اسرائیل کا جنگی جنون دنیا کے امن کے لیے خطرہ
درحقیقت عالمی ادارے اسرائیل کی ناجائز سرپرستی کر کے پوری دنیا کے امن کو تباہ کر رہے ہیں
غزہ کے ایک اسپتال پر اسرائیل کے فضائی حملے میں پانچ سو سے زائد افراد شہید ہوگئے، دنیا بھر کے ممالک نے اس سفاکانہ فعل کی مذمت کی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے اسرائیل کو خبردارکیا ہے کہ اسپتال اور طبی عملے کو عالمی انسانی حقوق کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ دوسری جانب آرمی چیف جنرل عاصم منیرکی زیر صدارت ہونے والی کورکمانڈرزکانفرنس کے شرکاء نے غزہ میں اسرائیل کے طاقت کے استعمال سے معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر اظہار تشویش کیا ہے۔
درحقیقت اسرائیلی اقدامات انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کے خلاف ہیں۔ انسانی آبادی میں قائم اسپتالوں پر بم گرانا انتہائی سفاکانہ عمل ہے، جو دنیا میں انسانی حقوق کے علم برداروں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو درندہ صفت اور انسانیت سے عاری شخص ہے جو معصوم بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی جانب سے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جانے کی کارروائی کے دوران جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور خوراک کی بندش سے ایک بڑے انسانی المیے نے جنم لیا ہے، اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے منصوبے کے تحت وحشیانہ بمباری کر رہا ہے، بمباری کے نتیجے میں بچوں اور عورتوں سمیت ہزاروں لوگ شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔
فلسطینیوں پر جبر اس حد تک پہنچ چکا ہے اور دوام اختیار کر گیا ہے کہ اسے اب نسلی امتیاز اور ریاستی جبر قرار دیا جاسکتا ہے۔ صہیونی ریاست کے عزائم ابتدا ہی سے توسیع پسندانہ تھے، وہ اسی لیے شروع سے آج تک فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہی ہے اور نہتے فلسطینی جب مزاحمت کرتے ہیں تو ان پر وحشیانہ انداز میں بمباری کر دی جاتی ہے۔
درحقیقت عالمی ادارے اسرائیل کی ناجائز سرپرستی کر کے پوری دنیا کے امن کو تباہ کر رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں پر متعدد مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں ان میں سے کئی مظالم بنیادی حقوق کی پامالیوں اور غیر انسانی افعال کا حصہ ہیں اور نسلی امتیاز کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں درج ذیل مظالم شامل ہیں۔
غزہ کی بندش اور اجازت ناموں سے انکارکی شکل میں نقل وحمل پر وسیع تر پابندیاں، مغربی کنارے میں ایک تہائی سے زائد اراضی کی ضبطی، مغربی کنارے میں انتہائی کٹھن حالات جنھوں نے ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبورکیا، سیکڑوں فلسطینیوں اور ان کے رشتے داروں کو رہائش کے حقوق سے انکار، اور لاکھوں فلسطینیوں کو بنیادی شہری سہولیات دینے سے انکار شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم اور امریکا کی جانب سے جاری شدہ بیانات کے لب و لہجے اور الفاظ پر توجہ دے لی جائے تو مستقبل کا منظر نامہ خود بہ خود واضح ہو جاتا ہے، اگر اس معاملے کو گہرائی میں جا کر سمجھنا ہو تو ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔
سازشوں، دھونس اور دھمکی سے قائم کی گئی اسرائیل کی ناجائز ریاست اور فرزندِ زمین، یعنی فلسطینیوں کے درمیان جو کش مکش کئی دہائیوں سے جاری ہے، اس سے عالمی برادری بہ خوبی واقف ہے۔ اس کشیدہ صورت حال کی سب سے بڑی وجہ اسرائیل کی جانب سے اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت فلسطینی علاقوں میں قبضہ جماتے ہوئے یہودیوں کی بستیاں آباد کرنا ہے۔ مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسرائیل کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی ناجائز حمایت ہے۔
