نسل‘ دھرتی اور مذہب کا گٹھ جوڑ
بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں متعصب شدت پسند اور کٹر مذہبی خیالات رکھنے والی سیاسی پارٹی الیکشن جیتتی ہے
''پوری دنیا عیسائیت' اسلام اور کمیونزم میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ان سب نے ہندوئوں کو ایک بہترین خوراک سمجھا ہوا ہے۔ جسے کھا کھا کر یہ موٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ان تینوں سے ہندوئوں اور ہندو مذہب کو بچانا ہے''۔ یہ الفاظ تھے اس اعلامیہ کے جو 29 اگست 1964ء کو ویشو ہندو پریشد کے قیام کے موقع پر ممبئی میں جاری کیا گیا۔ یہ اعلامیہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کی ایک تاریخ کا اظہار تھا جو 1925ء میں قائم ہونے والی راشٹریہ سیوک سنگھ کے قیام سے شروع ہوتی ہے۔ اسے ناگپور میں پیدا ہونے والے کیشو ہمیگوار نے وجیہہ وشمی کے دن قائم کیا تھا۔
وجیہہ وشمی اس دن کو کہتے ہیں جب رام چندر نے راون کو شکست دی تھی۔ ناگپور کا یہ شخص کلکتہ میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پہلی دفعہ ہندوئوں نے مذہبی تہواروں کے دوران لگنے والے میلوں پر ہتھیار بند جانے کی رسم کا آغاز کیا تھا۔ اس تنظیم میں شدت پسندی کا تصور یورپ میں کام کرنے والی دائیں بازو کی کٹر تنظیموں سے لیا گیا تھا۔ جنگ عظیم دوم سے پہلے ہی کیشو ہٹلر اور اس کے نظریات کا واضح حامی تھا اور ان پر ہندوئوں کو عمل کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ اس کی تنظیم بھارت دھرتی میں کسی بھی غیر قوم یا مذہب کے فرد کی آمد کو ناپاک قدم تصور کرتی تھی۔ یہ تصور ان کا ذاتی یا تنظیمی نہیں بلکہ مذہبی بنیاد رکھتا تھا۔
ہندو مذہب جہاں بھارت ماتا میں بسنے والے ہندوئوں کو چار مختلف ذاتوں' برہمن' کھشتری' ویش اور شودر میں تقسیم کرتا ہے۔ وہیں باہر سے آئے ہوئے دوسرے مذہب کے افراد کو ملیچھ یعنی ناپاک کہتا ہے۔ یہی تنظیم ہے جس کے ایک رکن نتھو رام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا اور وہ آج تک اس کی یاد مناتے ہیں۔ تنظیم نے یوں تو فلاحی کاموں کو اپنا مقصد بنایا لیکن پورے بھارت میں جسمانی ورزش اور یوگا کے نام پر نوجوانوں کو منظم کیا۔ ان ورزشوں کو ''شاکا'' کے نام سے منعقد کرتے۔ 2004ء میں بھارت کے ساٹھ ہزار مقامات پر ایسے شاکاز قائم کیے جا چکے تھے اور اس وقت راشٹریہ سیوک سنگھ کے ممبران کی تعداد ساٹھ لاکھ تھی۔
اسی تنظیم کی کوکھ سے ویشو ہندو پریشد نے جنم لیا۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ افراد جو بھارتی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں راجپوت جاٹ وغیرہ شامل ہیں اگر کوئی دوسرا مذہب یعنی دھرم اختیار کر لیتے ہیں تو وہ ناپاک ہو جاتے ہیں۔ انھیں واپس ہندو دھرم میں لا کر پاک کرنا ہے۔ ان کے نزدیک وہ لوگ جو نسلاً باہر سے آئے ہیں وہ تو ناپاک ہیں ہی اور ان سے تو اس دھرتی کو پاک کرنا ہے لیکن یہاں پر آباد نسلوں میں سے جو لوگ ہیں وہ اگر مسلمان اور عیسائی ہو گئے ہیں تو وہ جب تک واپس ہندو نہیں ہو جاتے ناپاک رہیں گے اور ان کا وجود اس دھرتی کو بھی ناپاک کرتا رہے گا۔ اس کی بنیاد پر پورے بھارت میں ایک خوفناک مہم چلائی گئی۔ اس کی زد میں سب سے زیادہ عیسائی آئے کیونکہ وہ ایسے تھے جو نیچ ذاتوں کے ہندو تھے وہ عیسائیت قبول کر چکے تھے۔
اس مہم کے لیے ویشو ہندو پریشد نے اپنے دو مسلح گروہ بنائے۔ ایک بجرنگ دَل جو نوجوان لڑکوں پر مشتمل ہے۔ بجرنگ ہنومان دیوتا کا نام ہے۔ یہ یکم اکتوبر 1984ء میں قائم ہوئی اور اس کے ڈھائی ہزار مسلح جھتے ہیں۔ دوسری مسلح نوجوان خواتین کی تنظیم ہے جسے درگا واہنی یعنی درگا دیوی کی فوج کہا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے تحت نیچ ذات کی ہندو لڑکیوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اور انھیں کراٹے اور یوگا کے نام پر مسلح تربیت دی جاتی ہے۔ گجرات شہر میں مسلم کُش فسادات سے پہلے اس مسلح گروہ کی تعداد صرف گجرات میں ایک ہزار تھی اور اب یہ گروہ سمجھتا ہے کہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ہندو مذہبی تعصب اور دیگر مذاہب سے بھارت کو پاک کرنے کے اس ''مذہبی'' عمل پر یقین رکھنے والی تنظیموں کی تعداد بے تحاشا ہے۔
