میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطین آباد

حماس اسلامی اصولوں کے تحت جہاد کے فلسفہ پر یقین رکھتی ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan October 19, 2023
[email protected]

لیلیٰ خالد 9 اپریل 1994کو فلسطین کے علاقہ حیفہ میں ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئی۔ فرانسیسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل کیا۔

فلسطین کی آزادی کے لیے قائم ہونے والے کمیونسٹ گروپ Popular Front for the Liberation Palistine میں شمولیت اختیار کر لی۔ پاپولر فرنٹ یاسر عرفات کے قائم کردہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن P.L.O کا حصہ بنا۔

لیلیٰ خالد جلد ہی اس تحریک کی متحرک کارکن بن گئیں۔ لیلیٰ خالد پہلی خاتون ہائی جیکر ہیں جنھوں نے اسرائیل کے 4 طیاروں کو اغواء کیا۔ انھوں نے پہلا جہاز 29 اگست 1969 کو اغواء کیا، یہ بوئنگ 707 طیارہ تھا۔ یہ جہاز اٹلی سے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب جا رہا تھا۔

پاپولر فرنٹ کے خفیہ ذرایع یہ اطلاع دے رہے تھے کہ اس وقت کے اسرائیل کے وزیر اعظم بھی اس فلائٹ کے مسافروں میں شامل تھے، جب جہاز ایشیاء کی حدود میں داخل ہوا تو نقاب پوش حسینہ لیلیٰ خالد نے جہاز کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

لیلیٰ خالد نے جہاز کے پائلٹ کو حکم دیا کہ فلسطین کے شہر حیفہ کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے جہاز کا رخ شام کے دارالحکومت دمشق کی طرف موڑے تاکہ وہ دمشق جانے سے پہلے اپنی جائے پیدائش وطن مالوت حیفہ کو دیکھنا چاہتی ہے، یوں پائلٹ کو لیلیٰ کے حکم کی تعمیل کرنی پڑی۔ لیلیٰ خالد اور ان کے ساتھیوں نے فلسطین کی آزادی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات کیے۔ ایک مطالبہ ہائی جیکر کی باحفاظت واپسی تھی۔

اسرائیل کو اپنے قیام کے بعد پہلی دفعہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیلیٰ نے 2 دفعہ اسرائیلی طیارے اغواء کیے اور اپنی شناخت چھپانے کے لیے 6 دفعہ پلاسٹک سرجری کرائی۔ لیلیٰ خالد نے 6 ستمبر 1970 کو اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر ایمسٹرڈیم سے نیویارک جانے والے طیارہ کو اغواء کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش ناکام ہوئی۔

اس طیارہ کو برطانیہ کے ایک ایئرپورٹ پر اتار لیا گیا۔ برطانیہ کے سیکیورٹی کے دستہ نے لیلیٰ کے ساتھی کو گولی مار کر شہید کردیا اور لیلیٰ کو گرفتار کرلیا گیا مگر ایک ماہ بعد فلسطینی ہائی جیکر ایک طیارہ اغواء کرنے میں کامیاب ہوئے اور لیلیٰ برطانوی جیل سے رہا ہوئیں۔

لیلیٰ خالد نے اپنی زندگی کے بارے میں خود نوشت سوانح عمری لکھی جس کا نام '' میرے لوگ زندہ رہیں'' "My People Shall Live" ہے۔ لیلیٰ خالد پر 2005 میں ایک فلم بنی جس کا نام "Leila Khalid Hijacker" رکھا گیا۔

لیلیٰ 70ء کے عشرہ میں نوجوانوں کی ہیرو بن گئیں۔ ان کی زندگی پر ایک ناول پہلے محاطرہ نمبر ناطہ ایڈووئن درسن نے لکھا۔ معروف ادیب امتیاز علی نائچ نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا۔ لیلیٰ خالد اور ان کے ساتھیوں کی بہادری سے فلسطین کا مسئلہ پوری دنیا میں اہم ترین موضوع بن گیا۔

فلسطین کبھی سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا مگر عثمانیہ سلطنت بکھر گئی، سعودی عرب، اردن اور مصر وغیرہ علیحدہ علیحدہ ملک بن گئے تو فلسطین پر صہیونیوں کے قبضہ کا سلسلہ شروع ہوا۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کا قیام 1964 میں عمل میں آیا۔

عرب لیگ نے پی ایل او کے قیام کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ فلسطینی رہنما محمد یار عبد الرحمن عبدالرؤف عرفان 21 اگست 1924کو مصر میں پیدا ہوئے، وہ یاسر عرفات کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔ یاسر عرفات کا انتقال 11 نومبر 2004 کو فرانس میں ہوا۔ یاسر عرفات فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم الفتح کے بانیوں میں سے تھے۔