اس حمایت کی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا کے بیش تر بین الاقوامی تجارتی ادارے، بینکس، دیگر مالیاتی ادارے اور ذرایع ابلاغ کے زیادہ تر بڑے ادارے یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ پھر یہ کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست اور عربوں کو کنٹرول کرنے کے ضمن میں امریکا کے لیے پولیس مین کا کردار ادا کرتا ہے۔
یہودی امریکا اور یورپ کی معیشت اور سیاست پر بھرپور کنٹرول رکھتے ہیں۔ ان میں سے بیش تر ممالک کی حکومتیں بنانے اور گرانے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مالی، سیاسی اور ابلاغی اعتبار سے ایسے طاقتور غنڈے کو کون ناراض کرنا چاہے گا۔یہود مت کے پیرو کار اس بات پر دنیا کو قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ یہودیوں کا اسرائیلی ریاست کے ظالمانہ اقدامات سے لینا دینا نہیں ہے اور وہ فلسطینیوں کے لیے ایک الگ ریاست کے خواہاں ہیں۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ یہودیوں کی اپنے آپ کو بچانے کے لیے ایک نئی سازش کا آغاز ہے، ورنہ اس طرح یہودیوں کی جانب سے مسلمان فلسطینیوں کے لیے آواز 1973 کی کپوار جنگ کے بعد بلند ہو چکی ہوتی، اسی جنگ کے بعد ہی اسرائیل نے غزہ پٹی اور بیت المقدس پر مکمل قبضہ کیا تھا۔
اسرائیل جب ایک ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا تو اس وقت اس کا کُل رقبہ صرف پانچ ہزار مربع میل تھا اور اس کی حدود میں کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے۔ اسرائیل کا منصوبہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہے ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام اور دہشت گردی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے تو مسلمانوں کے خلاف عراق، شام، لیبیا، افغانستان اور فلسطین میں امریکی افواج '' بہادری کی داستانیں '' رقم کرتی ہیں اور اسلامو فوبیا کے خلاف ایک منظم انداز میں بھارت، اسرائیل اور یورپ اکٹھے نظر آتے ہیں، لیکن اب حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد بات اسرائیلی ریاست سے آگے نکل چکی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اب یہودیوں کو دنیا کے کسی ملک میں اپنی جگہ نظر نہیں آرہی تو ایک نئی سوچ کے ذریعے دنیا کو یہ سکھایا جا رہا ہے کہ یہودیت اور صیہونیت دو الگ الگ چیزیں ہیں اور یہود ایک پرامن قوم ہے جو عرصہ دراز سے عیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ امن سے زندگی گزار رہے ہیں۔ پورے اسرائیل اور مقبوضہ علاقے میں، اسرائیلی حکام نے یہودی آبادیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی حاصل کرنے اور زیادہ تر فلسطینیوں کوگنجان آباد مراکز تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔
حکام نے ایسی پالیسیاں اختیار کی ہیں جن کا مقصد خود ان کے بقول، '' فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے خطرے'' کو کم کرنا ہے۔ اسرائیلی حکام تسلط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو سیکڑوں یہودی قصبوں سے فلسطینیوں کے مؤثر اخراج کی اجازت دیتے ہیں اور ایسے بجٹ بھی شامل ہیں جو یہودی اسرائیلی بچوں کے اسکولوں کے مقابلے میں فلسطینی بچوں کے اسکولوں کے لیے بہت کم وسائل کی تخصیص کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں پر ظالمانہ فوجی نظام رائج ہے جب کہ اسی علاقے میں آباد یہودی اسرائیلیوں کو اسرائیل کے حقوق کے احترام پر مبنی دیوانی قانون کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں۔
ان جرائم کے ارتکاب کے دوران ہونے والی بہت سی زیادتیوں مثال کے طور پر فلسطینیوں کو تعمیراتی اجازت نامے دینے سے انکار اور اجازت ناموں کی عدم موجودگی کے بہانے گھروں کی مسماری کو سلامتی کے نام پر کسی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مقبوضہ علاقے میں آبادی کے اندراج پر اسرائیل کی عارضی پابندی جو وہاں مقیم فلسطینی خاندانوں کے دوبارہ میلاپ اور غزہ کے باشندوں کی مغربی کنارے میں رہائش کی راہ میں حائل ہے، مظالم کی ایسی مثالیں ہیں جن کا ارتکاب سلامتی کے نام پر کیا جا رہا ہے مگر ان کا اصل مقصد علاقے کی آبادی میں ردوبدل کرنا ہے۔
تاہم کوئی اقدام چاہے سلامتی کے پیش نظر ہی کیوں نہ اٹھایا جائے اس کی آڑ میں نسلی امتیاز یا جبر کو بالکل اسی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا جس طرح کہ بیجا طاقت یا تشدد کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 2018 میں آئینی درجہ رکھنے والے قانون کی منظوری جس نے اسرائیل کو '' یہودی عوام کی قومی ریاست'' قرار دیا اور کئی دیگر قوانین جن کی بدولت مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کو اور زیادہ مراعات حاصل ہوگئی ہیں، مگر ان کا اطلاق اسی علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں پر نہیں ہوتا، نیز حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی آبادکاری اور اس سے جڑے انفرا اسٹرکچر سمیت اسرائیلی حکام نے ماضی قریب میں کئی اقدامات اٹھائے اور بیانات دیے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہودی اسرائیلیوں کے غلبے کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دنیا کی مقتدر ریاستوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو اسلحے کی فروخت اور فوجی و سیکیورٹی مدد کو اس کے ساتھ مشروط کر دیں کہ اسرائیلی حکام اپنے ان جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات اٹھائیں گے۔ ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدات، تعاون کے منصوبوں اور ہر قسم کی تجارت و تعلقات کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کونسی سرگرمیاں جرائم کے ارتکاب میں براہ راست کردار ادا کر رہے ہیں، انسانی حقوق کو متاثرکر رہی ہیں اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو، ایسی سرگرمیاں اور فنڈنگ ختم کی جائے جو ان سنگین جرائم کی معاون پائی جائیں۔
انسانیت کے خلاف جرائم کے شواہد سامنے آنے کے بعد عالمی برادری کو اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت پر فوری نظرثانی کرنی ہوگی، اسرائیل کی حمایت کو ترک کے مظلوم فلسطینیوں کو آزادی دلانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے اسرائیل کو خبردارکیا ہے کہ اسپتال اور طبی عملے کو عالمی انسانی حقوق کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ دوسری جانب آرمی چیف جنرل عاصم منیرکی زیر صدارت ہونے والی کورکمانڈرزکانفرنس کے شرکاء نے غزہ میں اسرائیل کے طاقت کے استعمال سے معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر اظہار تشویش کیا ہے۔
درحقیقت اسرائیلی اقدامات انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کے خلاف ہیں۔ انسانی آبادی میں قائم اسپتالوں پر بم گرانا انتہائی سفاکانہ عمل ہے، جو دنیا میں انسانی حقوق کے علم برداروں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو درندہ صفت اور انسانیت سے عاری شخص ہے جو معصوم بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی جانب سے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جانے کی کارروائی کے دوران جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور خوراک کی بندش سے ایک بڑے انسانی المیے نے جنم لیا ہے، اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے منصوبے کے تحت وحشیانہ بمباری کر رہا ہے، بمباری کے نتیجے میں بچوں اور عورتوں سمیت ہزاروں لوگ شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔
فلسطینیوں پر جبر اس حد تک پہنچ چکا ہے اور دوام اختیار کر گیا ہے کہ اسے اب نسلی امتیاز اور ریاستی جبر قرار دیا جاسکتا ہے۔ صہیونی ریاست کے عزائم ابتدا ہی سے توسیع پسندانہ تھے، وہ اسی لیے شروع سے آج تک فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہی ہے اور نہتے فلسطینی جب مزاحمت کرتے ہیں تو ان پر وحشیانہ انداز میں بمباری کر دی جاتی ہے۔