یہ بھارت میں پیدا ہونے والے مذاہب سِکھ' جین' بدھ اور ہندو کو ہی دھرتی کے مذہب مانتے ہیں اور باقیوں کو بدیشی سمجھ کر ناپاک تصور کرتے ہیں اور بھارت کو ان سے پاک کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ تمام تنظیمیں علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ان سب نے مل کر ایک بہت بڑے خاندان کی شکل اختیار کر رکھی ہے جسے وہ سنگھ پریوار کہتے ہیں۔ پریوار ہندی میں خاندان کو کہتے ہیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ نے اپنے لوگوں کو مختلف گروہوں میں جا کر ان میں کام کرنے کا حکم دیا اور پھر جہاں جہاں ان کے نظریات غالب آگئے ایسی تنظیموں کو ایک لڑی میں پرو دیا گیا۔ 1960ء کی دہائی میں قائم ہونے والے اس سنگھ پریوار میں رکن تنظیموں کی تعداد پچاس کے قریب ہے لیکن اس سنگھ پریوار کی رکن ایک ہی سیاسی پارٹی ہے جس کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہے۔
سنگھ پریوار نے 1998ء میں اپنی ذیلی تنظیموں کے ممبران کی جو تعداد بتائی تھی وہ کروڑوں میں ہے۔ صرف بی جے پی کے ممبران کی تعداد دو کروڑ تیس لاکھ تھی۔ بھارتیہ کسان سنگھ 80 لاکھ اور بھارتیہ مزدور سنگھ ایک کروڑ ہے۔ یہ تمام کے تمام گروہ پورے بھارت میں ایک ہندو تعصب اور بھارت دھرتی کو بدیشی مذاہب سے پاک کرنے کے ایجنڈے پر کار بند ہیں اور سیاسی طور پر متعصب' متشدد اور مسلح جدوجہد پر یقین کرنے والے کٹر مذہبی گروہوں کی نمایندگی بھارتیہ جنتا پارٹی کرتی ہے اور بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں متعصب شدت پسند اور کٹر مذہبی خیالات رکھنے والی سیاسی پارٹی الیکشن جیتتی ہے۔
تاریخ میں ایسا دوسری دفعہ ہو رہا ہے اور پہلی دفعہ جب ایسا ہوا تھا تو اس کے نتیجے میں جو خوفناک اور ہولناک منظر اس دنیا نے دیکھا اس کی یاد ابھی تک قائم ہے۔ جنگ عظیم اول کے بعد جب جرمنی نے ورسلیز معاہدہ 1919ء میں کیا تو پورے جرمنی میں ایک شکست خوردگی کا منظر تھا۔ اس معاہدے کی ایک مشق War guilt Clause تھی جس کے تحت جرمنی نے اپنے آپ کو تمام نقصانات کا ذمے دار مان لیا تھا۔ اس زمانے میں جرمن قوم کو عزت و توقیر دلانے اور انھیں دنیا کی عظیم قوم کا رتبہ واپس دلانے کے لیے بہت سی تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں کام کر رہی تھیں لیکن تعصب کی اس لہر اور شدت پسندی کے طوفان کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خوفناک قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جس کا انگ انگ تعصب اور انتقام کی آگ میں جل رہا ہو۔ یہ قیادت اوڈلف ہٹلر نے فراہم کی۔ اس نے ورسلیز معاہدے کی دھجیاں بکھیرنا شروع کیں۔
اس نے 1923ء میں بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی اور گرفتار ہوا۔ رہائی پر اس کے نظریات مزید شدید تھے۔ وہ یہودیوں کے وجود کو دنیا بھر کے لیے ناپاک تصور کرتا تھا۔ اس کے نزدیک کیپٹل ازم اور کمیونزم دونوں یہودی سازشیں تھیں۔ اس نے جرمن قوم کی بالادستی اور غلبے کا نعرہ لگایا اور 1933ء میں جمہوری طور پر منتخب ہو گیا لیکن اسے مکمل اختیار اور ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے تھی۔ نسل پرست متعصب ہٹلر کے ساتھ مذہبی شدت پسند پارٹی کیتھولک سینٹر پارٹی مل گئی اور با اختیار ہٹلر تاریخ کا وہ خوفناک کردار بن کر ابھرا کہ پورا یورپ آج تک اس کی لگائی ہوئی آگ کی تپش محسوس کرتا ہے۔
راشٹریہ سیوک سنگھ کے ممبران میں اٹل بہاری باجپائی جیسے شاعر بھی تھے لیکن نریندر مودی اس متعصب تنظیم میں ویسے ہی شدت پسند خیالات کا حامل تھا جیسے ہٹلر کے خیالات ورکرز پارٹی میں تھے۔ تاریخ ایک دفعہ پھر نسل' دھرتی اور مذہب کے ملاپ سے ابھرنے والی ایسی قیادت کا منظر دیکھ رہی ہے جو جمہوری طور پر منتخب ہوئی ہے۔ جمہوریت جسے اکثر مفکرین اکثریت کی آمریت (Tyrny of Majority) کہتے ہیں اس کا اظہار دوسری دفعہ ہوا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے میں انسانیت خون میں تو ڈوب جاتی ہے لیکن شکست نسل' دھرتی اور مذہب کے جمہوری گٹھ جوڑ کو ہوتی ہے۔