الفتح نے اسرائیلی تنصیبات پر حملے شروع کیے۔ اس دوران بائیں بازو کی جماعتوں نے اپنی تنظیمیں بنائیں جن میں پاپولر فرنٹ بھی شامل ہے۔ 1967 میں تمام تنظیمیں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن میں شامل ہوگئیں۔ یاسر عرفات کو 1969 میں فلسطینی نیشنل کونسل PNC کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔

پی ایل او کی پہلی کارروائیوں کا مرکز اردن تھا۔ امریکا کے دباؤ میں آکر شاہ حسین کی فوج نے فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ پی ایل او کو اپنا ہیڈ کوارٹر لبنان کے دارالحکومت بیروت منتقل کرنا پڑا۔ یاسر عرفات نے ایک ادبی رسالہ شایع کرنے کا فیصلہ کیا۔

لینن انعام یافتہ عظیم شاعر فیض احمد فیض کو اس کا ایڈیٹر بنایا گیا۔ جب 80ء کی دہائی میں اسرائیل نے بیروت پر حملہ کیا تو فیض احمد فیض اس جنگ میں گھر گئے۔ یاسر عرفات نے انھیں بیروت سے دمشق پہنچایا جہاں سے فیض احمد فیض پاکستان آنے میں کامیاب ہوئے، پھر پی ایل او کا مرکزی دفتر تیونس منتقل ہوا۔

فلسطین کی جدوجہد میں سوویت یونین کا بڑا کردار تھا۔ سوویت یونین نے پی ایل او کو مالیاتی امداد کے ساتھ ہتھیار بھی فراہم کیے تھے مگر سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد یاسر عرفات کی جدوجہد کمزور پڑی، یوں یاسر عرفات کو مغربی ممالک اور امریکا کے دباؤ کی بناء پر اسرائیل سے اوسلو معاہدہ پر متفق ہونا پڑا۔ پی ایل او کی قیادت فلسطینی علاقے میں ایک بہتر طرز حکومت دینے میں ناکام رہی جس کے بعد اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس نے مقبولیت حاصل کی۔

حماس کے موجودہ سربراہ اسماعیل حینی حماس کے بانیوں میں ہیں۔ حماس اسلامی اصولوں کے تحت جہاد کے فلسفہ پر یقین رکھتی ہے۔ حماس سنیوں کی جماعت ہے جب کہ ایک اور تنظیم حزب اﷲ شیعہ فرقہ کی پیروکار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران ان دونوں تنظیموں کو امداد دیتا ہے مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قطر بھی عطیہ دینے والوں میں شامل ہے۔

کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ روس حماس کی حمایت کرتا ہے۔ فلسطین کے بارے میں لکھی جانے والے کتابوں سے اخذ کردہ مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کی ایماء پر حماس قائم ہوئی تھی تاکہ پی ایل او کو کمزور کیا جائے۔

اگرچہ مذہبی تنظیموں کا دائرہ محدود ہوتا ہے مگر حماس کی منصوبہ بندی اور جنگ کے پہلے مرحلہ میں کامیابی سے آزادی کی حمایت کرنے والے دنیا بھر کے لوگ حمایت کر رہے ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2008سے یہ جنگ شروع ہونے سے پہلے تک 5000 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوئے تھے جب کہ اسرائیلیوں کی تعداد 300 کے قریب تھی ۔

موجودہ جنگ میں اب تک 3000 کے قریب فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں اور ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ الفتح کی حکومت دریائے اردن کے مغربی کنارے پر ہے جب کہ حماس غزہ کی پٹی پر مضبوط ہے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی کو خالی کرانے کے لیے مسلسل بمباری کر رہا ہے اور پانی بجلی تک بند کیے ہوئے ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں کی کوششوں کے باوجود سلامتی کونسل سے حماس کے حملہ کی مذمت کی قرارداد منظور نہ ہوسکی مگر اس دفعہ چین نے محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ چند سال قبل چین کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم ہوگئے تھے۔

روس نے ایک جامع قرارداد پیش کی جس میں تشدد کی مذمت کی گئی مگر امریکا کی مخالفت کی وجہ سے یہ قرارداد منظور نہ ہوسکی۔ مغربی ممالک اور وہاں کی رائے عامہ کا بیانیہ یہ ہے کہ اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کا تصور ختم ہونا چاہیے۔

اسرائیل اور آزاد فلسطین کی ریاست کو پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت رہنا چاہیے مگر اس کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اسرائیل صیہونی ریاست کے بجائے سیکولراور جمہوری ریاست بن جائے۔

حماس کو اپنا دائرہ وسیع کرنے اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے سیکولر طرز عمل کو اختیار کرنا ہوگا۔ عظیم شاعر فیض احمد فیض نے فلسطین کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے کئی نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی نظم کے اشعار آج بھی فلسطین کی صورتحال کی عکاسی کررہے ہیں۔

تیرے اعدا نے کی ایک فلسطیں برباد

میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں