قانون نہیں بن سکا ہے۔ کمرشل فارمنگ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں اور وہاں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے۔