200 ارب ڈالر کس کے ہیں

ماضی میں پاکستانی اشرافیہ کے اربوں ڈالر اس بلیک ہول میں گم ہو گئے اور اب تازہ اطلاعات کے مطابق ...


Zaheer Akhter Bedari May 18, 2014
[email protected]

KARACHI: سعودی عرب نے پاکستان کو ''تحفے'' میں جب صرف ڈیڑھ ارب ڈالر دیے تو نہ صرف ہمارے حکمرانوں کی باچھیں کِھل گئیں بلکہ ڈالر ایک سو سے اوپر سے گر کر سو کے نیچے آ گیا۔ اس اقتصادی معجزے سے اندازہ ہوا کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی کیا اہمیت ہوتی ہے، اگرچہ اس خطیر رقم کا نہ عوام کی غربت پر کچھ اثر پڑا نہ یہ پتہ چلا کہ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں گئے؟ کس طرح استعمال ہوئے؟ کس نے استعمال کیے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں پائے جانے والے بلیک ہول کی طرح جس میں زمین سے بڑے سیارے گم ہو جاتے ہیں سرمایہ دارانہ نظام میں بھی ایک سے ایک بلیک ہول موجود ہیں جن میں اربوں کھربوں ڈالر گم ہو جاتے ہیں۔

ایسا ہی ایک بلیک ہول سوئس بینکوں کا نظام ہے۔ ماضی میں پاکستانی اشرافیہ کے اربوں ڈالر اس بلیک ہول میں گم ہو گئے اور اب تازہ اطلاعات کے مطابق ''پاکستانیوں'' کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں موجود ہیں۔ کائنات کے بلیک ہول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اپنی عمر پوری کرنے والے بڑے بڑے سیارے گم ہو جاتے ہیں اور یہ پتہ نہیں چلتا کہ انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، اس کے برخلاف سرمایہ دارانہ نظام کے بلیک ہول کی خوبی یہ ہے کہ ان میں گم ہونے والے اربوں ڈالر صرف ان عوام کی نظروں سے گم ہو جاتے ہیں جو اس دولت کے اصل مالک ہوتے ہیں اور اس دولت کے غاصبوں کے اختیار میں ہوتے ہیں۔

200 ارب ڈالر کی یہ خبر کوئی ہوائی نہیں ہے بلکہ حکومت نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور سرمایہ داروں کے سوئس بینکوں میں جمع 200 ارب ڈالر، جسے واپس لانے کی حکومت کوششیں کر رہی ہے، معلوم ہوا ہے کہ جن ''اکابرین'' نے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع کر رکھے ہیں ان کے نام اور اکاؤنٹ نمبر حاصل کرنے کی حکومت کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ان قوانین میں ترامیم لانے کے لیے 26 اگست کو مذاکرات ہوں گے جن کے مطابق سوئس بینک ان اربوں ڈالروں کے مالکوں کے نام اور اکاؤنٹ نمبر راز میں رکھنا ان بینکوں کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے، جس سے سرمایہ دارانہ اخلاقیات کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

ہمارے پارلیمانی سیکریٹری برائے خزانہ رانا افضل خان نے انکشاف فرمایا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کے 32 ہزار ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سوئس بینکوں میں بھارتی اشرافیہ کے 1.4 ٹریلین ڈالر جمع ہیں، جنھیں بھارتی حکومت واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ گزشتہ سال تحقیقاتی جرنلسٹس کے عالمی ادارے نے ایسی 10 ہزار کمپنیوں کے اکاؤنٹس کی تفصیل جاری کی تھی جنھوں نے اربوں ڈالر کی ناجائز کمائی سنگاپور اور کرسپیئن جزائر کے سیف بینک میں چھپا رکھے ہیں۔ خود ہمارے ملک کے حوالے سے سوئس بینک کیس اس قدر مقبول ہوا کہ بچہ بچہ سوئس بینک کی کارکردگی سے واقف ہوا اور اس حقیقت سے بھی واقف ہوا کہ ایک وزیر اعظم کی قربانی لے کر ہماری عدلیہ نے دوسرے وزیر اعظم سے سوئس حکومت کو جو ''تاریخی خط'' لکھوایا تھا وہ بھی اسی بلیک ہول میں گم ہو گیا۔

اس حوالے سے جو سب سے اہم سوال ابھرتے ہیں ان میں پہلا سوال یہ ہے کہ یہ 200 ارب ڈالر اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی محنت کی کمائی ہیں یا اشرافیہ کی بدعنوانیوں کی کمائی ہے؟ ظاہر ہے ہر ملک کی قومی دولت کے پیدا کنندہ عوام ہی ہوتے ہیں لیکن اس عوامی دولت کو کھلی کرپشن اور منافع جیسے بند کرپشن کے نام پر لٹیرے طبقات ہتھیا لیتے ہیں۔ چونکہ ملکی بینکوں میں ان بھاری رقوم کو رکھنا خطرات کو دعوت دینا ہوتا ہے لہٰذا یہ لٹیرے طبقات اس کمائی کو غیر ملکی بینکوں میں رکھتے ہیں۔