درحقیقت عالمی ادارے اسرائیل کی ناجائز سرپرستی کر کے پوری دنیا کے امن کو تباہ کر رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں پر متعدد مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں ان میں سے کئی مظالم بنیادی حقوق کی پامالیوں اور غیر انسانی افعال کا حصہ ہیں اور نسلی امتیاز کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں درج ذیل مظالم شامل ہیں۔
غزہ کی بندش اور اجازت ناموں سے انکارکی شکل میں نقل وحمل پر وسیع تر پابندیاں، مغربی کنارے میں ایک تہائی سے زائد اراضی کی ضبطی، مغربی کنارے میں انتہائی کٹھن حالات جنھوں نے ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبورکیا، سیکڑوں فلسطینیوں اور ان کے رشتے داروں کو رہائش کے حقوق سے انکار، اور لاکھوں فلسطینیوں کو بنیادی شہری سہولیات دینے سے انکار شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم اور امریکا کی جانب سے جاری شدہ بیانات کے لب و لہجے اور الفاظ پر توجہ دے لی جائے تو مستقبل کا منظر نامہ خود بہ خود واضح ہو جاتا ہے، اگر اس معاملے کو گہرائی میں جا کر سمجھنا ہو تو ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔
سازشوں، دھونس اور دھمکی سے قائم کی گئی اسرائیل کی ناجائز ریاست اور فرزندِ زمین، یعنی فلسطینیوں کے درمیان جو کش مکش کئی دہائیوں سے جاری ہے، اس سے عالمی برادری بہ خوبی واقف ہے۔ اس کشیدہ صورت حال کی سب سے بڑی وجہ اسرائیل کی جانب سے اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت فلسطینی علاقوں میں قبضہ جماتے ہوئے یہودیوں کی بستیاں آباد کرنا ہے۔ مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسرائیل کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی ناجائز حمایت ہے۔
اس حمایت کی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا کے بیش تر بین الاقوامی تجارتی ادارے، بینکس، دیگر مالیاتی ادارے اور ذرایع ابلاغ کے زیادہ تر بڑے ادارے یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ پھر یہ کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست اور عربوں کو کنٹرول کرنے کے ضمن میں امریکا کے لیے پولیس مین کا کردار ادا کرتا ہے۔
یہودی امریکا اور یورپ کی معیشت اور سیاست پر بھرپور کنٹرول رکھتے ہیں۔ ان میں سے بیش تر ممالک کی حکومتیں بنانے اور گرانے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مالی، سیاسی اور ابلاغی اعتبار سے ایسے طاقتور غنڈے کو کون ناراض کرنا چاہے گا۔یہود مت کے پیرو کار اس بات پر دنیا کو قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ یہودیوں کا اسرائیلی ریاست کے ظالمانہ اقدامات سے لینا دینا نہیں ہے اور وہ فلسطینیوں کے لیے ایک الگ ریاست کے خواہاں ہیں۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ یہودیوں کی اپنے آپ کو بچانے کے لیے ایک نئی سازش کا آغاز ہے، ورنہ اس طرح یہودیوں کی جانب سے مسلمان فلسطینیوں کے لیے آواز 1973 کی کپوار جنگ کے بعد بلند ہو چکی ہوتی، اسی جنگ کے بعد ہی اسرائیل نے غزہ پٹی اور بیت المقدس پر مکمل قبضہ کیا تھا۔
اسرائیل جب ایک ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا تو اس وقت اس کا کُل رقبہ صرف پانچ ہزار مربع میل تھا اور اس کی حدود میں کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے۔ اسرائیل کا منصوبہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہے ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام اور دہشت گردی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے تو مسلمانوں کے خلاف عراق، شام، لیبیا، افغانستان اور فلسطین میں امریکی افواج '' بہادری کی داستانیں '' رقم کرتی ہیں اور اسلامو فوبیا کے خلاف ایک منظم انداز میں بھارت، اسرائیل اور یورپ اکٹھے نظر آتے ہیں، لیکن اب حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد بات اسرائیلی ریاست سے آگے نکل چکی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اب یہودیوں کو دنیا کے کسی ملک میں اپنی جگہ نظر نہیں آرہی تو ایک نئی سوچ کے ذریعے دنیا کو یہ سکھایا جا رہا ہے کہ یہودیت اور صیہونیت دو الگ الگ چیزیں ہیں اور یہود ایک پرامن قوم ہے جو عرصہ دراز سے عیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ امن سے زندگی گزار رہے ہیں۔ پورے اسرائیل اور مقبوضہ علاقے میں، اسرائیلی حکام نے یہودی آبادیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی حاصل کرنے اور زیادہ تر فلسطینیوں کوگنجان آباد مراکز تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔
حکام نے ایسی پالیسیاں اختیار کی ہیں جن کا مقصد خود ان کے بقول، '' فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے خطرے'' کو کم کرنا ہے۔ اسرائیلی حکام تسلط برقرار رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کے خلاف ادارہ جاتی امتیاز میں ایسے قوانین بھی شامل ہیں جو سیکڑوں یہودی قصبوں سے فلسطینیوں کے مؤثر اخراج کی اجازت دیتے ہیں اور ایسے بجٹ بھی شامل ہیں جو یہودی اسرائیلی بچوں کے اسکولوں کے مقابلے میں فلسطینی بچوں کے اسکولوں کے لیے بہت کم وسائل کی تخصیص کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں فلسطینیوں پر ظالمانہ فوجی نظام رائج ہے جب کہ اسی علاقے میں آباد یہودی اسرائیلیوں کو اسرائیل کے حقوق کے احترام پر مبنی دیوانی قانون کے تحت مکمل حقوق حاصل ہیں۔
ان جرائم کے ارتکاب کے دوران ہونے والی بہت سی زیادتیوں مثال کے طور پر فلسطینیوں کو تعمیراتی اجازت نامے دینے سے انکار اور اجازت ناموں کی عدم موجودگی کے بہانے گھروں کی مسماری کو سلامتی کے نام پر کسی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مقبوضہ علاقے میں آبادی کے اندراج پر اسرائیل کی عارضی پابندی جو وہاں مقیم فلسطینی خاندانوں کے دوبارہ میلاپ اور غزہ کے باشندوں کی مغربی کنارے میں رہائش کی راہ میں حائل ہے، مظالم کی ایسی مثالیں ہیں جن کا ارتکاب سلامتی کے نام پر کیا جا رہا ہے مگر ان کا اصل مقصد علاقے کی آبادی میں ردوبدل کرنا ہے۔
تاہم کوئی اقدام چاہے سلامتی کے پیش نظر ہی کیوں نہ اٹھایا جائے اس کی آڑ میں نسلی امتیاز یا جبر کو بالکل اسی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا جس طرح کہ بیجا طاقت یا تشدد کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 2018 میں آئینی درجہ رکھنے والے قانون کی منظوری جس نے اسرائیل کو '' یہودی عوام کی قومی ریاست'' قرار دیا اور کئی دیگر قوانین جن کی بدولت مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کو اور زیادہ مراعات حاصل ہوگئی ہیں، مگر ان کا اطلاق اسی علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں پر نہیں ہوتا، نیز حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی آبادکاری اور اس سے جڑے انفرا اسٹرکچر سمیت اسرائیلی حکام نے ماضی قریب میں کئی اقدامات اٹھائے اور بیانات دیے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہودی اسرائیلیوں کے غلبے کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دنیا کی مقتدر ریاستوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو اسلحے کی فروخت اور فوجی و سیکیورٹی مدد کو اس کے ساتھ مشروط کر دیں کہ اسرائیلی حکام اپنے ان جرائم کو ترک کرنے کے لیے ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات اٹھائیں گے۔ ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ اپنے معاہدات، تعاون کے منصوبوں اور ہر قسم کی تجارت و تعلقات کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان میں سے کونسی سرگرمیاں جرائم کے ارتکاب میں براہ راست کردار ادا کر رہے ہیں، انسانی حقوق کو متاثرکر رہی ہیں اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو، ایسی سرگرمیاں اور فنڈنگ ختم کی جائے جو ان سنگین جرائم کی معاون پائی جائیں۔
انسانیت کے خلاف جرائم کے شواہد سامنے آنے کے بعد عالمی برادری کو اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ اپنے تعلق کی نوعیت پر فوری نظرثانی کرنی ہوگی، اسرائیل کی حمایت کو ترک کے مظلوم فلسطینیوں کو آزادی دلانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