ہماری ترقی یافتہ دنیا غربت کو کم کرنے کے لیے جو عالمی کانفرنسیں کرتی ہے ان پر خرچ کی جانے والی رقوم کو اگر کسی غریب ملک کی غربت دور کرنے پر صرف کیا جائے تو بلاشبہ ایسے غریب ملک کی غربت دور ہو سکتی ہے لیکن چونکہ امیر ملکوں کے حکمرانوں کا مقصد صرف غربت کم کرنے کا پروپیگنڈا کرنا ہوتا ہے اس لیے غربت دور نہیں ہوتی۔

سرمایہ دارانہ نظام کے عیاروں نے اس نظام سے فیضیاب ہونے والوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے جو حفاظتی اقدامات کر رکھے ہیں ان میں سب سے اہم حق ''لامحدود نجی ملکیت کا حق'' ہے۔ اس حق کو قانونی اور آئینی تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ اس نظام کا دعویٰ تو یہ ہے کہ یہ نظام ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے اور لامحدود نجی ملکیت کا حق بھی دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 90 فیصد عوام کے پاس اس کے دو ہاتھ ہی اس کی نجی ملکیت ہوتے ہیں جن کی مشقت سے وہ اتنی دولت پیدا کرتا ہے کہ مٹھی بھر بدعنوان اور کرپٹ لوگ 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور 200 ارب ڈالر تخلیق کرنے والے دو وقت کی روٹی سے محتاج ہوتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زرعی معیشت سے جڑی 60 فیصد آبادی جو ہاریوں کسانوں پر مشتمل ہوتی ہے کیا وہ سوئس بینکوں میں اپنا سرمایہ رکھنے کے قابل ہوتی ہے؟ وہ کروڑوں مزدور جو ملک کے کارخانوں، ملوں میں کام کرتے ہیں کیا وہ سوئس بینکوں میں اپنی کمائی رکھنے کے قابل ہوتے ہیں؟ مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے وہ لاکھوں ملازمین اور چھوٹے کاروباری اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنا سرمایہ سوئس بینکوں میں رکھیں؟ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کے پاس اتنا سرمایہ ہوتا ہے کہ وہ سوئس بینکوں میں رکھ سکیں؟

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ذہنی مشقت کرنے والے لاکھوں صحافی کیا اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنی بچت کو سوئس بینکوں میں رکھ سکیں؟ وکیلوں، ڈاکٹروں کے پاس اتنی رقم ہوتی ہے کہ وہ اسے سوئس بینکوں میں رکھ سکیں؟ ہزاروں اہل فکر اور ایماندار دانشور اتنے مال دار ہوتے ہیں کہ وہ اپنا سرمایہ سوئس بینکوں میں رکھ سکیں؟ معاشرے اور ملک کے ان معماروں کی جسمانی اور ذہنی مشقت سے اربوں کھربوں ڈالر کا جو سرمایہ پیدا ہوتا ہے وہ ان چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں، بدعنوانوں اور کرپٹ عناصر کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے ہے اور اجتماعی خودکشیاں کر کے زندگی کے عذابوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا ایسے غریب ترین ملک کے مٹھی بھر بے ایمانوں، بددیانتوں، ضمیر فروشوں اور قوم و ملک فروشوں کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ لوٹ مار اور بدعنوانیوں کے ذریعے حاصل کیے جانے والے 200 ارب ڈالر کو سوئس بینکوں میں جمع کریں؟ کہا جا رہا ہے کہ یہ دو سو ارب ڈالر تو ایک مٹھی بھر گروہ کا اندوختہ ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ رقوم کئی اور بدعنوان طبقات نے غیر ملکی بینکوں میں جمع کر رکھی ہیں۔

خبروں کے مطابق ہماری حکومت ان 200 ارب ڈالر کو واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے اپنی انتخابی مہم کے دوران زرداری کے اثاثے باہر سے واپس ملک میں لانے کے وعدے کیے تھے، چھوٹے میاں زرداری کو علی بابا چالیس چور کا خطاب دیتے تھے اور پیپلز پارٹی کے قائدین جواباً میاں برادران کے بھاری اثاثے بیرون ملک سے پاکستان لانے کی باتیں کرتے تھے۔ کیا یہ وعدے پورے ہوئے؟

مجھے یاد ہے ایک عرصے تک بینک کے نادہندگان سے 2 کھرب روپے واپس لینے کا بہت چرچہ رہا ، ہمارے سابق چیف جسٹس تو مُصر تھے کہ وہ ہر قیمت پر بینک نادہندگان سے 2 کھرب روپے واپس لائیں گے۔ کیا یہ خواب پورا ہوا؟ اگر نہیں ہوا تو پھر 200 ارب ڈالر کو واپس لانے کا خواب کیسے پورا ہو گا؟ یہ 200 ارب ڈالر اور ایسی کئی بھاری رقوم جو لٹیروں نے بیرونی ملکوں میں جمع کر رکھی ہیں، اس وقت واپس آئیں گی جب اس ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب عوام کو یہ احساس ہو گا کہ یہ 200 ارب ڈالر ان کے ہیں اور اس کے حقیقی مالک وہ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں